ایوانِ بالا ، انتخابات اور پاکستان

بدھ 24 فروری 2021

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

بنیادی طور پر سینیٹ کی کسی بھی تعریف کو اُٹھا کر دیکھ لیجیے، چاہے وہ جدید ڈکشنری کے تحت ہو یا پھر کسی قدیم طرز حکومت کو دیکھتے ہوئے، مطلب یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا اداراہ، ایوان، ہاؤس آج تک کی معلوم تاریخ میں شمار کیا جاتا رہا ہے اورآج بھی شمار کیا جا رہا ہے، کہ جس میں دانا لوگ شامل ہوں۔ ایسے دانا و عقل مند لوگ کہ جو لوئر ہاؤس، ایوان زیریں، اور پاکستان کے حوالے سے کہیں تو قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قانون سازی کو پاس کرنے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کریں کہ ایوان زیریں میں جو کاروائی ہوئی وہ ملک ، قوم، عوام کے لیے کتنی بہتر ہے اور کتنی نہیں۔

ہمیں اکثر تاریخ میںCounsil of Eldersجیسے الفاظ تاریخ میں لکھے نظرآتے ہیں اور ہالی وڈ کی قدیم تاریخ پہ بنائی گئی فلموں میں بھی سننے کو ملتے ہیں۔

(جاری ہے)

گھر میں کسی بڑے کی مثال کو سامنے رکھیے۔ کوئی مباحثہ ہو یا فیصلہ کرنا ہو ، بزرگ یا بڑے کی عقل و دانش سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے کہ ہر ایک کو توقع ہوتی ہے کہ وہ اپنی عقل و دانش کے تحت نا صرف بہتر فیصلہ کریں گے بلکہ وہ فلاح کا عنصر بھی زائل نہیں ہونے دیں گے۔

اور ان بڑوں پہ سب کو اعتماد بھی ہوتا ہے ۔
ْْقدریم روم میں سینیٹ کے وجود و نشانات ایسے ہیں کہ جوآج تک کے جدید دور میں قائم ہیں۔ کہ سینیٹ ، ہاؤس آف لارڈر،کونسل آف ایلڈرز، اپر ہاؤس، ایوان بالا یا کوئی بھی نام پکار لیجیے، ذہن میںآ تے ہیں ایک ہی مطلب سامنے آتا ہے اور جو مطلب ہمارے دل و دماغ میں آتا ہے وہی مطلب قدیم روم میں بھی تھا۔جدید دور میں اگر ہم جائزہ لیں تو امریکہ میں سینیٹ انتہائی مظبوط ہے۔

روس میں چیئرپرسن فیڈریشن کونسل کا عہدہ صدر و وزیر اعظم کے بعد تیسرا مضبوط ترین عہدہ ہے۔ اسی طرح برطانوی ہاؤس آف لارڈز کا کردار بہت مضبوط ہے۔ موجودہ معلوم تاریخ میں اگر ہم بطور طالبعلم مشاہدہ کریں تو قدیم روم کے بعد اس وقت امریکی سینیٹ کو ہم مضبوط ترین شمار کر سکتے ہیں کہ سینیٹ اراکین ایک مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ اور امریکی سینیٹ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

اکثریت اعلیٰ عہدوں کی، سینٹ کو جوابدہ ہیں۔
پاکستان میں حالات ہمیں مختلف نظر آتے ہیں۔ اور یہاں ہم اکثر دیکھتے ، سنتے اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ آئینی طور پر تو سینیٹ کے پاس اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ لیکن عملاً صورتحال نمائشی سے بڑھ کر ثابت نہیں ہو رہی۔ ہمیں سینیٹ میں حرکت صرف سینیٹ کے انتخابات کے دوران ہی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر سینیٹ ایوان زیریں کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو دیکھ اور پرکھ سکتا ہے۔

لیکن پاکستان میں حقیقی معنوں میں کیا ایسا ہو رہا ہے؟ جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔آپ کا دل خود اس سوال پہ جواب نفی میں دے رہا ہو گا۔ پاکستان میں سینیٹ کا سوائے اس کے کہ، متناسب نمائندگی تمام صوبوں کو میسر ہوئی، کے کوئی فائدہ بظاہر نظر ہم طالبعلموں کو نہیں آیا۔ اس حوالے سے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جان بوجھ کے سینیٹ کی اصل افادیت اجاگر نا کی گئی، نا ہونے دی گئی۔

آئینی طور پر صدرِ پاکستان کی ملک میں عدم موجودگی یا کسی بھی حوالے سے عہدہ خالی ہونے کی صورت میں چیئرمین سینیٹ ہی قائمقام صدر کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
ہمیں موجودہ سینیٹ انتخابات میں بھی یہ خبریں آئے روز سننے کو ملتی ہیں کہ سینیٹ میں کرپشن کی منڈی لگی ہے۔ اور ایک ویڈیو اس حوالے سے سامنے آئی کہ صوبائی اسمبلی کے پی کے کے ممبران دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹ رہے ہیں۔

لیکن اس پورے معاملے کو ایک الگ جہت کے ساتھ دیکھیں تو ہماری سیاسی پارٹیاں سینیٹ کے ساتھ کتنی سنجیدہ ہیں ، یہ پارٹی ٹکٹس تقسیم کرنے کے مرحلے سے ہی واضح ہو چکا ہے۔ حکمران جماعت نے فیصل واڈا صاحب کو ٹکٹ سے نوازا ، جب کہ ان پہ پہلے ہی نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اور دوسرا وہ کس شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں سر انجام دے چکے ہیں کہ ایوانِ بالا میں اُن کی عقل و دانش سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔

قریبی دوست یعنی دوست محمد حکومتی سنجیدگی کی ایک اور مثال ہیں۔ سیف اللہ ابڑو کو ٹکٹ ملنے کی وجوہات میڈیا میں زیر بحث لائی جا چکی ہیں۔ مولانا صاحب کے حوالے سے خبریں زیر گردش ہیں کہ پارٹی ٹکٹس بھی فیملی میں ہی گردش کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی وزیر اعظم کو نااہلی سے نا بچا سکی لیکن اسے سینیٹر بنا کے ایوان میں بہرحال واپسی کا سوچ رہی ہے۔

حکومت وقت پہ جتنی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس سے زیادہ غیر ذمہ داری سینیٹ میں ٹکٹس کی تقسیم کے حوالے سے بھی نظر آ رہی ہے۔ سندھ میں پی ٹی آئی کا فیصل واڈا کو ٹکٹ دینا کارکنان کے حوصلے پست کر رہا ہے تو کچھ دوستوں کو نوازنا بھی نظریاتی کارکنوں کو پسند نہیں آیا۔ بلوچستان میں ٹکٹس کی تقسیم میں غیر سنجیدگی ویسے ہی موضوعء بحث ہے۔ اسلام آباد سے حکومتی جماعت کا ٹکٹ کارکن کا نصیب ہونے کے بجائے ایک ایسی شخصیت کے نصیب میں ہوا کہ جس کے تعلقات آمریت ہو یا جمہوریت ہر حکومت سے بہترین رہتے ہیں۔


سینیٹ آف پاکستان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے غرض نہیں کہ اس ایوان کا کردار مضبوط کیا جائے اور حقیقی معنوں میں اس کی افادیت ثابت کی جائے۔ بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پہ متفق نظر آتی ہیں کہ ہر تین سال بعد سجنے والی منڈی میں مرضی کی بولی لگا کر مرضی کا امیدوار جتوا دیا جائے اور پھر تمام مدت کے لیے اس کو ربڑ سٹمپ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اور بس۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :