پیار کی باتوں سے پیٹ تو نہیں بھرتے ہیں

اتوار 30 اگست 2020

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

ذوالفقار علی بھٹّو مرحوم کے عہد کا ایک معروف شاعر حبیب جالب جب کسی مشاعرے میں جاتے تھے تب سامعین اُن کا تازہ کلام سننے سے پہلے اُن سے فرمائش کرتے (یہ جو سب وزیر ہیں سارے بے ضمیر ہیں…اور مَیں اُن کا امام ہُوں۔) کم ازکم دوبند ضرور سنادیں ۔وہ شاعر بے چارے اب الله کو پیارے ہوچکے ہیں ۔وہ آج اگر زندہ ہوتے توآج بھی شاید عوام کی طرف سے وہ سدا بہار اشعار بار بار سنانے کا مطالبہ ہوتارہتا کیونکہ وزراتو سارے وہی ہیں فقط اُن کے جوتے اور اُن کی پگڑیاں بدل دی گئی ہے یعنی شراب وہی ہے فقط بوتلیں بدل دی گئی ہیں۔


موجودہ حکومت جن لوگوں پر مشتمل ہے وہ وزیر بننے سے پہلے اور انتخابات سے قبل دھواں دھار تقریریں کرتے تھے ۔پچھلی حکومتوں کو نکمّی اور بے حس کہتے ہوے فرماتے تھے کہ مہنگائی کا جن اِن حکمرانوں کے ہاتھوں قابو میں نہیں آئے گا کیونکہ یہ بے ایمان ہیں۔

(جاری ہے)

پٹرول کی اصل قیمت کچھ اور ہوتی ہے اور حکمران ٹیکس میں اضافے پر اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

عمران خان صاحب فرماتے تھے کہ وہ اقتدار حاصل ہوجانے کے بعد سامانِ تعیش کو ملیا میٹ کردینگے۔ وزیرِآعظم ہاؤس اورحکمرانوں کے تصرف میں رہنے والی تمام بڑی بڑی عمارتوں کو وہ اور اُن کے ساتھی درس گاہیں اور ہسپتال میں تبدیل کردینگے۔وزیرِ آعظم صاحب فرماتے تھے کہ وہ پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم رائج کرینگے۔جناب کا سب سے بڑا دعویٰ جو آج بھی زبان زد خواص وعوام ہے کہ وہ پاکستان کو پندرہ سو برس پہلے والی مدینے جیسی ریاست بنادینگے۔

مدینے جیسی ریاست کی تشکیل تو کجا ابھی تک ریاست کی بنیاد بھی نہیں پڑی ہے۔اِشتہارات اور ڈراموں کی آڑ میں میڈیا پر فحاشی کو فروغ دے رہا ہے۔کہنے اور کرنے کا فرق ہی آدمی کو مومن سے منافق بنادیتا ہے۔
علاج معالجے کی سہولت اور مہنگائی قابو میں آتی دکھائی نہیں دے رہی ہے اور حکام کی جانب سے ’ سب اچھا ہے‘ کا نعرہ لگایا جارہا ہے اورپیار کے نغمے گنگنائے جارہے ہیں۔

پیار کا جب ذکر آیا ہے تو ایک پولس افسر کے مشاہدے پر مبنی ایک کہانی سن لیجیے۔
پولس اِنسپکٹر لکھتا ہے کہ تقسیمِ ہِند سے قبل لکھنؤ کا ایک بوڑھا نواب کسی جھگی میں پروان چڑھنے والی ایک حسین دوشیزہ کو بیاہ کرلے آیاتھا۔شادی کے چند ہی مہینے کے بعد اس بوڑھے نواب کی وہ حسین منکوحہ غائب ہوگئی اَور جس طرح مچھلی پانی میں اُتر کر گُم ہوجاتی ہے ‘ نواب کی وہ دِل رُبا بھی اُسی طرح برِّصغیر کی بھِیڑ بھاڑ میں گُم ہوگئی۔

پولس انسپکٹر کا بیان ہے کہ اُس نے اس گم شدہ حسینہ کو بِالآخرکراچی کے بازارِحُسن میں واقع بُلبلِ ہزار داستان بلڈنگ سے بازیاب کرلیااَور اُس کو نواب کے پاس چلنے کے لیے کہا۔پولس افسر کا کہنا ہے کہ اس کے بہت اِصرار کے باجوجُود وہ لڑکی نواب کے محل میں جانے پر تیار نہ ہوئی۔نواب صاحب کی حویلی اَور آسائش چھوڑ کر گندے کوٹھے میں مقیم ہونے کے سوال کے جواب میں اُس لڑکی نے مُسکراکر کہا،” وہاں تو صِرف پیار کی باتیں تھیں۔


کراچی کی سڑکیں اور گلیاں صدرِ مملکت جناب عارف علوی کو اور گورنر عمران اسمعٰیل کو ڈھونڈ رہی ہیں جہاں صدر بننے سے پہلے اُنھیں پھولوں کے ہار پہنائے جاتے تھے ‘ اب بھی کراچی کے عوام اُنھیں ہار پہنانے کے لیے بے تاب دِکھائی دیتے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ ہار کی شکل اور نوعیّت ذرا تبدیل ہوچکی ہے اور پھولوں کی جگہ پاپوش نے لے لی ہے۔


حکومت کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوے صاحبان آپ کواَناج‘ دال‘ گھی اَور گُڑ کا بھاؤ معلوم ہے کہ نہیں۔سچ پوچھیے تو آج کا بھاؤ ہمیں بھی معلوم نہیں ہے۔کیا کریں چیزوں کی قیمتوں میں ٹھہراؤ ہے ہی نہیں۔پہلے چیزوں کی قیمتیں سالوں سال برقرار رہتی تھیں۔ مرحوم ایوب خان نے جب عنان اقتدار سنبھالا تھا تب سال بہ سال خوردنی تیل اور اجناس کی قیمتوں میں تبدیلی ہوتی تھی۔

اُن کے جانے کے بعد چھ چھ مہینے پر اُتار چڑھاؤ ہونے لگا۔ تھے۔اَب نئی حکومت کی تشکیل پر صُورتِ حال یہ ہے کہ خوردنی اَشیاء اَور گھر گرہستی کا سامان صبح سات بجے جس بھاؤ میں ملتا ہے شام کو سات بجے اُس سے سَوا ہوجاتا ہے۔ہم اپنے ملازموں یا اپنے بچوں کو سؤ روپے دے کر یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ کتنے انڈے اور کتنا دودھ یا کونسی ڈبل روٹی لے کر آئیں۔

ہم انھیں سؤ روپے پکڑا کر کہتے ہیں کہ ہمیں دودھ‘ انڈے اور ڈبل روٹی چاہییے‘ کیا چیز کیسی اور کتنی ملے گی وہ بازار جاکر بھاؤ مول دیکھ لے اور خود ہی فیصلہ کرلے۔اِسی طرح آنے والے مہینوں میں بجلی اور گیس کے بلوں میں کتنا اضافہ کردیا جائے گا اِس بارے میں کوئی بھی پیش گوئی نہیں کرسکتا ہے۔ یہی حال علاج معالجے کاہے۔دَوا دارُو اور علاج معالجے غریب بے چاروں کی دسترس سے پہلے بھی دُور تھے اَب متوسّط طبقہ بھی ڈاکٹروں اَور طبیبوں کے پاس جاتے ہُوے گھبرانے لگا ہے۔


حکومت کی آمدنی اور اخراجات میں گورکھ دھندے جیسے پہلے ہوتے تھے اب بھی ویسے ہی کیے جارہے ہیں۔ عوام سے ٹیکس تو بڑی باقائدگی سے وصول کیے جاتے ہیں بلکہ ٹیکسوں کی وصولی کے نظام میں جدت بھی پیدا ہوگئی ہے‘ اِدھرہم نے کچھ خریدا اور اور ساتھ ہی ٹیکس کی ادائیگی بھی ہوگئی لیکن عوام اپنی بنیادی ضرورتوں سے جیسے پہلے محروم تھے اب بھی محروم ہیں۔

پانی کی عدم دستیابی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ بدستور جاری ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دواؤں کی جیسی پہلے قلت تھی وہاں آج بھی وہی صورت ہے۔کوئلے کا ذخیرہ سامنے پڑا ہُوا ہے اور ہمارے ماہی گیربے چارے ڈیزل مہنگا ہونے کے باعث اپنی کشتیاں کنارے لگائے بیٹھے ہیں ۔ دنیا کے دوسرے ممالک کوئلے کے ایندھن سے بڑے بڑے جہاز چلایا کرتے ہیں اورہم معمولی کشتی بھی نہیں چلا پارہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :