
عتیقہ اوڈھو کی زندگی کے قیمتی 9 سال
منگل 1 ستمبر 2020

تصویر احمد
(جاری ہے)
اِسکے ساتھ ساتھ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ دو بوتلیں شراب کے کیس کی تفتیش کے لیے نو سال کا عرصہ کیونکر درکار ہوتا ہے؟ کیا ہمار اتفتیشی اور عدالتی نظام اِتنا ہی گیا گُزرا اور اتنا ہی گھِسا پِٹا ہے جس نے ایک خُوب رو اداکارہ کے نو سال ضائع کردیے ۔ آپ یقین کیجیئے اگر کوئی ریاست یا اِس کا کوئی ادارہ اِس طرح سے میرے نو سال برباد کردیتا تو میں شاید اُس ریاست یا اُس ادارے کے خلاف ہتھیار ااُٹھا لیتا ۔پاکستان میں جب تک اِس طرح کے انصاف کا نظام رہے گا تو پھر یہاں لوگ طالبان بن کر ریاست اور اُسکے اداروں کیساتھ برسرِپیکار رہیں ہوتے رہیں گے۔ہمارے نظامِ عدل اور ریاستِ پاکستان کو اِس طرح کے کیس کا فیصلہ اِس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا۔عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کیساتھ اِس طرح کی زیادتی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اگرآپ عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کی اوسطاً ماہانہ تنخواہ یا آمدن پچاس ہزار روپے لگائیں تو ایک سال میں یہ رقم چھ لاکھ بنتی ہے اور نو سالوں میں یہ رقم 54لاکھ روپ بنتی ہے۔ عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کے کیس میں عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ الزام لگانے والے شخص یا ادارے یا تفتیشی اداروں پر تقریباً 50لاکھ کا جُرمانہ کرتی ، جو اِن نو سالوں میں کیس ثابت نہیں کرپائے۔اور اِس پر مذید یہ کہ میری رائے میں اُس معزز جج صاحب کو بھی یہ تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے میڈیا یا وڈیو پیغام کے ذریعے معافی بھی مانگنی چاہیے تھی کہ جس نظامِ عدل کے تحت ایک ملزم پر نو سالوں تک انصاف کی تلوار لٹکتی رہی۔اور اِس پر ظلم یہ کہ انصاف کے یہ رکھوالے اِس فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے کے روادار نہیں۔ عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کا واقعہ پاکستان کے فنکاروں، اداکارؤں، سائنسدانوں، تحقیق دانوں، ڈاکٹروں، انجئینروں، پروفیسروں اور دانش وروں کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے کہ ہم (انصاف کے رکھوالے)اِس طرح آپ پر بھی دو بوتلیں شراب کا الزام لگا کر آپ کو بھی اندر دھر سکتے ہیں، اور آپکو بھی انصاف کی چِکی میں پِیس سکتے ہیں۔عتیقہ اُوڈھو صاحبہ کا کیس اِس چیز کی دلیل ہے کہ اِس مُلک میں کوئی قانون ، کوئی قائدہ نہیں۔ کوئی بھی شخص آپ پر جھوٹا مُقدمہ بنا کر آپ اورآپ کے خاندان کو عدالتوں اور کورٹ کچہریوں میں ذلیل کر سکتا ہے۔
اِسی سے مِلتا جُلتا ایک اور کیس کچھ عرصہ پہلے پی کے ایل آئی کے سینئر ڈاکٹر جناب سعید اختر صاحب کیساتھ بھی پیش آیا۔ پی کے ایل آئی ( پاکستان کڈنی اینڈ لیورانسٹیٹوٹ) لاہور پاکستان میں گُردے اور جگر کی سرجری اور ٹرانسپلانٹ (Transplant)کا پہلا ادارہ تھاجس کو شہباز شریف صاحب نے بنانے میں خصوصی دِلچسپی لی۔ لیکن پھر یہ شاندار پراجیکٹ ایک سابقہ چیف جسٹس صاحب کی اِنا اور اقربا پروری کی نذر ہو گیا۔پی کے ایل آئی کی تعمیر سے پہلے جگراور گُردے کے مریضوں کو ہر سال لاکھوں اور کڑوڑوں روپے خرچ کر کے علاج کے لیے باہر ہندوستان، چائنہ، برطانیہ اور یورپ جانا پڑتا تھا۔ ڈاکٹر سعید صاحب نے جو پہلے الشفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آبا د میں بطور ڈاکٹر تعینات تھے ، اُنہوں نے یو اے ای گورنمنٹ ، پنجاب گونمنٹ اور شہباز شریف کے تعاون سے یہ پراجیکٹ شروع کیا تاکہ پاکستان کے لوگ مُلک کے اندر ہی گُردے اور جگر کی سر جری یا ٹرانسپلانٹ کر واسکیں۔ لیکن پھر پاکستان کی اعلٰی عدلیہ اِس پراجیکٹ کے آڑے آگئی اور عزت مآب جسٹس ثاقب صاحب نے اِن فارن کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کی تنخواہوں پر اعتراض اُٹھانا شروع کردیا۔ جبکہ اِس سے پہلے ڈاکٹر سعید صاحب امریکہ میں practisingسرجن اور یوریالوجسٹ تھے جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اِس قوم کی خدمت کرنے آئے تھے۔ میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کا واپس وطن آکر اِس مُلک کی خدمت کرنے کا فیصلہ اُنکی بہت بڑے غلطی تھی ۔ اُنہیں کیا پڑھی تھی کہ وہ امریکہ جیسا مُلک چھوڑ کر اِس مسائل کے شکار مُلک میں واپس آتے ؟ جسٹس ثاقب صاحب نے جس طرح اِس معاملے میں مداخلت کرکے اِس پراجیکٹ کو تباہ کیا ، اِس واقعے کے بعد شاید ہی کوئی اور ڈاکٹر یا انجئینر، پروفیسر یا سائنسدان واپس مُلک میں آکر کام کرنے کی غلطی کرے۔ مُلک میں Brain drainageکی حالت یہ ہے کہ ہر قابل انجئینر ، سائنسدان، مُحقق، مینیجر، ڈاکٹر، اکاؤنٹنٹ کسی دوسرے مُلک کا پاسپورٹ جیب میں ڈال کر پھر رہا ہے یا پھر کسی دوسرے مُلک کی شہریت کیلئے تگ ودو کر رہا ہے۔
اِس مُلک میں عدل وانصاف کی عدم دستیابی سینکڑوں ، ہزاروں داستانیں موجود ہیں ، میں نے صرف ایک دو آپ کے سامنے رکھی ہیں یہ سمجھتے ہوئے کہ اگر ہمارہ نظامِ عدل اِن اعلٰی تعلیم یافتہ اور قابل لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکتا تو پھر عام آدمی کا کیا بنے گا جس کا کوئی پُر سانِ حال نہیں ہوتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
تصویر احمد کے کالمز
-
صرف بیس گھنٹوں کا کھیل
منگل 30 نومبر 2021
-
واقعی ہی کورونا کی تیسری لہر یا حکومتی دھوکے بازی؟
منگل 16 مارچ 2021
-
میٹروبس سروس ،واقعی سفید ہاتھی یا ہماری نااہلی
بدھ 24 فروری 2021
-
اپنا ذاتی گھر،ایسٹ نہیں لائیبلٹی
جمعرات 18 فروری 2021
-
میرے شہر میں وزیرِاعظم کی آمد
منگل 9 فروری 2021
-
ڈینیل پرل کی امریکہ جیسی ماں
جمعہ 5 فروری 2021
-
کرپشن کا پرچار
پیر 1 فروری 2021
-
بولنے کا خبط
جمعرات 28 جنوری 2021
تصویر احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.