9جولائی سے کچھ باتیں

جمعہ 10 جولائی 2020

Umer Nawaz

عمر نواز

9جولائی 1967 کو مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا انتقال ہوا مادرملت بانیاں پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن ہیں قائد کا کہنا تھا کہ جتنا کام ملک بنانے کے لیے انھوں نے کیا اس سے زیادہ مادرملت نے کیا ہے مادر ملت نے ان کا ہر جگہ ساتھ دیا قائد کی وفات کے بعد اس ملک میں حکومتوں کا آنا جانا ایسے لگا رہا جیسے ریلوے سٹیشن پر گاڑی آتی ہے چند لمحوں بعد دوسری لیاقت علی خان کے بعد کوئی بھی وزیر اعظم حکومت کیا اپنا حکومتی ہنی مون پریڈ بھی مکمل نا کرسکا اوردقسمتی سے ملک میں مارشل لاء نافذ ہوگیا اور ملک ڈی ٹریک ہوگیا جنرل ایوب نے پھر اپنی مرضی سے حکومت کی اور جس طرح چاہی اس طرح کی پہلے تو وزیراعظم چند لمحوں کے مہمان ثابت ہوتے رہے لیکن ایوب خان کو کوئی پوچھنے والہ نہیں تھا اور ناہی کوئی اس کی حکومت گرانے والہ تھا اس ملک میں لیکن جب بدقسمتی سے 1965 کے الیکشن کا انعقاد کر ہی دیا گیا تو وہ بھی برائے نام الیکشن جس طرح ایوب خان اس الیکشن میں دھاندلی کروائی اور مادر ملت کے ساتھ جو سلوک کیا وہ سب تاریخ کے اوراق میں درج ہے بانیان پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے اوپرکس طرح الزام لگائے گے اور ان کوئی جو کردار کشی کی گئی یہ زندہ قوموں کا کام نہیں ہوتا اس طرح تو جاہل معاشرے بھی نہیں کرتے حکومت نے مادرملت کو غدار کہا اور غداری کے فتوے لگا کران کی کردار کسشی کی گئی آپ نے الیکشن چرانا تھا وہ آپ نے چرا لیا لیکن کسی کی کردارکشی کس لیے؟ لیکن غداری کا یہ ایک ٹائٹل تھا اس ملک میں محب وطنوں کو ہر دور میں غدار کہا گیا بلکہ عوام کے جو حقیقی نمائندے تھے ان کو غدار کا لقب دیا گیا اس ملک میں باچا خان کو بھی غدا کہا گیا ان کی کردار کشی کی گئی ولی خان اور غفار خان کو بھی غدار کا ٹائٹل دیا گیا جو پختونوں کے ہیرو تھے پختون عوام جن سے بے پناہ محبت کرتی تھی ان کو غدار کہا گیا یہ یہاں تک ہی نہیں رکے بلکہ بلوچستان کے  عوامی نمائندوں کو بھی اس اعزاز سے نوازا گیا سردار عطاء اللّہ مینگل ،نواب خیر بخش مری ،غوث بخش بزنجو، نواب اکبر بگٹی کو بھی غدار کہا گیا آئین توڑنے والوں عوامی منیڈیٹ کی توہین کرنے والوں کو اس ملک میں محب وطن قرار دیا گیا
لو چلی ہے رسم کہ کوئی سر اٹھا کر نا چلے
اس ملک میں صرف عوامی نمائندوں کو ہی نہیں بلکہ ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کو بھی غدار ٹھہرایا گیا
9جولائی کو ایک اور غدار استاد صحافت انسانی حقوق کے علمبردار پروفیسر وارث میر کی بھی برسی ہوتی ہے وہ بھی اس دن اپنے خدا کے پاس پہنچ گئے پروفیسر وارث میر نے اس ملک میں علم ادب کے ساتھ عوام کی خدمت کی عام آدمی کی آواز بنے جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہا اور اس کی پدائش میں بے پناہ مشکلات کا انھوں نے سامنا کیا لیکن پروفیسر وارث میر کسی کے سامنے جکے نہیں بلکہ عوام کے حقوق کے لیے اپنی قلم کے ساتھ ڈٹ کے کھڑے رہے
9جولائی کا دن ہمیں ان دو غدار قوم کے ہیرو کی یاد کا دن ہے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے اورعوام کے لیے جدجہد کرنے کے لیے ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :