
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- زعیم ارشد
- لاک ڈاؤن کے دوران دکانوں میں بند برائے فروخت جانوروں کی بڑی تعداد میں اموات
لاک ڈاؤن کے دوران دکانوں میں بند برائے فروخت جانوروں کی بڑی تعداد میں اموات
جمعرات 9 اپریل 2020

زعیم ارشد
ایک دفعہ ایک صحابی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس طرح کہ ان کے ہاتھ میں کسی پرندے کے بچے تھے، جو چوں چوں کر رہے تھے، آپ ﷺ نے ان بچوں کے متعلق استفسار فرمایا ؟ تو صحابی نے بتایا کہ میں ایک جھاڑی کے پاس سے گزر رہا تھا ان بچوں کی آواز سنی تو انہیں وہاں سے اٹھا لیا، اور بتایا کہ جب میں نے انہیں اٹھایا تو ان کی ماں بہت بے چین ہو گئی تھی، اور میرے اردگر د چکر کاٹ رہی تھی، سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ فوراً جاؤ اور ان بچوں کو وہیں رکھ دو جہاں سے اٹھایا تھا، آپ ﷺ نے جانوروں کے منہ پر مارنے سے منع فرمایا اور نشانی کے لئے جانوروں کے جسموں کو آگ سے داغنے سے بھی منع فرمایا۔
(جاری ہے)
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا کی وباء کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں اور مختلف طریقوں سے بچاؤ کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس وقت جو سب سے موثر طریقہ دنیا بھر میں رائج ہے وہ ہے لاک ڈاؤن ، لہذا، حکومتی احکامات کے مطابق صرف ضروری اشیاء کی دکانیں جزوی طور پر کھل رہی ہیں دیگر مارکیٹس بند ہیں۔ جن میں نائی کی دکان، کتابوں کی دکانیں اور دیگر دکانیں بھی سختی سے اس پابندی کا شکار ہیں ان ہی دکانوں میں بدقسمتی سے پالتو جانوروں اور پرندوں کی دکانیں بھی شامل ہیں۔ جو اسی دائرہ کار میں شامل تھیں لہذا وہ بھی بند کردی گئیں ۔ بے چارے ، مجبور و لاچار پنجروں میں بند جانور بھی دکانوں میں بند کر دئے گئے۔ اور انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ کم و بیش دس روز تک بے یار و مددگار بھوکے پیاسے دکانوں میں بند رہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے عائشہ چندریگر کا کہ وہ رحمت کا فرشتہ بن کر باقی ماندہ جانوروں کی داد رسی کو پہنچیں اور ان کو مرنے سے بچایا۔
ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ سو فیصد مالکان ان بے بس جانوروں کا خیال نہ رکھ سکے کچھ چھپ چھپ کر رات میں جا جا کر ان قیدی جانوروں کی خبر گیری کرتے رہے اور ان کے کھانے پانی کا بندوبست بھی کرتے رہے، مگر یہ دکاندار دو فیصد سے بھی کم ہیں، بقیہ جانور بے چارے بے یار و مدد گار اپنی اپنی دکانوں میں جہاں وہ قید تھے مدد کے منتظر رہے، اور آخر کار ان میں سے ستر فیصد زندگی کی بازی ہار گئے۔ پاکستان میں جانوروں کے حقوق کی علمبردار عائشہ چندریگر نے کراچی میں ایمپریس مارکیٹ میں پھنسے ہوئے فروخت کیلئے رکھے گئے جانوروں کی دکانوں سے بڑی تعداد میں موجود جانوروں کو بازیاب کرایا اور ان کی جان بچائی، انہیں وہاں سے نکال کر مناسب جگہ منتقل کیا ان کی خوراک و پانی کا بندوبست کیا، ان کے علاج کا بندوبست کیا۔ مگر دل دہلانے والی بات یہ تھی کہ جب تک یہ مدد پہنچی مظلوم جانوروں کی بڑی تعداد اپنی جان گنوا چکی تھی۔ جس کی خبریں مقامی اور بین القوامی پرنٹ میڈیا میں بڑی سرخیوں کے ساتھ لگی ہوئی تھیں۔
عائشہ چندریگر جو لاوارث اور بیمار جانوروں کی بہبود کا ادارہAnimal Rescue ACF چلاتی ہیں ، وہ بیان کرتی ہیں کہ جب وہ ان لاچار جانوروں کی مدد کو پہنچیں ہیں تو حالات اس قدر تکلیف دہ اور دکھ بھرے تھے کہ دیکھ کر آنسو نکل پڑے، ستر فیصد جانور دم گھٹنے یا بھوک کی وجہ سے مر چکے تھے ، وہ بیچارے ایسی جگہ قید تھے جہاں نہ خوراک و پانی کا بندو بست تھا اور نہ ہوا کا گزر تھا تو آدھے بھوک سے مگر گئے اور آدھے دم گھٹ کر مر گئے۔ یہی حال لاہور کی دکانوں کا بھی ہوا اور وہاں بھی بڑی تعداد میں فروخت کیلئے رکھے گئے جانور بیچارگی کی موت مارے گئے۔ اسی طرح کے معاملات باقی شہروں میں ہوئے ہوں گے، کچھ جگہوں سے رپورٹ ہو گئے کچھ جگہوں سے تو رپورٹ ہی نہیں ہو سکے۔
بہت ممکن ہے جانوروں کی اس طرح بے بسی و بے کسی کی موت کچھ لوگوں کیلئے کوئی خاص اہمیت و اثر نہ رکھتی ہو مگر اسی معاشرے میں درد دل رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی موجود ہے ۔ ظلم کسی پر بھی ہو بہر حال ایک نا پسندیدہ فعل ہے اب وہ جان بوجھ کر کیا گیا ہو یا کوئی مجبوراً اس کا شکار ہو جائے، مگر اس سے ظلم کی ماہیت، اس کی تکلیف اور اس کی بد شکلی میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔
حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عائشہ نے ارباب اختیار کو بہت ہی کارآمد مشورہ دیا ہے کہ وہ اس طرح کے دکانداروں کو کم از کم اتنی سہولت ضرور فراہم کریں کہ وہ اپنی دکانوں میں موجود پنجروں میں بند جانوروں کو کھانا پانی فراہم کر سکیں۔ مان لیں ہم پر دنیا کے سوچنے کا کوئی اثر نہیں پڑتا مگر صرف انسانیت کے ناطے ہی ہمیں ان کمزور اور مظلوم جانوروں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرنا چاہئے۔ یہ بھی ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور ہماری توجہ اور ہمدردی کے اتنے ہی مستحق ہیں جتنا کہ کوئی انسان۔
بہر حال حادثہ تو ہونا تھا سو ہوگیا مگر اب ہمیں اس طرح کے کسی بھی واقعے کو دوبارہ وقوع پذیر ہونے سے روکنا ہے ، یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جانوروں کی فلاح و بہبود کے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں، یہ ایک بہت ہی نظر انداز کیا جانے والا معاملہ ہے، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی سطح پر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے، عام آدمی کی سطح پر آگہی مہم چلائی جائے، اس کیلئے ہمیں مل کر کام کرنا پڑے گا، اور حکومت کو بھی مدد کرنا ہوگی اور ساتھ دینا ہو گا۔ ہم سب کو مل جل کر ایسی تنظیموں اور لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرنا پڑیں گے جو جانوروں کی فلاح بہبود کیلئے انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کی آگہی مہم کا حصہ بن کر ، کچھ فنڈ دیکر، کچھ مخیر لوگوں کو ملا کر، ایک مضبوط کام کرنے کا تعلق بنانا ہوگا، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک تو بے زبان جانوروں کی مدد ہو جائے گی دوسرا ہما را ملک دنیا میں جگ ہنسائی سے بچ جائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
زعیم ارشد کے کالمز
-
باجے کی آزادی
پیر 23 اگست 2021
-
معاشرے پر اندھی تقلید کے مضمرات
بدھ 18 اگست 2021
-
انوکھے لاڈلے
جمعرات 1 جولائی 2021
-
اسمبلیز سیاسی دنگلوں کے اکھاڑے
پیر 21 جون 2021
-
معاشرے پر افواہ گردی و دشنام طرازی کے منفی اثرات
بدھ 16 جون 2021
-
کورونا عظیم انسانی بحران، عالمی مددگار تنظیم سازی کی ضرورت
بدھ 5 مئی 2021
-
مودی حکومت کا دھرا معیار
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
ہماری توجہ کے منتظر ویران ہوتے جنگل اور معدوم ہوتی جنگلی حیات
جمعہ 9 اپریل 2021
زعیم ارشد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.