متبادل تو ہر دور میں ہوتا ہے کوئی چیز بھی اس دنیا میں ناگزیر نہیں میرے کپتان یہ شائد آپ کی غلط فہمی ہے کہ آپ کا متبادل نہیں ہے جب متبادل کی ضرورت ہوگی تو ایک لمحہ بھی نہیں لگنا اور آپ کا متبادل حاضر ہوجائے گا جب اس کی ضرورت پیش آئے گی تو میرے کپتان آپ کی پارٹی سے ہی بیس متبادل مل جائیں گے آپ اس کے لیے فکر مند نا ہوں کہ آپ کےبعد شائد آپ کا متبادل نا مل سکے بنانے والوں کے پاس پاس ایک کے متبادل دو دو ہوتے ہیں ابتداء سے ہی دیکھ لیں کہ چوہدری محمد علی کو انہوں نے امریکہ سے لا کر متبادل بنا لیا تھا اس وقت بھی آپ جیسے سمجھتے تھے کہ ہمارا متبادل نہیں پھر سہروردی جیسے لوگ چوہدری محمد علی کے متبادل بنے سکندر مرزا کو بھی شائد آپ جیسا وہم تھا کہ اب ان کامتبادل کہا سے آئےگا تو لوگوں نے اس کا متبادل اس کے اپنے ادارے سے آتے ہوئے دیکھا جنرل ایوب خان نے اس ملک پر کتنے سال حکومت کی ان کا خیال آہستہ آہستہ پختا ہورہا تھا کہ اب ان کا متبادل تو اس دنیا میں نا پید ہوچکا ہے اور وہی اب اقتدار میں ہمیشہ رہنے والے ہیں لیکن ایک لمحہ بھی نہیں لگا تھا ان کا متبادل آنے میں ان کو بھی عوام نے اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا جس گھر کو وہ ہمیشہ کا مسکن سمجھ بیٹھے تھے پھر اسی کو اہنےہاتھوں سے خالی کیا اور آگے شفٹ ہوئے جنرل یحیی خان بھی اقتدار کے ایوانوں کے مالک رہے لیکن وہ بھی چند سالوں بعد اس اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوئے ذولفقار علی بھٹو بھی اپنے عہدہ اقتدار میں یہی سمجھتے تھے بھٹو نا صرف پاکستان کے لیڈر تھے بلکہ ان کو تو تمام اسلامی دنیا بھی اپنا لیڈر مانتی تھی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس بھی اسی کا نتیجہ تھی ناصرف مسلم دنیا بلکہ بھٹو تو پوری دنیا میں اپنی پہچان رکھتے تھے ملک کے تمام طبقات کے لوگ بھٹو کو اپنا لیڈر مانتے تھے پہلا جمہوری وزیر اعظم دوتہائی اکثریت سے منتخب ہونے والہ بھٹو لیکن اس متبادل بھی آئےلوگ محمد خاں جانیجو بے شک دس سال بعد اور مارشل کی بے ساکھیوں سے ہی منتخب ہوا تھا لیکن بھٹو کے بعد وزیراعظم تو وہ بن گیا اتنے پاپولر لیڈر کے بعد کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ کون وزرات اعظم کی کرسی سنبھال سکھے گا لیکن اسی سندھ کی دھرتی سے ہی عوام نے متبادل بنتے دیکھا جنرل ضیاء کے متبادل غلام اسحاق کو لوگوں نے بنتے دیکھا جو کام امیر المومنین نے کیے تھے وہی راستے پے غلام اسحاق بھی چلا مرد مومن نے اپنے ہی لائے ہوئے وزیر اعظم کو چلتا کیا اور غلام اسحاق خان نے اس اسمبلی کو چلتا کیا جس نے اسے منتخب کیا پھر غلام اسحاق خان کے متبادل عوام نے فاروق لغاری کو بنتے دیکھا لغاری نے بھی وہی روائت برقرار رکھی جس پارٹی نے اسے اقتدار کے ایوانوں میں پہچایا اسی پارٹی کی پیٹھ میں لغاری کے چھرا گھوپناں نواز شریف کا شائد یہی خیال تھا کہ ان کا متبادل اس ملک میں نہیں لیکن اس کو بھی رپلیس ہوتے ہوئے عوام نے دیکھا ظفر اللّہ جمالی کا متبادل شوکت عزیز بھی اسی کابینہ سے خاضرہوگیا جمالی صاحب نے بھی یہ سمجھا ہوگا کہ ان کا متبادل کہاں سے آئے گا اے میرے کپتان جب متبادل والوں کو متبادل کی ضرورت ہوگی تو پھران کو آپ کی کابینہ کے اندرسے بھی متبادل مل جائے گا بلکہ وہ خود ہی شیروانی سلائی کروا کر خاضر ہوجائے کہ میں بھی ہوں مجھ پر بھی نظر کرم کرنا بلکہ بعض تو ایسے بھی ہیں جو شیروانی سلائی کروا کر اپنے پاس محفوظ کیے بیٹھے ہیں کہ کب اشارہ ہو اور وہ جلدی سے پہن لیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔