ہمارے ائیر پورٹس کے قریب رہائشی آبادیاں

بدھ 3 جون 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

مجھے 2014میں پہلی فضائی سفر کا تجربہ ہواجب میں ایک کانفرنس کے لیے لاہورسے کراچی سے لندن کے لیے روانہ ہوا۔اسی طرح 2015میں دوبارہ ایک کانفرنس کیلیے ہانگ کانگ جانے کا اتفاق ہوا۔اور پھر 2016میں چائنہ، پھر جاپان، سنگاپور، ملائیشیا، دوبئی، قطر اور اِس سال مجھے کینبرا،اور سڈنی آسٹریلیا جانے کا اتفاق ہوا۔اِس کے علاوہ مجھے چائنہ میں قیام کے دوران کئی شہروں،مثلاًبیجنگ،شنگھائی اور دالیان کے فضائی سفر کا تجربہ بھی ہوا۔

میری اِن سارے فضائی سفروں کے دوران ایک روٹین ہوتی تھی کہ میں واپسی کی فلائیٹ کے لیے اپنے ہوٹل سے تقریباً4گھنٹے کا وقفہ رکھ کر نکلتا تھا، جس میں 3گھنٹے انٹرنیشنل ٹریول کی ہدایت کے مطابق اور ایک گھنٹہ ہوٹل یا سٹی سنٹر سے اُس شہر کے ائیرپورٹ تک کیلئے۔

(جاری ہے)

میرے اس تجربے میں تمام ائیر پورٹس شہر سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر تھے جنکو بس یا میٹروٹرین کے ذریعے طے کیا جاتا تھا۔

اِس ضمن میں ملائیشیا کوالا لمپور کا ائیرپورٹ ٹرمینلII سے سب سے زیادہ دور تھا ۔جس کا بس کے ذریعے دورانیہ تقریباً 75منٹ اور فا صلہ اندازاً80 کلومیٹر تھا۔ میری ابزرویشن کے مطابق ان تمام ائرپور ٹس کے قریب کوئی شہری آبادی دکھائی نہیں دیتی تھی جبکہ قطر اور ہانگ کانگ کے ا ائرپورٹس پر لینڈنگ تو ایک ایسا منظر پیش کر رہی ہوتی تھی کہ جیسا ہوائی جہاز پا نی پر اتر رہا ہوتا ہے اور پھر ایک دم ساتھ ہی ائرپورٹ رن وے شروع ہو جاتا ہے ۔


دوسری طرف پاکستان سے میری فضائی سفر کا آغاز اور اختتام زیادہ تر لاہور ائرپورٹ سے ہی ہوا ہے جبکہ ایک مرتبہ مَیں کراچی ، ملتان اوراسلام آباد سے جہاز میں سوار ہوا یا سفر کا اختتام کیا ہو، اس کے ساتھ ساتھ مجھے لا ہور میں تقریباً8 سا ل رہنے کا اتفاق ہوا ہے جس میں ،میں لاہور کے مختلف علاقوں باغبان پورہ، اچھرہ، فردوس مارکیٹ،ڈی ایچ اے وغیرہ میں رہا ہوں اور آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں اندونِ لا ہور سمیت، لاہور کے مختلف علاقوں سے بخوبی واقف ہوں ۔

اِس کے ساتھ ہی مجھے لاہور لمز یونیورسٹی میں ایک سال جاب کا اتفاق بھی ہوا ہے اور میں اِس یونیورسٹی کی مختلف بلڈنگز(ایکڈیمک بلاک، سائنس اینڈ انجینئیرنگ بلاک)سے اچھی طرح واقف ہوں۔
 اب میں آپ کو لاہور ائرپورٹ پر لینڈنگ کی صورتِ حا ل بتاتا ہوں،فضا ئی سفر کے دوران میں اکثرو پیشتر ونڈوسیٹ لیتا ہوں۔لاہور ائرپورٹ پر جب جہاز لینڈ کر رہا ہوتا ہے ، اور رن وے کیلئے پوزیشن لے رہا ہوتا ہے ،توآپ کو نیچے ز مین پر سڑکیں واضح دکھائی دے رہی ہوتی ہیں،لاہور ائرپورٹ پر لینڈنگ کے دوران ڈی ایچ اے کی مین روڈز اور لمبز یونیورسٹی کی انجنےئرنگ بلاک کی بلڈنگ ، بھٹہ چوک اور علی ٹاؤن کے رہائشی مکان بخوبی دن کی روشنی میں نظر آرہے ہوتے ہیں اور آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ جیسے ان رہائشی مکانوں کے اوپر لینڈ کر نے لگے ہیں اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ علی ٹا ؤن کی دیوار کے ساتھ ہی لا ہور ائرپورٹ شروع ہو جا تا ہے اور ان کی دیوار کے ساتھ ایک پولیس موبائل کھڑی ہوتی ہے جو وہاں ڈیوٹی پر ما مور ہوتی ہے ۔

یہ میں نے آپ کو لاہور ائرپورٹ پر لینڈنگ کا منظر بتا یا ہے جبکہ اِس سے پہلے میں نے آپکو ہانگ کانگ اور قطر ائرپورٹس کی لینڈنگ کا تجربہ بھی بتا یا ہے لاہورٹ ائرپورٹ کے ایک طرف(لینڈنگ سائیڈ) ڈی ایچ اے ،علی ٹا ؤن کا علاقہ ہے جبکہ لاہور ائرپورٹ کے دوسری سائیڈ (ٹیک آف سائیڈ) پر عسکری کالونیاں ہیں اب میرا یہ سوال ہے کہ لاہور ائیرپورٹ کے اتنے قریب رہائشی کالونیوں کی اجازت کس طرح دی گئیں اور یہ کالونیاں ائیرپورٹ کے قریب کس طرح بن گئیں؟کیا ہمارے ائیرپورٹس کے قریب یہ رہائشی کالونیاں کسی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ نہیں ہیں؟
آج سے کچھ سال پہلے میں لاہور میں اپنے قیام کے دوران شام کے وقت لاہور کے پورش علاقوں (کینٹ، ڈیفنس، ائیرپورٹ)میں ہوم ٹیوشنزپڑھایا کرتا تھا اور اکثر مجھے اِن ہاؤسنگ سوسائیٹز اور نئے بننے والی ہاؤسنگ سوسائیٹز یا اِنکی extensionsیعنی (ڈیفنس فیزVIII)میں جانا پڑتا تھا۔

یہ سوسائیٹیزاپنی تشہیر کیلئے لکھا کرتی تھیں، ائیرپورٹ سے صرف 5منٹ کی مسافت پر، ائیرپورٹ سے صرف 10منٹ کی مسافت پر یا ائیر پورٹ سے صرف 15منٹ کی مسافت پر۔ تو میں اُس وقت بھی سوچا کرتا تھا کہ یہ ہاؤسنگ سوسائیٹیز اپنی مارکیٹنگ کے لیے ائیرپورٹ کا نام کیوں اِستعمال کر رہی ہیں ، اِن سوسائیٹیز کو اپنی تشہیر کیلیئے ائیرپورٹ کا نام اِستعمال نہیں کرنا چاہیے۔

اور مذید یہ کہ یہ ہاؤسنگ سوسائیٹیز ائیرپورٹ کی حدود سے کم از کم 15-20کلومیٹر دور ہونی چاہیں، لیکن بس کیا کریں کہ جی یہ پاکستان ہے اور یہاں سب کچھ مُمکن ہے ، یہاں قاعدہ، قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔
اگرچہ مجھے کراچی ائیرپورٹ پر صرف ایک دفعہ لینڈ کرنے اور ٹیک آف کرنے کا اتفاق ہو ا ہے اور وہ بھی رات کے دوران۔لیکن میرا خیال ہے کہ کراچی ائیرپورٹ کی حالت بھی لاہور ائیرپورٹ سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی،اُس کے قریب بھی اُسی طرح لاہور ائیرپورٹ کی طرح عمارتیں اور رہائشی مکانات ہوں گے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بد قسمت فلائیٹ پی کے 8303ایک رہائشی علاقہ پر گِری ۔

اگر کراچی ائیرپورٹ کے قریب تقریباً 25-30کلومیٹر کے radiusمیں کوئی رہائشی عمارت نہ ہوتی تو شاید نقصان کا تخمینہ کم ہوتا۔ابھی تو ہمارے ٹی وی چینلز اور مین سٹریم میڈیا طیارہ حادثہ کے مقام پر رہائشیوں کی اموات کو صحیح رپورٹ نہیں کررہا اور یہ بتارہا ہے کہ اموات صرف طیارے کے عملے اور اُس میں سوار مسافروں کی ہوئی ہیں، لیکن سوشل میڈیا اور وہاں کے علاقہ مکین ، مقامی آبادی کی اموات کا ذکر بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

دراصل ہمار ے ملک میں کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے ہمارے مُلک میں بیش بہا مسائل ہیں۔اب اِس طیارہ حادثہ میں ایک طرف تو ائیرٹریفک کنٹرولر کی نااہلی ہے جس نے پائلٹ کو لینڈنگ ویل کھلے بغیر ہی اور SOPsکو فالو کیے بغیر ہی لینڈنگ کی اجازت دے دی، جبکہ دوسری طرف پائلٹ کی غلطی بھی ہے جس نے ائیر ٹریفک کنٹرولر کو اعتماد میں لیے بغیر (Belly-landing)کی کوشش کی۔

اسکے علاوہ اِس طیارہ حادثہ میں ایک مسئلہ قریبی ملیر کا لونی کا رہائشی علاقہ بھی ہے کیونکہ پلین کریش کی جگہ سے رن وے تقریباً1500میٹر کی دوری پر تھا اور عینی شاہدین اور علاقہ مکین بتاتے ہیں کہ اُن کے لیے رن وے پر اپروچنگ جہاز ایک معمول کی بات ہے، تو آپ اِس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے فضائی سفر کس طرح کے خطرات کا شکار ہے جس میں ایک طرف ائیرلائن پائلٹ اور ائیر ٹریفک کنٹرول کی کوتاہی اور دوسری طرف ائیرپورٹس کی حدود سے ملحقہ رہائشی علاقے کسی مصیبت کا عندیہ ہیں۔

میں پھر اپنا سوال دُھرانا چاہتا ہوں کہ ائیر پورٹ کے قریب علاقوں میں رہائشی کالونیوں کی اجازت کیوں کر دی گئیں؟کیا ہماری ٹرینیں اور ہمارے جہاز یوں ہی ہماری غفلتوں کیوجہ سے حادثات کا شکار ہوتے رہیں گے اور ہمارے وزیرِہوابازی بھی وزیرِریلوے کیطرح ٹی وی چینلز پر آکر لوگوں کے نیب کے ہاتھوں صرف فال نکالتے رہیں گے یا پھر کوئی ڈھنگ کا کام بھی کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :