سقوطِ ڈھاکہ کے پہلے غدار

پیر 9 اگست 2021

Waseem Akram

وسیم اکرم

21 مارچ 1948ء ڈھاکہ میں قائداعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے بنگالیوں کو انکی قربانیوں اور جدوجہدِ آزادی پر مبارکباد دی اور اس کے بعد انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی اس کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں۔ اور کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک اسکی ایک زبان نہ ہو۔ مشرقی بنگال صوبے کے لوگ اگر چاہیں تو بنگالی کو اپنی صوبائی زبان منتخب کرسکتے ہیں لیکن قومی زبان اردو ہی ہوگی۔

بنگالی قائداعظم محمد علی جناح کی بہت عزت کرتے تھے لہذا زبان کے معاملے میں وہ کچھ دیر خاموش ہوگئے لیکن جب اسی برس قائداعظم کی وفات ہوئی اور زبان کا مسئلہ یوں کا توں رہا تو ایک بار پھر جذبات بھرک اٹھے۔ جذبات اتنے بھڑکے کہ 1949 کو مشرقی پاکستان کے رہنماؤں نے اپنی ایک الگ جماعت بنا لی۔

(جاری ہے)

یہ جماعت پاکستان کی بانی جماعت "مسلم لیگ" کے مقابلے میں بنائی گئی تھی جسکا نام "عوامی مسلم لیگ" رکھا گیا تھا لیکن بعد میں اس میں سے مسلم کو نکال کر صرف "عوامی لیگ" رکھ دیا گیا کیونکہ بنگالی رہنما اسے سیکولر بنیادوں پر چلانا چاہتے تھے مذہبی پر نہیں۔

۔۔
اس جماعت کے پہلے صدر مولانا بھاشانی تھے اور جوائنٹ سیکریٹریز میں ایک طالب علم شامل تھے جنکا نام شیخ مجیب الرحمٰن تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن اس سے پہلے مسلم لیگ کی طلباء جماعت ایم ایس ایف میں رہ چکے تھے۔ زبان کی بنیاد پر بننے والی اس جماعت نے اپنے مقصد کے حصول کیلئے پہلے دن سے محنت شروع کردی اور وہ محنت تھی بنگلہ کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کی۔

لیکن جنوری 1952 کو ایک اور بنگالی رہنما کے ایک بیان سے صورتحال بگڑ گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ پاکستانی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین جو کہ خود بنگالی رہنماؤں میں سے تھے انہوں نے اعلان کردیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہونی چاہیے۔ یہ اعلان اس وقت کی ضرورت تھی کیونکہ پاکستان کا آئین بن رہا تھا اور آئین میں زبان کا مسئلہ حل ہونا تھا۔ اس اعلان کے بعد صورت حال یکسر بگڑ گئی اور مشرقی پاکستان میں مظاہرے شروع ہوگئے جسکی وجہ سے وہاں پر دفعہ 144 لگانی پڑ گئی لیکن ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے یہ پابندی ماننے سے انکار کردیا اور سڑکوں پر نکل آئے۔

طلباء اتنے غصے میں تھے کہ پولیس پر پتھراؤ کردیا اور واپس پولیس کی فائرنگ سے 5 طلباء مارے گئے۔ یوں وقتی طور پر احتجاج تھم تو گیا لیکن مشرقی پاکستان میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ زبان کی خاطر پانچ طلباء نے اپنی جان دے دی۔ اگلے دن احتجاج پھر شدت اختیار کرگیا طلباء نے یونیورسٹی کا بائیکاٹ کیا اور پاکستانی پرچم کو مشرقی پاکستان سے اتارنا شروع کردیا۔

پولیس نے ایک بار پھر فائرنگ کی اور مزید لاشیں گرا دیں اب صورتحال اتنی خراب ہوگئی تھی کہ مشرقی پاکستان میں فوج بلانی پڑھ گئی یوں فوج کی موجودگی میں مظاہرے کم تو ہوئے لیکن عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی اتنی مقبول جماعت بن گئی تھی جسکا فائدہ اسے صوبائی الیکشن میں ہوا اور اس نئی جماعت نے مشرقی پاکستان سے 97 فیصد ووٹ لیئے جبکہ مسلم لیگ کو صرف تین فیصد ووٹ ملے۔

اب عوامی لیگ کا مشرقی پاکستان میں ایک مطالبہ بنگالی زبان کا تھا جو مان لیا گیا اور اردو کے ساتھ بنگلہ کو بھی پاکستان کی قومی زبان قرار دے دیا گیا جبکہ انکا دوسرا مطالبہ کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ خودمختاری دی جائے ابھی راستے میں تھا کیونکہ یہ مطالبہ نہیں مانا جارہا تھا جسکی وجہ سے ایک بار پھر مظاہرے شروع ہوگئے اور حلاکتوں کی تعداد چارسو تک پہنچ گئی۔

اس وقت کے صوبائی وزیر فضل الحق پر غداری کے الزام لگنے شروع ہوگئے کہ فضل الحق انڈیا کی جماعت آر ایس ایس کے ذریعے مشرقی پاکستان میں فسادات کروا رہا ہے یوں عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں یہ نقصان اٹھانا پڑا کہ 23 مئی 1954 کو گورنر جنرل غلام محمد نے فضل الحق کی حکومت کو برطرف کرکے گورنر راج لگا دیا اور بنگال سے ہی تعلق رکھنے والے سکندر مرزا کو گورنر جنرل لگا دیا گیا اور ساتھ ہی ایئر فورس کے ذریعے پرچیاں گرائی گئیں جن پر لکھا ہوا تھا کہ فضل الحق پاکستان کو توڑنا چاہتے تھے اس لیئے انہیں برطرف کردیا گیا ہے۔

یوں پاکستان کی پہلی منتخب حکومت جس نے 97 فیصد ووٹ لیئے تھے اسے دو ماہ سے بھی کم وقت میں غداری کے الزام لگا کر گھر بھیج دیا گیا تھا اور وہ شخص جس نے 1940 کو قرار داد پاکستان پیش کی تھی اسے غدار کہہ کر گھر میں نظر بند کردیا گیا تھا اور عوامی لیگ کے 659 رہنماؤں کو گرفتار کرلیا تھا جن میں مجیب الرحمٰن بھی شامل تھے۔ اپنی اسی گرفتاری کے دوران ہی شیخ مجیب الرحمٰن نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب وہ بنگال کی آزادی کیلئے اپنی جدوجہد کریں گے۔

1963 میں شیخ مجیب الرحمٰن عوامی لیگ کے صدر منتخب ہوئے تو عملاً پاکستان کا مستقبل انکے ہاتھ میں آگیا تھا کیونکہ مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی۔ یہاں سے ان واقعات نے جنم لینا شروع کیا جو اس وقت کی دنیا اسلام کی سب سے بڑی ریاست کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرگیا۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :