ہاتھی کاون چلا تو گیا مگر؟؟؟

منگل 15 دسمبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

بہت مشہور کہاوت ہے کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مرا سوا لاکھ کا، مرغزار چڑیا گھر اسلام آباد کا ہاتھی کاون، عملہ کی نااہلی، غیر ذمہ داری اور نہ تجربہ کاری کی وجہ سے پاکستان کی شہرت ، نیک نامی اور عزت کو سوا لاکھ سے کہیں مہنگا پڑ گیا۔ جن حالات میں وہ یہاں سے گیا ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا میں بس ایک ہی جگہ ہے جہاں جانوروں پر ظلم ہو رہا ہے اور پوری دنیا میں صرف ایک ہی ہاتھی ہے جس پر ظلم کی انتہا کردی گئی ہے اور وہ ہے کاون ہے، پاکستان میں اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر کا مکین۔

حالانکہ دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی خاطر ہاتھیوں کو جس بے دردی سے مارا جاتا ہے اس کے سامنے کاون کا معاملہ کچھ بھی نہ تھا۔
جونہی آپ گوگل پر کاون کے متعلق سرچ ڈالتے ہیں اگر آپ پاکستانی ہیں تو بہت سارے شرمندہ کردینے والے نتائج آپ کے سامنے آجاتے ہیں۔

(جاری ہے)

جیسے کاون ایک انتہائی تکلیف دہ زندگی سے بچائے جانے کے بعد آخر کار کمبوڈیا پہنچ ہی گیا۔

یا کاون ایک انتہائی سنگین صورتحال سے بچا لیا گیا۔ یا پاکستان کے ایک چڑیا گھر میں زندگی کے 35 سال انتہائی تکلیف دہ، غیر مناسب، غیر معیاری اور بدترین ماحول میں تنہاء ایک تنگ و تاریک کوٹری میں قید گزارنے کے بعد کاون کو نئی زندگی مل گئی۔ جس مہم کے ذریعے کاون کو رہائی ملی اس کا عنوان بذات خود بہت چونکا دینے اور توجہ اپنی جانب کھینچ لینے والا تھا The world's loneliest elephant یعنی دنیا کا غمگین ترین، یا افسردہ ترین ہاتھی۔

یہ مہم دنیا بھر میں جس طرح چلائی اور پھیلائی گئی وہ بھی ملک کی ساکھ اور نام پر ایک ایک دھبہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
یوں تو کاون ایک عام سا ہاتھی تھا جو اب سے کوئی 35 سال پہلے سری لنکا نے پاکستان کو تحفہ خیر سگالی کے طورپر دیا تھا۔ اس وقت کاون کی عمر صرف ایک سال تھی اور وہ ایک چھوٹا سا پیارا سا ہاتھی کا بچہ تھا۔ 1985 سے 2020 تک کا عرصہ کاون نے اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں گزارا۔

2012 تک اس کے ساتھ ایک ہتھنی جس کا نام سہیلی تھا رہی پھر سہیلی بیمار ہو کر مر گئی، جو اپنی ذات میں ایک اچنبھے کی بات ہے کہ زمین کا سب سے طاقتور جاندار پاوں کے ذخم میں گینگرین ہوجانے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پھر سہیلی کی لاش بھی کئی روز تک چڑیا گھر میں ہی پڑی رہی اور اسے جب اٹھایا گیا تو کاون اچھا خاصہ ذہنی دباؤ جھیل چکا تھا۔

تب سے کاون اکیلا چڑیا گھر میں قید تھا۔
جہاں کاون کی آزادی خوشی اور اطمینان کا باعث ہے وہیں جس طریقے سے اسے رہائی ملی وہ ملک کے نقطہء نظر سے نہایت ہی افسوسناک اور شرمندہ کردینے والا ہے۔ کاون کی رہا ئی کی مہم چلانے والوں نے اسے دنیا بھر میں The world's loneliest elephant کے نام سے مشہور کردیا تھا۔ یعنی کاون دنیا کا مظلوم ترین، تنہا ہاتھی مشہور کرنے کیلئے باقاعدہ مہم چلائی گئی جس میں سوشل میڈیا نے بڑا کردار ادا کیا۔

اس مہم میں امریکہ کی مشہور گلوکارہ سے لیکر جانورون کی فلاح و بہبود کی تنظیموں نے مل کر بہت کام کیا جس کی وجہ سے دنیا بھر سے قریب چار لاکھ لوگوں نے کاون کی آزادی کیلئے ووٹنگ میں اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ ساتھ ساتھ کاون کی گرتی ہوئی جسمانی اور نفسیاتی صحت، چڑیا گھر میں موجود ناکافی سہولیات، رہنے کی غیر معیاری جگہ اور علاج نہ ہونے کو لیکر دنیا بھر میں خوب خوب چرچا ہوتا رہا، جو 90% درست بھی ہے۔

جو ذمہ داران کی نا اہلی اور خراب کارکردگی کو دنیا کے سامنے تماشہ بنائے رکھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی رہی۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں خوب جگ ہنسائی ہوتی رہی اور ہو رہی ہے۔
کاون کی ساتھی ہتھنی سہیلی کی موت کے بعد کاون تنہائی کا شکار ہوگیا تھا جس نے اسے دکھی اور غصہ ور بنا دیا تھا، وہ ہر وقت جھنجھلایا ہوا رہتا تھا، اس کے رویئے میں غصہ و اشتعال نمایاں نظر آنے لگا تھا۔

چڑیا گھر کے عملے نے اس کا یہ حل نکالا کہ اسے ایک تنگ جگہ پر زنجیروں سے باندھ کر قید کردیا جس نے نہ صرف کاون کو جسمانی بلکہ نفسیاتی نقصان بھی پہنچایا وہ اور زیادہ جھنجھلایا ہوا اور غصے میں رہنے لگا۔ اس کے پیروں میں زخم پڑ گئے تھے ۔ وہ دور ہی سے ناخوش اور اداس نظر آنے لگا تھا۔ وہ بیچینی کی حالت میں مسلسل جھومتا رہتا تھا۔ جو اس کی ذہنی نا آسودگی اور پریشانی کو ظاہر کرتا تھا۔

کاون کے کھانے پینے علاج اور رہنے کا بھی مناسب انتظام نہ تھا۔ وہ اتنی بڑی جسامت کے باوجود ایک قابل رحم، لاچار اور مجبور نظر آتا تھا۔ جو آہستہ آہستہ لوگوں کی ہمدردیاں اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ ایسے میں ایک پاکستانی ویٹرن طالبہ ثمر خان نے سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز کیا جس میں کاون کی حالت زار کو اجاگر کیا گیا تھا۔ یہ مہم بڑھتے بڑھتے اچھی خاصی مقبول ہوگئی اور بین القوامی مہم کا نقطہء آغاز بنی اور آخر کار کاون کی آزادی پر منتج ہوئی۔

اس مہم میں جہاں امریکہ کی مشہور گلوکارہ نے کلیدی کردار ادا کیا وہیں جانوروں کی فلاح و بہبود کی بین الا قوامی تنظیموں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیا۔
 جب بھی کاون کی کہانی کا فلش بیک چلتا ہے تو محض چند لوگوں اور ایک ادارے کی نا اہلی کی وجہ سے پورے ملک پاکستان اور پاکستانیوں کو شرمندگی اٹھانی پڑرتی ہے۔

کیوں کہ مشہور سیلیبریٹی بھی اس مہم کا حصہ تھیں تو اس معاملے نے خوب شہرت پائی۔ اور کاون کے حق میں بہت ہی مثبت اور خوشگوار نتیجے ظاہر ہوئے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور پاکستانی اہلکاروں کی خوب جگ ہنسائی بھی ہوئی اور اب تک ہو رہی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک مشکل معاملہ تھا مگر ایسا بھی نہ تھا کہ پاکستان جیسا ملک اسے اپنے طور پر نہ سنبھال سکتا۔ ہاتھی کو بہتر ماحول اور مناسب علاج معالجے کے ذریعے بہتر حالت میں رکھا جاسکتا تھا۔

اس کے بعد ہم خود کسی بھی جانوروں کی فلاحی تنظیم سے رابطہ کرکے اسے کہیں بھیج سکتے تھے۔ مگر ارباب اختیار اور متعلقہ ادارے کو نہ تو ملک کی ساکھ کی فکر ہے نہ عوامی تذلیل کی ۔ غیر سنجیدگی سے لئے گئے معاملات کے نتائج تذلیل اور رسوائی کی شکل میں ہی نکلا کرتے ہیں۔ سو اس کے بھی ایسے ہی نتائج بر آمد ہو رہے ہیں۔
کمبوڈیا پہنچنے کے بعد کاون کی جو تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی جارہی ہیں وہ بڑی خوبصورت بنا کر پیش کی جا رہی ہیں، تاکہ دنیا یہ جان لے کہ یہ وہی مظلوم ہاتھی ہے جو آج کتنا خوش اور مطمئن ہے۔

دکھایا جا رہا ہے کہ اب کاون بہت خوش مطمئن اور آرام سے ہے، روئیے بھی بہت نارمل اور زندگی سے بھرپور نظر آرہے ہیں۔ خوشی خوشی کھیل رہا ہے، ہم خود اس بات کے گواہ ہیں کہ پاکستان کے چڑیا گھروں میں ہمیشہ ایک ہاتھی ہوتا ہی تھا، مگر ایسا واویلا کبھی نہیں مچا، اس پورے خرابے کی ذمہ دار مرغزار چڑیا گھر کی انتظامیہ ہے۔ کہ اتنے سالوں تک وہ اپنی ذمہ داری سے کیسے روگردانی کرتے رہے، اگر ان کی تعلیم و تربیت ایک ایسے جانور کو پالنے اور سنبھالنے کی نہ تھی تو وہ کس بنیاد پر وہاں کام کر رہے تھے اور کس بات کی تنخواہ لے رہے تھے۔


امر استعجاب یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں ہاتھی عام طور پر پالا جاتا ہے، جہاں یہ پایا جاتا ہے وہاں بھی اور جہاں نہیں پایا جاتا وہاں بھی، جیسے بھارت، سری لنکا اور تھائی لینڈ میں ہاتھی خوب پایا جاتا ہے اور پالا بھی جاتا ہے، ان کی عام پالتو جانوروں کی طرح مندیاں لگتی ہیں، اور خرید و فروخت ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ ہاتھی سماجی طور پر بالکل کٹا ہوا یا بند کر کے رکھے جانے والے جانور کے طورپر نہیں ہوتا بلکہ اس پر تو باقاعدہ سواری کرائی جاتی ہے، ہم نے خود شادیوں میں ہاتھی پر دولہا کو بیٹھے دیکھا تھا۔

اس کے برعکس دنیا کے دوسرے ممالک میں ہاتھی کو بھی دیگر خونخوار جنگلی درندوں کی طرح انکلوژرز میں رکھا جاتا ہے۔ پھر یہ کاون کا تماشہ کیوں کر بنا۔ ارباب اختیار کو اس بات کا ضرور نوٹس لینا چاہئیے، اور باقاعدہ تحقیق ہونا چاہئیے کہ کن عناصر کی وجہ سے ملک کی شہرت و نیک نامی کو نقصان پہنچا۔
 ہاتھی بڑے ذہین اور سمجھدار ہوتے ہیں ۔ یہ جنگلوں میں جھنڈ کی شکل میں رہتے ہیں، جن کی سردار ہمیشہ ایک عمر رسیدہ ہتھنی ہوتی ہے، جسے تمام راستوں اور وہاں موسم کے مطابق پانی کے زخیروں اور چراگاہوں کی مکمل معلومات ہوتی ہے جو اسکی ماں سے سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی اس تک پہنچی ہوتی ہے۔

بہت ممکن ہے کہ کاون کو بھی کوئی جھنڈ اپنا لے ، جو ہے تو بظاہر ناممکن مگر ایسا ہوگیا تو کاون کی کایہ پلٹ جائے گی اور وہ سماجی طورپر ایک مکمل آزاد جنگلی ہاتھی کی زندگی گزار سکے گا۔ بہرکیف باعث تسکین امر یہ ہے کہ ایک جیتے جاگتے جانور کو نئی زندگی مل گئی اور موجودہ حالات کے تناظر میں اس بات کی قوی امید کی جاسکتی ہے کے کاون کی آئندہ زندگی آرامدہ اور خوشگوار ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :