متبادل

جمعہ 3 جولائی 2020

Umer Nawaz

عمر نواز

متبادل تو ہر دور میں ہوتا ہے کوئی چیز بھی اس دنیا میں ناگزیر نہیں میرے کپتان یہ شائد آپ کی غلط فہمی ہے کہ آپ کا متبادل نہیں ہے جب متبادل کی ضرورت ہوگی تو ایک لمحہ بھی نہیں لگنا اور آپ کا متبادل حاضر ہوجائے گا جب اس کی ضرورت پیش آئے گی تو میرے کپتان آپ کی پارٹی سے ہی بیس متبادل مل جائیں گے آپ اس کے لیے فکر مند نا ہوں کہ آپ کےبعد شائد آپ کا متبادل نا مل سکے بنانے والوں کے پاس پاس ایک کے متبادل دو دو ہوتے ہیں ابتداء سے ہی دیکھ لیں کہ چوہدری محمد علی کو انہوں نے امریکہ سے لا کر متبادل بنا لیا تھا اس وقت بھی آپ جیسے سمجھتے تھے کہ ہمارا متبادل نہیں پھر سہروردی جیسے لوگ چوہدری محمد علی کے متبادل بنے سکندر مرزا کو بھی شائد آپ جیسا وہم تھا کہ اب ان کامتبادل کہا سے آئےگا تو لوگوں نے اس کا متبادل اس کے اپنے ادارے سے آتے ہوئے دیکھا جنرل ایوب خان نے اس ملک پر کتنے سال حکومت کی ان کا خیال آہستہ آہستہ پختا ہورہا تھا کہ اب ان کا متبادل تو اس دنیا میں نا پید ہوچکا ہے اور وہی اب اقتدار میں ہمیشہ رہنے والے ہیں لیکن ایک لمحہ بھی نہیں لگا تھا ان کا متبادل آنے میں ان کو بھی عوام نے اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا جس گھر کو وہ ہمیشہ کا مسکن سمجھ بیٹھے تھے پھر اسی کو اہنےہاتھوں سے خالی کیا اور آگے شفٹ ہوئے جنرل یحیی خان بھی اقتدار کے ایوانوں کے مالک رہے لیکن وہ بھی چند سالوں بعد اس اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوئے ذولفقار علی بھٹو بھی اپنے عہدہ اقتدار میں یہی سمجھتے تھے بھٹو نا صرف پاکستان کے لیڈر تھے بلکہ ان کو تو تمام اسلامی دنیا بھی اپنا لیڈر مانتی تھی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس بھی اسی کا نتیجہ تھی ناصرف مسلم دنیا بلکہ بھٹو تو پوری دنیا میں اپنی پہچان رکھتے تھے ملک کے تمام طبقات کے لوگ بھٹو کو اپنا لیڈر مانتے تھے پہلا جمہوری وزیر اعظم دوتہائی اکثریت سے منتخب ہونے والہ بھٹو لیکن اس متبادل بھی آئےلوگ محمد خاں جانیجو بے شک دس سال بعد اور مارشل کی بے ساکھیوں سے ہی منتخب ہوا تھا لیکن بھٹو کے بعد وزیراعظم تو وہ بن گیا اتنے پاپولر لیڈر کے بعد کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ کون وزرات اعظم کی کرسی سنبھال سکھے گا لیکن اسی سندھ کی دھرتی سے ہی عوام نے متبادل بنتے دیکھا جنرل ضیاء کے متبادل غلام اسحاق کو لوگوں نے بنتے دیکھا جو کام امیر المومنین نے کیے تھے وہی راستے پے غلام اسحاق بھی چلا مرد مومن نے اپنے ہی لائے ہوئے وزیر اعظم کو چلتا کیا اور غلام اسحاق خان نے اس اسمبلی کو چلتا کیا جس نے اسے منتخب کیا پھر غلام اسحاق خان کے متبادل عوام نے فاروق لغاری کو بنتے دیکھا لغاری نے بھی وہی روائت برقرار رکھی جس پارٹی نے اسے اقتدار کے ایوانوں میں پہچایا اسی پارٹی کی پیٹھ میں لغاری کے چھرا گھوپناں نواز شریف کا شائد یہی خیال تھا کہ ان کا متبادل اس ملک میں نہیں لیکن اس کو بھی رپلیس ہوتے ہوئے عوام نے دیکھا ظفر اللّہ جمالی کا متبادل شوکت عزیز بھی اسی کابینہ سے خاضرہوگیا جمالی صاحب نے بھی یہ سمجھا ہوگا کہ ان کا متبادل کہاں سے آئے گا اے میرے کپتان جب متبادل والوں کو متبادل کی ضرورت ہوگی تو پھران کو آپ کی کابینہ کے اندرسے بھی متبادل مل جائے گا بلکہ وہ خود ہی شیروانی سلائی کروا کر خاضر ہوجائے کہ میں بھی ہوں مجھ پر بھی نظر کرم کرنا بلکہ بعض تو ایسے بھی ہیں جو شیروانی سلائی کروا کر اپنے پاس محفوظ کیے بیٹھے ہیں کہ کب اشارہ ہو اور وہ جلدی سے پہن لیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :