قائد اعظم یونیورسٹی، مجید ہٹس کے مجید صاحب

پیر 22 مارچ 2021

Zahid Yaqub Aamir

زاہد یعقوب عامر

ہم ہمیشہ توپ و تفنگ کے عقب, سینما و فلم کی چکاچوند روشنیوں اور کھیل کے میدان میں نازو انداز دکھاتے کھلاڑیوں میں ہیروز ڈھونڈتے ہیں. ہیروز تو وہ بھی ہیں جنہوں نے تمام عمر اس معاشرے کی گلیاں صاف کرنے میں گزار دیں. جنہوں نے علم بانٹا, معاشرے کی تربیت کی اور پھر مسکراتے چہرے کے ساتھ زندگی کی تلخیاں جھیلتے آنکھیں موند گئے.


گذشتہ روز قائد اعظم یونیورسٹی کے مجید ہٹس کے روح رواں حاجی عبدالمجید صاحب کے انتقال کا معلوم ہوا. بہت دکھ ہوا.  اگر ہم قائد اعظم کے طلباء و طالبات میں سے کسی کو بھی گذشتہ چار وائس چانسلرز کے نام پوچھیں. یقین مانیں وہ بتانے سے قاصر ہوں گے.

(جاری ہے)

حالانکہ وائس چانسلر اپنی پوری نیک نیتی سے اس عظیم درس گاہ میں ترقی اور بہتری کے خواب دیکھتا ہے.  اس یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس, ان کے والدین, اہل خانہ سے قائد اعظم یونیورسٹی کے خستہ حال ڈھابے, مجید ہٹس کا پوچھیں سب کو معلوم ہو گا.

سب انہیں جانتے ہیں. سب نے یہاں سے کھانا کھایا ہے. سب اس شخص کی شفقت اور مسکراہٹ کو جانتے ہیں. پوری دنیا میں پھیلے سفیر, سائنس دان , محقق, بیوروکریٹ اور اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباء و طالبات جہاں بیٹھتے ہیں وہ مجید ہٹس کو یاد کرتے ہیں.
بالعموم یہ ہوتا ہے کہ لوگ یونیورسٹی سے ہو کر فوجی آفیسرز میس تک پہنچتے ہیں. میں جب قائد اعظم یونیورسٹی پہنچا تو آفیسرز میس سے ہوتا ہوا یہاں پہنچا تھا.

میں ایم فل کرنے آیا تھا. زندگی کے یہ دو سال پل بھر میں بیت گئے. اس پڑھائ, ڈگری کے ساتھ بہترین یادوں کا تحفہ وہ لمحات تھے جو اپنے اساتذہ اور دوستوں کے ہمراہ اس ہٹ پر گزارے. نہ کبھی اس جگہ ,برتن, کراکری میں نقص نکالے اور نہ کبھی ناز نخرے آڑے آئے. سادہ سا کھانا اور سینکڑوں لوگوں کی آمد و رفت. ادبی و تعلیمی مباحثے, نوک جھونک سب چلتا تھا.
مجید صاحب کاؤنٹر پر کم ہی موجود ہوتے تھے.

ان کا بیٹا انیس یہ معاملات سنبھالتا تھا. انیس سے اچھی یاد اللہ تھی. مسکراتا چہرہ مگر مجید صاحب جب وہاں پہنچتے تو سب لوگ انہیں احترام سے ملتے. وہ وضعدار اور بااخلاق انسان سب سے بہت تعظیم سے ملتے تھے. پچاس سالوں سے وہ یہیں.. اسی جگہ موجود تھے. سینکڑوں نہیں ہزاروں, لاکھوں سٹوڈنٹس گزرے. سفیر بنے, سیاستدان بنے, محقق اور تعلیمی گرو بنے. سائنس ,سیاست, بیوروکریسی
تو اس یونیورسٹی کے ہر تقریباً ہر سٹوڈنٹ کی منزل تھی اور جسے انہوں نے خوب پایا بھی.

 
یونیورسٹی میں بہت سے ہٹس ہیں. کراچی, کوئٹہ, فرنٹیئر, پنجاب, جنگل, قائدین, بایو, کیمسٹری ,سوشل بہت سے ہٹس ہیں. ہر جگہ سٹوڈنٹس کی یادیں جڑی ہیں.پرس یا جیب سے مڑا ہوا نوٹ نکال کر چاٹ, سموسہ, چائے, پراٹھہ, برگر, پیزہ کھاتے ہوئے کبھی کبھار ہر سٹوڈنٹ کا ہاتھ رکتا ہے. دو دوست ساتھ آن بیٹھیں تو فوٹو کاپی, نوٹس کے پیسے جیب میں نہیں بچتے. سب کا بچپن, سٹوڈنٹ لائف ایسی ہی ہے.

سب ان معاشی آہوں کا شکار ہوتے ہیں. سب لینڈ لارڈ نہیں ہوتے. ہوسٹل کا کھانا سب کو میسر نہیں ہوتا,سب کو اچھا نہیں لگتا. کچھ یونیورسٹی سے باہر بری امام کے علاقے میں چھوٹا سا کمرہ لے کر بھی اپنی تعلیم اور ضرورتیں پوری کرتے ہیں. کسی نے باہر واقع سٹوڈنٹ ہاسٹل کو اپنا مسکن بنایا ہوتا ہے اور ان کا لنچ یونیورسٹی کے کسی ڈھابے سے جڑا ہوتا ہے. مہمان آئیں تو انہیں اسی ہٹ سے کھانا کھلایا جاتا ہے.


مجید ہٹس پر اساتذہ اور سٹوڈنٹس ہر وقت موجود ہوتے تھے. یہ یونیورسٹی کے سٹاف کی پسندیدہ جگہ تھی. لوہے کی کرسیاں گھسیٹنا, دوستوں کا ایک حلقہ بنانا اور پھر بیٹھ کر گفت و شنید... گھنٹوں گزر جاتے. کبھی کبھار کوئ اولڈ قائدین اپنے بچوں کا ہاتھ تھامے یا بچے اپنے بابا کا ہاتھ تھامے اس کی یادوں کو زندہ رکھنے یہاں پہنچ جاتے. ہر کوئ انہیں کنکھیوں سے دیکھتا.

پہچان لیتا. ان کو سننے کی کوشش کرتا. وہ اولڈ قائدین اپنے بچوں کو گزرے لمحوں کا بتاتا یا بتاتی تھیں.  وہ درختوں کی طرف اشارہ کرتے,  بتاتے کہ یہ ہمارے سامنے لگائے گئے تھے. یہاں فرنٹ خالی تھا. یہ دوکانیں نہیں تھیں. کھانا بالکل ایسا ہی تھا. ریٹ بڑھ گئے ہیں. مہنگائی نے یہاں بھی وار کئے ہیں. وہ دوست نہیں رہے. آنکھیں بھیگ جاتیں. ہم خاموشی سے سنتے.

بہت سے گم شدہ چہروں کو ڈھونڈتی آنکھیں.  اگر آنکھیں چار ہو جاتیں تو مسکرا دیتے. دوسری سمت سے بھی شفقت بھری مسکراہٹ کا تبادلہ ہوتا.
ہٹس کے سامنے سبز نمبر پلیٹ والی گاڑی رکتی, کوئ درخت کے نیچے آن بیٹھتا. چائے کا اشارہ کرتا. اس کی آمد واضح اشارہ دیتی کہ شاہراہ دستور کے دوسری سمت سے تعلق رکھتا ہے. اُس کے کسی اِس طرح کے ڈھابے میں داخل ہونے کا انداز بالکل اجنبی نہ محسوس ہوتا تھا.

اس کی آمد خبر دیتی تھی کہ یہ جگہ اس کی یادوں جتنی پرانی ہے. اس کی یادوں جیسی اپنی ہے. وہ آنکھیں بند کر کے بھی پتھریلی, ناہموار جگہ سے کاؤنٹر تک پہنچ سکتا ہے جہاں مجید صاحب کھڑے ہوتے تھے.
ہم اولڈ قائدین اور نئے آنے والوں میں ایک فرق ہوگا. ہم نے مجید صاحب کو دیکھا اور ان کے ڈھابے سے خوب کھایا. آنے والے قائدین بھی انشاءاللہ اپنے مقدر کا کھائیں گے مگر انہیں یہ بھلے مانس شخص نہیں ملے گا.

اس کا نام ملے گا. وہ اپنوں کو مجید ہٹس کا بتائیں گے مگر یہ نہ بتا سکیں گے کہ مجید صاحب کس گرمجوشی سے ملتے تھے. انہیں یہاں کرائسس, ڈش, جلفریزی, پالک پنیر , سپیشل آلو, دال سپیشل, ملائ بوٹی کے ساتھ پرویزی ڈش بھی ملے گی جو ڈاکٹر پرویز امیر علی ہود بھائی کے نام سے معنون ہے. وہ اس ڈھابے سے کھانا کھاتے ہوئے چند کھانے مکس کروا دیتے تھے. یہ یہاں کی  پرویزی ڈش ہے.


میرے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں اگر مجھے میرے شفیق اساتذہ یاد ہیں تو چاچا ظفر بھی یاد رہنا چاہیے جو چائے مہیا کرتا تھا. وہ دفتری بھی یاد رہے جو ہمارا کلاس روم ٹھیک رکھتا تھا. سلمان بھی یاد رہے جو پوری پوری کتب کی فوٹو کاپی مہیا کرتا تھا.اسماعیل کی دھیمی مسکراہٹ,  اکرم صاحب بھی یاد رہیں جو ہر مسئلے کا حل بتاتے تھے.

یہ لوگ اس جگہ کی روح اور سانسیں ہوتے ہیں. یہ ہٹس کے مجید ہوتے ہیں جو بھانپ لیتے ہیں کہ کھانا کھانے آنے والے سٹوڈنٹ کی جیب میں پیسے نہیں ہیں. مسکراہٹ سے کہتے ہیں, بعد میں دے دینا. اور بعد میں کبھی پوچھتے بھی نہیں ہیں. ادھار کھانے والے سٹوڈنٹ کو دور سے سلام کرتے ہیں. باہر نکلتے ہوئے چہرہ دوسری طرف رکھتے ہیں کہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو.


میرے کلاس فیلو دوست حنین مہدی, جنہوں نے زندگی کا طویل حصہ قائد اعظم یونیورسٹی میں گزارا, بیان کرتے ہیں کہ ایک سٹوڈنٹ ان سے کہتا تھا کہ بلیوں کے لئے روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے چاہیں. وہ دے دیتے. وہ مسکرا کر ہاسٹل لے جاتا. ایک روز مجید صاحب نے ایک بچے کو بھیجا کہ دیکھو یہ لڑکا اس روٹی کا کیا کرتا ہے. معلوم ہوا کہ وہ چینی میں بھگو کر اس سے اپنے شکم کی آگ بجھاتا تھا.

پچاس سال تک اپنے بچوں کو کھانا کھلانے والا مجید بھانپ جاتا تھا کہ یہ بھوک اس کی اپنی ہے. لوگ بعض اوقات بہت مجبور ہوتے ہیں. ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوتا. معلوم نہیں مجید صاحب نے اس کا خیال کیسے رکھا ہوگا مگر ضرور رکھا ہوگا. کوشش کی ہوگی کہ اس کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو.
شیریں مزاری, ابرار الحق, اداکارہ حریم فاروق, گورنر شمشاد حسین, حمزہ عباسی, مریم اورنگزیب, جنرل شمیم وائیں, ایڈمرل ذکاء اللہ اور بہت سے طلباء و طالبات نے اپنی زندگی کے بہت سے لمحات اس ہٹ پر گزارے ہوں گے.

کرائسس کھائے اور مستقبل کے کرائسس پر بات کی ہوگی. شیریں مزاری صاحبہ نے تو ٹویٹر کے ذریعے مجید صاحب کے انتقال پر دکھ کا اظہار بھی کیا ہے.
اللہ تعالیٰ اس مادر علمی کو سرسبز و شاداب رکھے. یہاں کے امن کو نظر بد سے بچائے, اس کے سٹاف ,اساتذہ, ملازمین کو سلامت رکھے. یہ یونیورسٹی منی پاکستان کہلاتی ہے. انہی لوہے کی کرسیوں پر بیٹھ کر مجھے اپنے بلوچستان, فاٹا, جنوبی پنجاب, کشمیر,گلگت بلتستان کے ساتھیوں سے بات چیت, بحث و مباحثے کر کے پاکستان کے خال و خد سمجھ آئے. یہ تر دماغ نوجوانوں کا منی پاکستان ہے. ہم سب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں  اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اس منی پاکستان کو قائم و دائم رکھے. آمین ثم آمین.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :