کورونا بمبار

بدھ 17 جون 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

پچھلے چند دنوں میں حکومت ِپاکستان نے مالی سال 2020-2021کے لیے 7294.9بلین روپے کا بجٹ پیش کیا۔مالی سال 2020-2021کابجٹ حکومت کیلئے ایک انتہائی مشکل بجٹ تھاجس میں ایک طرف تو کرونا وبا نے حکومت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جبکہ دوسری طرف ٹڈی دل، پٹرول بحران، آٹا اور چینی بحران نے حکومت کی رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ، اور اب اِس وقت حالت یہ ہوئی پڑی ہے کہ ہر شخص مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں انتہائی پریشان ہوا پڑا ہے۔

بحر حال اِس ساری صورتحال میں ہم لوگ صرف دُعا ہی کر سکتے ہیں یا اپنے حد تک کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا سکتے ہیں یہ سمجھتے ہوئے کہ ہماری وجہ سے انفرادی یا اجتماعی سطح پر کوئی خرابی واقع نہ ہو۔
 اِس سارے کرونا کرائسز میں حکومت اور عوام کیطرف جس طرح کی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا اُس نے ہمارے سارے دعوؤں اور ہمارے سماجی، معاشرتی اور معاشی نظام کے کھوکھلے پن کو عیاں کر کے رکھ دیاہے۔

(جاری ہے)

حکومت ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے پچھلے 3-4ماہ کے دوران بڑے پیمانے اِس کروناوباسے بچنے کی تاکید کی، لیکن ہمارے عوام، مذہبی مکتبِ فکر کے لوگ ، تاجر برادری اور سول سوسائٹی نے جس طرح اِس ساری مصیبت کو ایک کھیل تماشا سمجھا، تو اُس کا انجام آج یہ قوم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔آج جب ہمارے عزیزواقارب، سیاست دان، اداکار، کھلاڑی ، وزیر کبیر بیمار ہونا شروع ہوئے ہیں تو اب کچھ حکومت اور عوام کی آنکھیں کُھلنا شروع ہوئی ہیں۔

اب میراآپ لوگوں سے یہ سوال ہے کہ بالآخر پاکستانی عوام کے اِس اڈیل(rigid)، غیر سنجیدہ اور غیر محتاط رویے کی وجہ کیا ہے؟کیا دنیا کے مُہذب ، سنجیدہ، شائشتہ اور محتاط قومیں ایک ہی دن میں بن جایا کرتی ہیں؟کیا لوگوں کے دلائل سے قائل ہونے کی عادت، حقائق کو ماننے کی عادت اور مِلکر کسی مصیبت کا سامنا کرنے کی عادت دنوں اور ہفتوں میں پیدا ہو جاتی ہے؟جی نہیں جناب!قوموں کی تربیت میں سالوں سال لگتے ہیں، دراصل قوموں کی تربیت کرنے کے لیے ملنساری، محنت، ہمدردی، اخلاص جیسے جذبات اور وسائل درکار ہوتے ہیں تب کہیں جا کر سنگاپور، نیوزی لینڈ، جرمنی اور جاپان جیسی محنتی، شائستہ،مہذب اور سنجیدہ قومیں پروان چڑھتی ہیں۔

اگر آپ (حکومت اور مقتدر حلقوں)نے پچھلے ستر سالوں سے اپنی پاکستانی قوم پر محنت، تربیت اور وسائل خرچ نہیں کیے تو پھر یہی حال ہونا تھا جو اب ڈیڑھ لاکھ کرونا مریضوں سے پورے مُلک کا ہواہے جس میں اب ہر گلی، محلے میں لوگ اب کرونا بم بن کر پھر رہے ہیں۔ پہلے اِس بد قسمت قوم پر خودکش بمبار سوار تھے اِس پر مذید اب اِن میں کرونا بمبار بھی شامل ہوگئے ہیں۔


کسی بھی قوم کی تربیت ایک انتہائی مُشکل ،لیکن انتہائی اہم کام ہوتا ہے جسکے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی تربیت اور تہذیب یافتہ بنانے کے لیے بنیادی چیز اُس قوم کو دی جانیوالی موئثر تعلیم ہے۔اگر آپ کا تعلیمی نظام یکساں، معیاری اور موثئر ہے تو پھر تقریباً 50-60فیصد تربیت اُسی تعلیم سفر کے دوران ہوجاتی ہے۔اگرآپ کا تعلیمی نظام آپ کے لوگوں کو برداشت، بُردباری، فہم، رواداری اور احساسِ ذمہ داری سکھا رہا ہو تو پھر کامیابی اُس قوم کا مُقدر بن جاتی ہے۔

اِس سلسلے میں اگر آپ پاکستان کے تعلیم کے شعبے کودیے جانیوالے وسائل اور بجٹ پر ایک نظر ڈالیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تعلیمی نظام کو بہتر بناناترجیح میں شامل ہی نہیں ہے۔ اِس لیے شاید یہی وجہ ہے کہ 22کڑوڑ آبادی کا یہ مُلک صرف ایک کنزیومر مارکیٹ کے سوا کچھ نہیں۔ہم پاکستانی لوگ مُلک میں سوئی تک تو بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ہمارے پاس نہ تو ماہر کمرشل پائلٹس ہیں اور نہ ہی قابل ٹرین ڈرائیور اور عملہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے کمرشل جہاز ہوں، ٹرینیں ہوں یا بسیں ہوں سب تباہی کا شکار ہیں۔


جب کہ اِس کے برعکس سنگاپور50-60لاکھ آبادی والا مُلک اور شہر ہے جو اپنے جی ڈی پی کا اندازاً20فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اورآج یہی وجہ ہے کہ سنگاپور کی یونیورسٹیز، کالجز، انجیئرنگ وٹیکنالوجی کا شعبہ، بزنس، کنسٹرکشن انڈسٹری، غرض ہر شعبہ میں ترقی کر رہا ہے اور اِسی وجہ سے ایشئین ٹائیگر کہلاتا ہے۔ آپ یقین کیجیے سنگاپور کھانے پینے کی تقریباً ہر چیز باہر سے خریدتا ہے کیونکہ اِس کے پاس زرعی زمین نہیں ہے ، یہاں تک کہ سنگا پورپینے کا پا نی تک ملائیشیا سے خریدتا ہے لیکن اِس کے باوجود اِس کا جی ڈی پی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔

سنگاپور دراصل اپنے لوگوں کے ہنر کو بیچ کر پیسے کماتا ہے۔سنگاپور کے پاس دنیا کے بہترین انجنئیر، ڈاکٹرز،پروفیسرز،کمپیوٹر ایکسپرٹس،بزنس مین، غرض ہر شعبہ کے ماہر لوگ موجود ہیں۔دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں، ائیربس اور بوئنگ کے وئیر ہاوسزاور بینک وغیرہ سب سنگاپور میں ہیں۔میں یہاں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کیا یہ سب کچھ ایک دن میں ہو گیا، کیا یہ سب کچھ راتوں رات ہوگیا؟جی نہیں جناب !اِس سب میں سالوں سال کی محنت شامل ہے۔

1960ء کی دہائی میں جب سنگاپور، ملائیشیاسے آزاد ہوا تو اُس کے پاس کچھ نہیں تھاسوائے دلدلی زمینوں کے۔میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اُس وقت سنگاپور کی یہ حالت تھی کہ ملائیشیا اُسے اپنے ساتھ رکھنے کو تیا رنہیں تھا اِسی لیے اُس نے سنگاپور کو اپنے سے الگ کردیا۔ لیکن پھر سر لی کوائن یی(Sir Lee Kuan Ye) کی قیادت میں اِس دلدلی زمین نے ترقی کرنا شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو حیران کردیا۔


سنگاپور کے اِس سارے ترقی کے سفر میں سنگاپور کے پالیسی سازوں کی سوچ، دوراندیشی اورقوم سے ہمدردی تھی جس کے تحت اُنہوں نے اپنی قوم پر اپنے وسائل خرچ کیے، اپنی قوم کی تربیت کی، اپنی قوم کو شعوروآگاہی اور بصیرت دی۔میں دُنیا کے تقریباً دس مُلکوں کا سفر کر چکا ہوں، لیکن مجھے سنگاپور کے شہریوں کے طورطریقے، شائستگی، احساسِ ذمہ داری اورایمانداری کہیں اور نظر نہیں آئی۔

سنگاپور کی حکومت نے سنگاپور کو صاف رکھنے کیلئے بسوں، ٹرینوں اور پبلک مقامات پر صفائی سے آگاہی سے متعلق پوسٹرزاور بینرز آویزاں کیے ہوئے ہیں۔اِسی طرح ذیابیطس اور بلڈ پریشر سے متعلق آگاہی پوسٹرز اور بینرزبھی عوامی مقامات پر دکھائی دیتے ہیں۔تو یہ سب کچھ تربیت، آگاہی اور ذمہ داری اُجاگر کرنے کی کوشش اور ذریعہ ہی تو ہیں۔جبکہ اِس کے برعکس آپ ہماری حکومتوں کی جانب سے عوامی تربیت اور ٹرینیگز بھی آپ کے سامنے ہیں۔


اِس لیے میں حکومت اور احبابِ دانش سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ عوام کی اصلاح اور تربیت کا بندوبست کریں، جس کی بنیادنظامِ تعلیم کو بہتر اور موثئر بنانا ہوگا، اِس مقصد کے لیے مذید وسائل صرف کرنا ہوں گے،تاکہ ہماری عوام پاکستان کا سرمایہ بن سکیں۔ورنہ دوسری صورت میں پاکستان کے لوگ ہی پاکستان کے خلاف دہشت گرد ، خودکش بمبار یا کرونا بمبار بن جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :