عتیقہ اوڈھو کی زندگی کے قیمتی 9 سال

منگل 1 ستمبر 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

مجھے پچھلے دنوں پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کی خُوبرو اداکارہ، عتیقہ اوڈھو سے متعلق ایک خبر پڑھنے کا اتفاق ہو ا جس میں اُنکی نو سال بعد ایک کیس میں باعزت بَری ہونے کا ذکر تھا۔ یقین کیجیئے میں نے جب سے یہ خبر پڑھی ہے اُس دِن سے میرا دِل بوجھل ہورہا ہے۔عتیقہ اُوڈھو وہ اداکارہ ہیں جن کے ڈرامے اور فلمیں دیکھ کر مَیں اور میری ہم عُمر نسل جوان ہوئی ہے۔

میں نے زندگی میں پہلی بار سینما میں فلم ساتویں جماعت میں اپنے ایک انکل کے ساتھ دیکھی۔ اُس فلم کا نام تھا،مَمی اوروہ فلم شاید فیصل قریشی صاحب کی پہلی فلم تھی۔جبکہ فلم کے مرکزی کرداروں میں ندیم صاحب اور عتیقہ اوڈھو شامل تھیں۔اب میں واپس عتیقہ اوڈھو صاحبہ کے کیس کی طرف آتا ہوں،غالباً 2011ء میں عتیقہ اوڈھو صاحبہ پر فضائی سفر کے دوران دوبوتلیں شراب رکھنے کا کیس بنایا گیا۔

(جاری ہے)

مُبینہ طور پر یہ کیس سیاسی نوعیت کا تھاکیونکہ عتیقہ صاحبہ جنرل مُشرف صاحب کی پارٹی کی رُکن تھیں اور چند لوگوں کو اُنکی یہ سیاسی وابستگی بالکل پسند نہیں تھی۔اِس لیے اُنہوں نے جنرل صاحب کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اُوڈھو صاحبہ کو اِس گھنوؤنے کیس میں پھنسانے کی کوشش کی۔عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کے کیس کو تقریباً نو سال لگے جس میں کم وبیش 260پیشیاں اور 17جج صاحبان تبدیل ہوئے۔

پاکستان میں منشیات اور عصمت زنی جیسے کیس بہت ہی بُرے اور معیوب سمجھے جاتے ہیں، جس میں آپ پر الزام لگتے ہی آپ سوسائٹی کی نظروں میں مُجرم بن جاتے ہیں اور پوری سوسائٹی آپ کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگتی ہے۔ اِس کے بعد چاہے آپ اِن الزامات سے باعزت بَری بھی ہوجائیں، لیکن ہمارا ظالم معاشرہ آپکو معاف نہیں کرتا۔اوریہی کچھ عتیقہ اوڈھو صاحبہ کیساتھ بھی ہوا۔

اُنہیں اپنی بے گُناہی ثابت کرنے میں نو(09)سال لگ گئے ، اِن نو سالوں کے دوران وہ کِن کِن مالی ، نفسیاتی اور ذہنی مسائل کا شکاررہی ہوں گی یہ چیز وہ خود یا اُنکے خاندان کے لوگ ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔اِن نو سالوں میں اُن کا فنی کئیریر تباہ ہو کر رہ گیا، نہ جانے وہ کس طرح کے مالی مسائل کا شکاررہی ہوں گی اور اُنہوں نے کِس طرح تھانے کچہریوں کے چکر لگائے ہوں گے، شاید وہ اپنے آپ سے پوچھتی ہوں کہ میں نے پاکستان فلم اور ٹی وی انڈسٹری کی خدمت کرکے ایسی کون سی غلطی کی ہے جسکی سزا یہ معاشرہ ، یہ مُلک اور اِسکے لوگ مجھے دے رہی ہیں ۔

عتیقہ اُوڈھو کا کیس پاکستان کے انصاف کے مُنہ پر سیدھا سادھا طمانچہ ہے۔
اِسکے ساتھ ساتھ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ دو بوتلیں شراب کے کیس کی تفتیش کے لیے نو سال کا عرصہ کیونکر درکار ہوتا ہے؟ کیا ہمار اتفتیشی اور عدالتی نظام اِتنا ہی گیا گُزرا اور اتنا ہی گھِسا پِٹا ہے جس نے ایک خُوب رو اداکارہ کے نو سال ضائع کردیے ۔ آپ یقین کیجیئے اگر کوئی ریاست یا اِس کا کوئی ادارہ اِس طرح سے میرے نو سال برباد کردیتا تو میں شاید اُس ریاست یا اُس ادارے کے خلاف ہتھیار ااُٹھا لیتا ۔

پاکستان میں جب تک اِس طرح کے انصاف کا نظام رہے گا تو پھر یہاں لوگ طالبان بن کر ریاست اور اُسکے اداروں کیساتھ برسرِپیکار رہیں ہوتے رہیں گے۔ہمارے نظامِ عدل اور ریاستِ پاکستان کو اِس طرح کے کیس کا فیصلہ اِس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا۔عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کیساتھ اِس طرح کی زیادتی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اگرآپ عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کی اوسطاً ماہانہ تنخواہ یا آمدن پچاس ہزار روپے لگائیں تو ایک سال میں یہ رقم چھ لاکھ بنتی ہے اور نو سالوں میں یہ رقم 54لاکھ روپ بنتی ہے۔

عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کے کیس میں عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ الزام لگانے والے شخص یا ادارے یا تفتیشی اداروں پر تقریباً 50لاکھ کا جُرمانہ کرتی ، جو اِن نو سالوں میں کیس ثابت نہیں کرپائے۔اور اِس پر مذید یہ کہ میری رائے میں اُس معزز جج صاحب کو بھی یہ تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے میڈیا یا وڈیو پیغام کے ذریعے معافی بھی مانگنی چاہیے تھی کہ جس نظامِ عدل کے تحت ایک ملزم پر نو سالوں تک انصاف کی تلوار لٹکتی رہی۔

اور اِس پر ظلم یہ کہ انصاف کے یہ رکھوالے اِس فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے کے روادار نہیں۔ عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کا واقعہ پاکستان کے فنکاروں، اداکارؤں، سائنسدانوں، تحقیق دانوں، ڈاکٹروں، انجئینروں، پروفیسروں اور دانش وروں کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے کہ ہم (انصاف کے رکھوالے)اِس طرح آپ پر بھی دو بوتلیں شراب کا الزام لگا کر آپ کو بھی اندر دھر سکتے ہیں، اور آپکو بھی انصاف کی چِکی میں پِیس سکتے ہیں۔

عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کا کیس اِس چیز کی دلیل ہے کہ اِس مُلک میں کوئی قانون ، کوئی قائدہ نہیں۔ کوئی بھی شخص آپ پر جھوٹا مُقدمہ بنا کر آپ اورآپ کے خاندان کو عدالتوں اور کورٹ کچہریوں میں ذلیل کر سکتا ہے۔
اِسی سے مِلتا جُلتا ایک اور کیس کچھ عرصہ پہلے پی کے ایل آئی کے سینئر ڈاکٹر جناب سعید اختر صاحب کیساتھ بھی پیش آیا۔ پی کے ایل آئی ( پاکستان کڈنی اینڈ لیورانسٹیٹوٹ) لاہور پاکستان میں گُردے اور جگر کی سرجری اور ٹرانسپلانٹ (Transplant)کا پہلا ادارہ تھاجس کو شہباز شریف صاحب نے بنانے میں خصوصی دِلچسپی لی۔

لیکن پھر یہ شاندار پراجیکٹ ایک سابقہ چیف جسٹس صاحب کی اِنا اور اقربا پروری کی نذر ہو گیا۔پی کے ایل آئی کی تعمیر سے پہلے جگراور گُردے کے مریضوں کو ہر سال لاکھوں اور کڑوڑوں روپے خرچ کر کے علاج کے لیے باہر ہندوستان، چائنہ، برطانیہ اور یورپ جانا پڑتا تھا۔ ڈاکٹر سعید صاحب نے جو پہلے الشفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آبا د میں بطور ڈاکٹر تعینات تھے ، اُنہوں نے یو اے ای گورنمنٹ ، پنجاب گونمنٹ اور شہباز شریف کے تعاون سے یہ پراجیکٹ شروع کیا تاکہ پاکستان کے لوگ مُلک کے اندر ہی گُردے اور جگر کی سر جری یا ٹرانسپلانٹ کر واسکیں۔

لیکن پھر پاکستان کی اعلٰی عدلیہ اِس پراجیکٹ کے آڑے آگئی اور عزت مآب جسٹس ثاقب صاحب نے اِن فارن کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کی تنخواہوں پر اعتراض اُٹھانا شروع کردیا۔ جبکہ اِس سے پہلے ڈاکٹر سعید صاحب امریکہ میں practisingسرجن اور یوریالوجسٹ تھے جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اِس قوم کی خدمت کرنے آئے تھے۔ میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کا واپس وطن آکر اِس مُلک کی خدمت کرنے کا فیصلہ اُنکی بہت بڑے غلطی تھی ۔

اُنہیں کیا پڑھی تھی کہ وہ امریکہ جیسا مُلک چھوڑ کر اِس مسائل کے شکار مُلک میں واپس آتے ؟ جسٹس ثاقب صاحب نے جس طرح اِس معاملے میں مداخلت کرکے اِس پراجیکٹ کو تباہ کیا ، اِس واقعے کے بعد شاید ہی کوئی اور ڈاکٹر یا انجئینر، پروفیسر یا سائنسدان واپس مُلک میں آکر کام کرنے کی غلطی کرے۔ مُلک میں Brain drainageکی حالت یہ ہے کہ ہر قابل انجئینر ، سائنسدان، مُحقق، مینیجر، ڈاکٹر، اکاؤنٹنٹ کسی دوسرے مُلک کا پاسپورٹ جیب میں ڈال کر پھر رہا ہے یا پھر کسی دوسرے مُلک کی شہریت کیلئے تگ ودو کر رہا ہے۔


اِس مُلک میں عدل وانصاف کی عدم دستیابی سینکڑوں ، ہزاروں داستانیں موجود ہیں ، میں نے صرف ایک دو آپ کے سامنے رکھی ہیں یہ سمجھتے ہوئے کہ اگر ہمارہ نظامِ عدل اِن اعلٰی تعلیم یافتہ اور قابل لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکتا تو پھر عام آدمی کا کیا بنے گا جس کا کوئی پُر سانِ حال نہیں ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :