شہید انٹرنیشنل ائیر لائنز

ہفتہ 30 مئی 2020

Zeeshan Noor Khilji

ذیشان نور خلجی

یہ مدیحہ ارم ہیں۔ پی کے 8303 کی فلائٹ اٹینڈنٹ۔ لیکن باوجود ڈیوٹی کے یہ طیارے میں سوار نہ ہو سکیں اور اب حادثے کے بعد، اپنی غیر حاضری کو خوش قسمتی سے تعبیر کر رہی ہیں۔
یہ سید مصطفیٰ احمد ہیں۔ انہوں نے جمعرات کو اسی فلائٹ کا ٹکٹ خریدنا چاہا لیکن آن لائن سسٹم میں خرابی کی وجہ سے ان کی سیٹ کنفرم نہ ہو سکی اور اب یہ بھی اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں۔

اسی طرح بد قسمت طیارے میں سوار زندہ بچ جانے والے دو مسافروں میں سے ایک، یہ محمد زبیر ہیں۔ جب حادثہ پیش آیا تو یہ ہوش میں تھے۔ انہوں نے خود اپنا سیٹ بیلٹ کھولا اور جلتے جہاز میں سے باہر نکل آئے۔ یہ بھی اپنے زندہ بچ جانے کو خوش قسمتی سمجھ رہے ہیں۔
جبکہ حکومتی بیانیے کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ ائیر ہوسٹس مدیحہ ارم ہوں، یا مصطفیٰ احمد، محمد زبیر ہوں یا پھر پنجاب بنک کے صدر ظفر مسعود۔

(جاری ہے)

درحقیقت یہ سبھی لوگ تو انتہائی بدقسمت واقع ہوئے ہیں۔ ہاں نا، انہیں تو کھلم کھلا موقع ملا تھا شہید ہونے کا۔ اور پھر رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیاں تھیں بلکہ جمعتہ الوداع کے دن عین وقت نماز۔ لیکن یہ کم قسمت لوگ تہی داماں ہی رہے۔ آپس کی بات ہے اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو لازمی آگے بڑھ کر شہادت کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتا۔
اقبال نے بھی تو یہی کہا تھا نا
 شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
اور ماشاء اللہ سے نئے پاکستان کی حکومت کس جانفشانی سے ہم عوام کو اس عظیم سعادت سے بہرہ ور کروا رہی ہے۔

لیکن کچھ نا عاقبت اندیش ایسے بھی ہیں جن کا کام صرف تنقید کرنا ہی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں، جیسے ہی جہاز حادثے کا شکار ہوا، سندھ حکومت لٹھ لے کر وزیراعظم اور پی آئی اے کے در پے ہو گئی اور عجیب احمقانہ مطالبات کرنے لگی۔
اب بندہ پوچھے، کوریا میں جو کشتی ڈوبی تھی اس کا اور اس طیارہ حادثے کا کیا مقابلہ؟ وہ ڈوبنے والے لوگ تو کافر تھے جو کہ موت سے بھی ڈرتے تھے اور ویسے بھی کون سا وہ حادثہ شہادت پیکج کے تحت ہوا تھا۔

بلکہ وہ تو کسی تکنیکی خرابی کے باعث پیش آیا تھا تو پھر ان کے وزیراعظم کا مستعفی ہونا تو بنتا تھا۔ جب کہ یہاں تو معاملہ ہی اور ہے۔ دیکھیے، خالد بن ولید ساری زندگی میدان جنگ میں لڑتے رہے لیکن شہادت کی موت نہ نصیب ہوئی۔ اور یہ ہمارے ارباب اختیار ہی کی کرم فرمائی ہے کہ عوام بغیر محاذ جنگ پہ جائے، بلکہ بغیر نیت کئے جوق در جوق شہادت کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

اور مخالف عناصر اعتراض کر رہے ہیں کہ حادثے کے بعد وزیراعظم نتھیا گلی کی سیر کو چلے گئے۔ میرا تو ماننا ہے وزیراعظم نتھیا گلی کی بجائے بھوربن کی سیر کو جاتے اور بجائے اکیلے جانے کے ساتھ پی آئی اے کے عہدیداران کو بھی لے کر جاتے۔ بلکہ وہاں ایک شاندار قسم کی نائٹ پارٹی منعقد کی جاتی جس میں شباب کباب قسم کی سب عیاشیاں میسر ہوتیں۔

اور اس پروقار سرکاری تقریب میں پی آئی اے کا نام بھی تبدیل کر کے ایس آئی اے یعنی شہید انٹر نیشنل ائیر لائنز رکھ دیا جاتا۔بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پی آئی اے کے سربراہ ائیر مارشل ارشد ملک کو بھی ان کی خدمات کے اعتراف میں چند مزید محکموں کا اختیار دے دیا جاتا۔ تا کہ ان کی صلاحیتوں سے وہ غریب عوام بھی مستفید ہو کر جام شہادت نوش کر لیں، عام حالات میں جن کی جیب انہیں ہوائی سفر کی اجازت نہیں دیتی۔

میرے خیال میں ٹرانسپورٹ کا محکمہ ایک اچھا آپشن ہے۔ لیکن ریلوے کا قلمدان بے شک جناب شیخ رشید کے حضور ہی رہنے دیا جائے۔ کیوں کہ وہ یہ کام پہلے ہی احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ بلکہ طیارہ حادثے کے بعد تو ان سے رہا نہ گیا اور پھر پتوکی لنڈا پھاٹک پر ٹرین نے چار لوگوں کو شہید کر ڈالا۔ وہ تو کھلے پھاٹک میں ٹرین کے سامنے اتفاقاً کار آگئی تھی ورنہ اگر کوئی بس آ جاتی تو اللہ کی رحمت کا خاص نزول ہوتا۔

اب چونکہ مملکت خداداد میں شہادت کا چال چلن بہت عام ہو چکا ہے تو ایسے میں پھر ہمارا ہمسایہ ملک بھارت کیوں پیچھے رہے۔ سو اب جب کبھی کوئی بھارتی فوجی وادی کشمیر میں جہنم واصل ہوتا ہے تو اسے بھی شہید کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بھلا ان احمقوں کو اب کون سمجھائے کہ سرکاری طور پر یہ سہولت صرف پاکستان میں ہی میسر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :