کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 مئی2018ء)
بلوچستان کے رواں مالی سال کا3 کھرب 53 ارب روپے سے زائد
بجٹ پیش کر دیا گیاجن میں غیر ترقیاتی اخراجات 3 کھرب64 کروڑ جبکہ ترقیاتی اخراجات88 ارب روپے سے زائد جبکہ خسارہ61 ارب روپے سے زائد ہے کل آمدن کا تخمینہ 2 کھرب 90 ارب روپے ہے رواں مالی سال میں 8 ہزار35 اسامیاں مختص کی گئی تنخواہوں اور پنشن کی مد میں10 اضافہ کر دیا گیا جس میں ریونیو اخراجات کا تخمینہ2 کھرب23 ارب روپے سے زائد جبکہ وفاقی اخراجات کے لئے 40 ارب روپے سے زائد شامل ہے صوبے کے اپنے وسائل سے آمدنی کا تخمینہ 5 ارب روپے جبکہ وفاقی سے حاصل ہونیوالی آمدنی 2 کھرب43 ارب روپے سے زائد ہے
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی صدارت میں شروع ہوا صوبائی مشیر خزانہ
ڈاکٹر رقیہ ہا شمی نے رواں مالی سال کا
بجٹ ایوان میں پیش کر تے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت روز اول سے ہی جن رہنماء اصولوں کو مد نظر رکھے ہوئے ہیں ان میں صوبے میں ترقی کے عمل کو تیز کرنے کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی
،تعلیم ِ،صحت اور فراہمی آب جیسے سماجی منصوبوں میں بنیادی ڈھانچہ قائم کرنے کیلئے ٹھوس اور مربوط کوششیں ،غیر ضروری اخراجات کا خاتمہ کرکے وسائل کو ترقیاتی سرگرمیوں کیلئے استعمال میں لانا ،بہتر اور موثر انداز میں وصولیوں کے ذریعے وسائل پیدا کرنے کی مشینری کو ازسر نو منظم کرنا ،ہر سطح پر مالیاتی نظم وضبوط قائم کرنا اور
بلوچستان کے بے روزگار نوجوانوں کو
ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کی کوششوں کو تقویت دیناہے ،انہوں نے کہاکہ صوبہ امن اور ترقی کے راستے پر گامزن ہے بلکہ وزیراعلیٰ
بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں موجود ہ صوبائی حکومت نے طویل عرصے میں صوبے کو درست سمت پر گامزن کردیاہے اب
دہشت گرد نہیں بلکہ سرمایہ کار
بلوچستان آرہے ہیں نوجوان پہاڑوں پر نہیں بلکہ یونیورسٹی کا رخ کئے ہوئے ہیں ان کے ہاتھوں میں بندوق کی بجائے قلم ہے ۔
(جاری ہے)
ہمیں عہد کرناہوگا کہ اب شکوے اور شکایات کی بجائے محنت کرتے ہوئے سب کے ساتھ مل کر صوبے کی ترقی میں کرداراداکرینگے انہوں نے کہاکہ
بلوچستان کو ضمانت قدیم سے ہی منفرد حیثیت حاصل ہے یہ ملک کے 44فیصد رقبے پرمشتمل ہے بلکہ اس کی آبادی ایک کروڑ23لاکھ افراد سے زائد ہے
بلوچستان کو محل وقوع کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے بلکہ یہ جنگلی حیات کیلئے بھی انتہائی اہم علاقہ ہے یہاں صنوبر کے بہت بڑے جنگلات موجود ہیں بلکہ
بلوچستان 775کلومیٹر طویل ساحلی پٹی بھی رکھتاہے ہمارے ساحلی علاقے معاشی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ
بلوچستان میں زیر زمین معدنی ذخائر کو دریافت کرنے اور انہیں استعمال میں لانے کی ضرورت ہے ہمارے پاس سونا ،چاندی ،تانبے کے علاوہ قدرتی گیس
تیل اور کوئلے کے بہت وسیع ذخائر موجود ہیں 1952ء میں
بلوچستان سے دریافت ہونے والے گیس میں ملک کی معاشی ترقی میں انتہائی اہم کردار اداکیاہے آج ایک مرتبہ پھر طویل ساحلی پٹی ،قیمتی قدرتی وسائل ،پاک چین
اقتصادی راہداری منصوبے کے باعث
بلوچستان نہ صرف ملک کی ترقی کا زینہ بن رہاہے بلکہ خطے میں تجارتی سرگرمیوں کے اہم مرکز کے طورپر بھی ابھر رہاہے انہوں نے کہاکہ موجودہ
بجٹ ان مقاصد کو پیش نظر رکھ کر بنایاگیاہے جس سے عام آدمی کے مسائل حل کئے جاسکیں ۔
آئندہ
بجٹ کی خاص بات صوبے کے ترقیاتی مقاصد کو حاصل کرناہے اور یہی وہ بنیاد ہے جس کو پیش نظر رکھ کر یہ
بجٹ پیش کیاجارہاہے ان مقاصد کے حصول سے ہم
بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کرسکتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ
سی پیک گیم چینجر کی حیثیت رکھتاہے
چین پاکستان
اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت
چین اورپاکستان کے درمیان تاریخی رابطوں کو بحال ،مزید مستحکم اور پائیدار بنانا ہے اس منصوبے کے تحت
پاکستان میں انفراسٹرکچر کو مزید بہتر طورپر تعمیرکرنا اور اس سے وسطی ایشیائی ریاستوں تک توسیع دینا شامل ہیں ۔
ہم اس اہم وکلیدی نوعیت کے منصوبے پر فخر کرتے ہیں جس سے نا صرف ملکی معیشت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہونگے بلکہ اس کے ذریعے صوبائی حکومت کی معاشی تقدیر بھی بدلے گی اور روزگار کے وسیع مواقعوں کے ساتھ ساتھ ترقی کے نئے دور کاآغاز ہوگا۔مشیر خزانہ
ڈاکٹر رقیہ ہاشمی کاکہناتھاکہ گوادر ملکی معاشی ترقی میں اہم کرداراداکریگا اس کی ترقی کو پاک چین
اقتصادی راہداری منصوبے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے جس کیلئے
بجٹ میں وفاقی حکومت کے تعاون سے خطیر رقم خرچ کی جائے گی اس ضمن میں سال 2018-19ء میں بہت سے منصوبوں پر کام کیاجائے گاجس میں گوادر میں نئے بین الاقوامی
ائیرپورٹ کا قیام ،جدید ہسپتال
،بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ اور صاف پینے کے
پانی کے منصوبے شامل ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں یقین ہے کہ
بلوچستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے بے پنا ہ فوائد حاصل ہونگے مستقبل میں
پاکستان کی زرعی اور تجارتی ترقی میں
بلوچستان کا بہت بڑا حصہ ہوگا انہوں نے کہاکہ
بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے
بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ کو مزید فعال کیاجارہاہے ۔حال ہی میں
بلوچستان اسمبلی نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ 2018ء کی منظوری دی ہے جس سے صوبے میں سرکاری اور نجی شراکت داری سمیت غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا بلکہ معدنی پیداوار اور تجارتی سرگرمیوں کا بڑا مرکز بھی آئندہ
بلوچستان بنے گاانہوں نے کہاکہ رواں مالی سال کے دوران صوبے میں حکومت کی کارکردگی کچھ یوں ہے کہ موجودہ مالی سال 2017-18ء کا نظر ثانی شدہ
بجٹ معزز ایوان کے سامنے پیش کیاجائے جس کے بعد معزز ایوان کو موجودہ صوبائی حکومت کے نئے مالی سال 2018-19ء کے اقدامات بتائے جائیںگے انہوں نے کہاکہ جاری مالی سال 2017-18ء کے کل
بجٹ کا ابتدائی تخمینہ 328.5ارب روپے تھا نظرثانی شدہ
بجٹ برائے سال2017-18ء کا تخمینہ 326.4ارب روپے ہوگیاہے 2017-18ء کے اخراجات جاریہ 242-5ارب روپے تھا جو نظر ثانی شدہ تخمینہ میں کم ہوکر249-5ارب روپے رہ گیاہے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے مالی سال2017-18ء میں پی ایس ڈی پی کا حجم 86ارب روپے تھا اس میں 1211جاری اسکمیں جبکہ 1549نئی اسکمیں شامل تھی مالی سال 2017-18ء میں پی ایس ڈی پی پر نظر ثانی کے بعد اس کا حجم 76.8ارب روپے ہوگیاہے نظر ثانی کے بعد1231جاری اسکمیوں کیلئے 27.9ارب روپے اور 1432نئی اسکمیوں کیلئے 67.6ارب روپے مختص کئے گئے ہیں وفاقی حکومت کے پی ایس ڈی پی سے صوبائی محکموں کے توسط سے عملدرآمد ہونے والی اسکیموں اور صوبائی ترقیاتی پروگرام کے ذریعے چلنے والے منصوبوں کے فنڈز کی مد میں 6ارب روپے اس کے علاوہ ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ امن وامان کا قیام ریاست کی بنیادی وآئینی ذمہ داری ہے موجودہ حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھرپورحوصلہ افزائی اور معاونت کررہی ہے اس حوالے سے یو این ڈی پی کے تعاون سے 5سالہ منصوبے پر کام جاری ہے جن میں عدلیہ ،انتظامیہ
،پولیس ،لیویز ،پراسیکیوشن اور محکمہ
جیل خانہ جات کے تمام شعبوں میں بہتری لانے کیلئے ایک مربوط 5سالہ نظام پر کام جاری ہے ۔
امن وامان کو قائم رکھنے میں افواج
پاکستان ،پولیس ،لیویز اور
ایف سی کا کردار قابل تحسین ہے ہم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فورسز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے علاوہ دیگر اقدامات بھی اٹھا رکھے ہیں تاکہ صوبے کا مثالی امن اور بھائی چارے کی فضاء دوبارہ بحال کی جاسکے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے باہمت وجرأت منداہلکار حوصلے اور جوانمردی سے امن وامان برقراررکھنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھارہے ہیں ان حالات میں فورسز کی مورال کو بلند رکھنا اورفورسز سے وابستہ افراد کے خاندانوں کی مناسب دیکھ بھال ضروری ہے اس سلسلے میں ایک مربوط پالیسی کے تحت شہادت پانے والے اہلکاروں کے پسماندگان کو نقد مالی معاونت پوری تنخواہ ،صحت
،تعلیم اور رہائش کی سہولتیں بھی مہیا کی جارہی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری حکومت کے سنجیدہ اقدامات کے نتیجے میں امن وامان میں نمایاں بہتری آئی ہے مگر شرپسند عناصر کی سرگرمیاں ابھی تک مکمل طورپر ختم نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے کبھی کبھار وقوع پزیر ہونے والے واقعات حکومت کی کوششوں کو ناکام کرنے کی سازش ہوتی ہے ان واقعات پر حکومتی سطح پر قابو پانے کیلئے بھرپوراقدامات کئے جارہے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ 2018-19ء میں امن وامان کیلئے غیر ترقیاتی
بجٹ میں 34ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 10فیصد زیادہ ہے لیویز اور
پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے نہ صرف انہیں پاک
فوج سے پیشہ وارانہ تربیت دی جارہی ہے بلکہ
پولیس افسران کی تقرریاں اور ترقیاں بھی میرٹ کی بنیاد پر ہورہی ہے
پولیس میں سیاسی عدم مداخلت اور انٹیلی جنس فیوژن سیل کی بہتری ہماری ترجیحات میں شامل ہیں انہوں نے کہاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو موجودہ حالات اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے جدید خطوط پر منظم کیاجارہاہے اس سلسلے میں 2ارب روپے کی خطیر رقم سے جدید اور معیاری
اسلحہ ودیگر ضروری آلات فراہم کرنے کا بندوبست کیاجارہاہے ۔
اس کے علاوہ
پولیس اور لیویز کو خصوصی انسداد دہشت گردی کی تربیت دی جارہی ہے تاکہ وہ مختلف اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف موثر کرداراداکرسکیں انہوں نے کہاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تربیت کیلئے 4کروڑ روپے فراہم کئے جائیںگے بلکہ ہزاروں بے روزگار واہل نوجوانوں کو
بلوچستان لیویز فورس میں میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کیا گیاہے
کوئٹہ سیف سٹی اور گوادر سیف سٹی پروجیکٹس صوبائی حکومت کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس پر تیزی سے کام جاری ہے انہوں نے کہاکہ
سی پیک روٹ اور منصوبوں کی حفاظت کیلئے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کا قیام عمل میں لایاجارہاہے جس کے تحت ہزاروں بے روزگار نوجوانوں کو لیویز اور
پولیس فورس میں بھرتی کیاجائے گاانہوں نے کہاکہ
تعلیم ناخواندگی سے لڑنے کا واحد راستہ
تعلیم ہے ،ہم مستقل مزاجی کے ساتھ درست راستے پر چلتے رہیںاور
تعلیم کے فروغ کیلئے زیادہ سے زیادہ وسائل بروئے
کار لائیں آئین
پاکستان کے آرٹیکل 25اے کے تحت
تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اس کے نفاذ کیلئے صوبائی حکومت بھرپورکوشش کررہی ہے حکومت
بلوچستان میں اپنا 5سالہ
بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان مرتب کیا جس کے تحت نئے سکولوں کا قیام ،موجودہ سکولوں کی اپ گریڈیشن اور ارلی چائلڈ ایجوکیشن کلاسز کااجراء کیاجائے گا۔
انہوں نے کہاکہ آنے والے مالی سال میں محکمہ سکولز کیلئے غیر ترقیاتی مد میں 43.9ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 25فیصد زیادہ ہے آنے والے مالی سال کے دوران 100سے زائد نئے پرائمری سکولز کا قیام عمل میں لایاجائے گا تاکہ
تعلیم تک رسائی کو ممکن بنایاجاسکے انہوں نے کہاکہ آئندہ مالی سال 2018-19ء میں 100پرائمری سکولوں کو مڈل کا درجہ جبکہ 100مڈل سکولوں کو ہائی کا درجہ دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔
اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی کیلئے انڈیپنڈنٹ ٹیسٹ سروس کو متعارف کروالیاگیاہے صوبے کے سکولوں میں درسی اور غیر درسی مواد کی فراہمی کیلئے 83.3کروڑروپے رکھے گئے ہیں اس کے علاوہ
عالمی بینک کے تعاون سے گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن کے تحت نئے پرائمری سکولوں کا قیام موجودہ سکولوں کو بلڈنگز کی فراہمی ،اور خواتین اساتذہ کی تقرری عمل میں لائی جارہی ہے اساتذہ اور افسران کی کارکردگی جانچنے کیلئے ڈیڑھ ارب روپے کی خطیر رقم سے پرفارمنس منیجمنٹ سسٹم متعارف کرایاجارہاہے اس کے علاوہ کتابوں کی
بلوچستان ٹیکس بک بورڈ کے ذریعے چھپائی اور سپلائی کیلئے 52کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے تاکہ ہر بچے کو مفت کتابوں کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے انہوں نے کہاکہ انہوں نے کہاکہ ہم اساتذہ کی قدر کرتے ہیں اور ان کی خدمت کو بھی سراہتے ہیں لیکن بعض اساتذہ تعلیمی اداروں میں ڈیوٹی نہیں دیتے جس کے تدارک کیلئے حکومت رئیل ٹائم سکول مانیٹرنگ کے موثر طریقہ
کار پر عمل پیرا ہے جس سے سکولوں میں اساتذہ کی حاجری کو یقینی بنایاجارہاہے انہوں نے کہاکہ صوبے میں اعلیٰ
تعلیم کے فروغ کیلئے تربت اور لورالائی یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایاگیاہے بلکہ جامعہ
بلوچستان ،سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی ،بیوٹمز کے سب کیمپس تمام اضلاع میں قائم کئے جارہے ہیں اس کے علاوہ تربت یونیورسٹی کا سب کیمپس گوادر میں قائم کردیاگیاہے آنے والے مالی سال 2018-19ء میں محکمہ کالجز کیلئے غیر ترقیاتی مد میں تقریباًً8.5ارب روپے رکھے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 10فیصد زیادہ ہے انہوں نے کہاکہ اس وقت
بلوچستان میں 6کیڈٹ کالجز ،مستونگ ،پشین ،جعفرآباد،قلعہ سیف اللہ ،پنجگور اور کوہلو میں قائم ہے جہاں تعلیمی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ کیڈٹ کالج نوشکی اور قلعہ عبداللہ میں رواں تعلیمی سال میں تعلیمی سرگرمیوں کاآغاز کردیاگیاہے اس کے علاوہ کیڈٹ کالج خاران میں بھی تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے انہوں نے کہاکہ اس وقت صوبے میں 4ریذیڈیشنل کالجز تربت ،لورالائی ،خضدار اور ژوب میں قائم ہیں جہاں تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں ،اوتھل ریزیڈیشنل کالج کو بھی فعال کیاجارہاہے بلکہ سبی ،خاران اور قلات میں ریزیڈیشنل کالجز کے قیام کیلئے تعمیراتیکام جاری ہے جسے جلد مکمل کرلیاجائے گا۔
انہوں نے کہاکہ کالجز سیکشن کی کل 40نئی اور 55جاری اسکیمات پر ترقیاتی کام جاری ہے یہ ترقیاتی اسکیمات صوبے میں کالجوں ،تیکنیکی اداروں اور ریزیڈیشنل کالجوں ،کیڈٹ کالجوں اوریونیورسٹیوں کے جال بچھانے میں معاون ومددگار ثابت ہوگی
کوئٹہ میں کالج ڈائریکٹریٹ کے قیام کیلئے 40کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ ضلع
کوئٹہ میں ہی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ
ٹیکنالوجی کے کیمپس کے قیام کیلئے زمین خریدنے کی غرض سے 1.2ارب روپے مختص کئے گئے ہیں صوبائی حکومت نے مالی سال 2017-18ء میں 50کروڑ روپے کی خطیر رقم صوبے بھر کے 8500طلباء وطالبات میں میرٹ کی بنیاد پر لیپ ٹاپ تقسیم کرنے پر خرچ کئے جبکہ مالی سال 2017-18ء کے ترقیاتی
بجٹ میں صوبے کے 30کالجز میں بیچلرلاجز کی تعمیر کیلئے 50کروڑ روپے کی خطیر رقم کی لاگت سے تعمیرات کی منظوری دیدی گئی ہے مالی سال 2017-18ء میں صوبے کی 30ڈگری کالجز میں 4سالہ بی ایس ڈگری پروگرام کے کلاسز کاآغاز کردیاگیاہے جس کے بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کیلئے حکومت نے 60کروڑروپے مختص کردئیے ہیں انہوں نے کہاکہ
تعلیم اور صحت کے شعبے ترقی کیلئے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں موجودہ صوبائی حکومت کی کاوشوں کی وجہ سے ایک جامع ہیلتھ پالیسی پر تیزی سے کام ہورہاہے جسے جلد نافذ کیاجائے گا۔
جس کے بعد محکمہ صحت کے شعبے میں بہتری کے امکانات مزید روشن ہونگے ۔انہوں نے کہاکہ 2018-19ء کے مالی سال میں شعبہ صحت کیلئے غیر ترقیاتی
بجٹ کی مد میں 19.4ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 6فیصد زیادہ ہے انہوں نے کہاکہ آنے والے مالی سال کے دوران صوبے میں کینسر ہسپتال بنانے کیلئے 2ارب روپے مختص کئے گئے ہیں بلکہ
بلوچستان ادارہ برائے قلب کی تعمیر کیلئے بھی ڈھائی ارب روپے خرچ کئے جائیںگے سول ہسپتال
کوئٹہ کی جدید طرز پر تعمیر زیر غور ہے جس کاتخمینہ تقریباًً3ارب روپے ہے وزیراعلیٰ صحت انشورنس پروگرام کو تمام اضلاع میں شروع کیاجارہاہے اس پروگرام کے تحت
غریب اور حق دار شہریوں کو مفت
علاج کی سہولیات فراہم کی جائیگی اس پروگرام پر ایک ارب روپے خرچ ہونگے ۔
انہوں نے کہاکہ حکومت
بلوچستان آنے والے مالی سال 2018-19ء کے دوران ہیپاٹائٹس ،ٹی بی ملیریا اور ایچ آئی وی مریضون کو مفت ادویات فراہم کریگی جبکہ صحت کے شعبے کیلئے جدید مشینری کیلئے بھی 70کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں انہوں نے کہاکہ
پولیو کے خاتمے کیلئے صوبے میں ایمرجنسی سینٹر قائم کردیاگیاہے جس کی وجہ سے
پولیو کیسز میں کمی آئی ہے ہم
پولیو ٹیموں کی کارکردگی کو سراہاتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ
بلوچستان سے بہت جلد
پولیو کا خاتمہ کردیاجائے گا۔
انہوں نے کہاکہ آئندہ مالی سال کے دوران 2ارب روپے کی مفت ادویات
غریب مریضوں کو دی جائیںگی جبکہ صوبے بھر کے 90دیہی صحت کے مراکز کی بحالی اور
آ*مرمت بھی کی جائیگی صوبے میں غربت کے خاتمے کیلئے ایک ارب روپے کی لاگت سے
کوئٹہ ،لورالائی ،گوادر ،کیچ اور لسبیلہ میں میڈیکل سپورٹ پروگرام جاری ہے ۔ویکٹر برن ڈیزیز کے خاتمے کیلئے ڈھائی ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جبکہ امراج چشم پروگرام کے تحت30کروڑ روپے خرچ کئے جائینگے بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے اور ڈینٹل کالج
کوئٹہ کے قیام کیلئے ایک ،ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،سول ہسپتال
کوئٹہ میں نئے زیر تعمیر او پی ڈی بلاک کیلئے 19.8کروڑ روپے مختلص کئے گئے ہیں ضلعی معلومات برائے صحت سسٹم کے تحت صوبے بھر میں 18.5کروڑروپے خرچ کئے جائینگے،صوبے بھرمیں تمام اہم شاہراہوں پر ایمرجنسی سینٹر کا قیام عمل میں لایاجارہاہے انہوں نے کہاکہ زراعت کسی بھی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 33فیصد سے زیادہ ہے جبکہ
بلوچستان میں 70فیصد آبادی بلواستہ یا بلاواستہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہے قدرت نے
بلوچستان کو مختلف اقسام کے پھل ،سبزیوں اور اجناس کی کاشت کیلئے مناسبت زرعی ماحول سے نوازا ہے ہم معیاری پھل ،سیب ،انگور ،کجھور ،خوبانی اوردیگر کی پیدوار میں خصوصی شہرت رکھتے ہیں صوبائی حکومت زرعی شعبے کو ترقی دینے کیلئے خصوصی اقدامات کررہی ہے معیاری بیج ،پودوں کی فراہمی ،کیڑے مار ادویات کی دستیابی ،جدید سائنسی طریقوں پر کاشت کاری کی ترویج اور ترغیب اور زرعی اجناس کی مارکیٹ تک رسائی کے حوالے سے مختلف منصوبوں پر کام ہورہاہے پکے تالابوں اور نالیوں کے زریعے
پانی کی ضیاع کو کنٹرول کیاگیاہے اس وقت صوبے میں 96لاکھ ایکڑ قابل کاشت زمین موجود ہیں جس کو ہموار کرکے زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیاجاسکتاہے ۔
انہوں نے کہاکہ آئندہ مالی سال 2018-19ء میں محکمہ زراعت کیلئے تقریبا8.7ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سالے کے مقابلے میں 5فیصد زیادہ ہے قلعہ سیف اللہ اور اوتھل میں مارکیٹ سکوائرز کو 5کروڑروپے کی لاگت سے جلد ہی مکمل کرلیاجائے گا 18مختلف اضلاع میں 28.8کروڑروپے کی لاگت سے سرکاری زرعی فارمز کو مکمل فعال کیاجارہاہے زرعی ٹرینگ ادارے کی تعمیر پر 50کروڑ روپے کی لاگت سے کام شروع کردیاگیاہے بلکہ معیاری پودوں کی فراہمی کی غرض سے ٹیشو کلچر کی
ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کیلئے زرعی شعبہ کے تحت 5.6کروڑ روپے کی لاگت سے ایک اہم منصوبے پھر کام جاری ہے اگلے مالی سال کے دوران بلڈوزروں کے 50ہزار گھنٹے ضرورت مند زمینداروں میں تقسیم کئے جائینگے تاکہ مزید غیر کاشت رقبہ زیر کاشت لایاجاسکے صوبائی معیشت میں امور حیوانات کا حصہ تقریباًً48فیصد ہے مال مویشیوں کا دیہی ترقی میں اضافے اور
غریب عوام کی خوشحالی سے گہرا تعلق ہے صوبہ
بلوچستان میں امور حیوانات اور ترقیات ڈیری کاایک وسیع جال بچھا ہواہے جس کے ذریعے مصنوعی تخم ریزی مال مویشیوں کاعلاج معالجہ اور بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکہ جات کے ساتھ ساتھ مال مویشیوں کی پیدوار میں اضافہ کیاجاتاہے آنے والے مالی سال 2018-19ء میں لائیواسٹاک کیلئے تقریباًً 4ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 2فیصد زیادہ ہے نئے مالی سال کے دوران جانوروں کے مختلف بیماریوں کیلئے 30کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ امور حیوانات کے ہسپتال کی تعمیر پر تیزی سے کام جاری ہے جس پر 50کروڑروپے لاگت آئے گی ۔
انہوں نے کہاکہ صوبے کے 20اضلاع میں 11کروڑ روپے کی لاگت سے ویٹرنری سروسز فراہم کی جائیںگی جبکہ 2کروڑروپے کی لاگت سے ویٹرنری
تعلیم اور آگاہی مہم چلائی جائے گی کانگو وائرس کے خاتمے کیلئے 22کروڑ روپے کی لاگت سے کام جاری ہے صوبے کے 6مختلف اضلاع میں لائیواسٹاک مارکیٹس کے قیام کی تجویز زیر غور ہے جس پرتقریباًً20کروڑروپے خرچ ہونگے
۔بلوچستان 7500کلومیٹر ساحلی پٹی رکھتاہے یہاں مچھلیوں کی غیر قانونی شکار کی روک تھام ،ماہی گیروںکی رہنمائی اور انہیں سہولیات پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے بحرہ عرب کی یہ سمندری پٹی کم وبیش 60ہزار لوگوں کو روزگار مہیا کررہی ہے اس حوالے سے ہماری حکومت درجہ ذیل عملی اقدامات کیلئے کوشاں ہے آنے والے مالی سال2018-19ء میں ماہی گیری کیلئے 92کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 4فیصد زیادہ ہے فیش ہیچری ضلع صحبت پور اور جعفرآباد کا قیام زیر غور ہے جس پر لاگت کا تخمینہ تقریباًً23کروڑروپے ہے
بلوچستان کی ساحلی پٹی پر ویسلز مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرایاجارہاہے جس پر10کروڑ روپے خرچ ہونگے
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ماڈل فش فارمز کے قیام کا منصوبہ زیر غور ہے جس کا تخمینہ لاگت 5کروڑروپے ہے دیہی علاقوں کی بنیادی انفراسٹرکچر کو کارآمد بنانے میں لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی کا اہم کردار رہاہے
بلوچستان میں
کوئٹہ میونسپل کارپوریشن کو میٹروپولٹین کارپوریشن اور 5میونسپل کمیٹیوں کو کارپوریشنز کا درجہ دیدیاگیاہے جن میں سے ایک مربوط پروگرام کے تحت ترقیاتی منصوبوں کو مرحلہ وار مکمل کیاجائے گا۔
اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیںگے ۔رواں مالی سال کے دوران لوکل گورنمنٹ کو لوکل باڈیز کیلئے غیر ترقیاتی مد میں 6.4ارب روپے اور ترقیاتی مد میں 5ارب روپے فراہم کردئیے گئے ہیں ۔اس سلسلے کو اگلے مالی سال 2018-19ء میں بھی جاری رکھاجائے گا تمام اضلاع میں صوبائی سنیٹیشن پالیسی کے تحت صحت وصفائی کے جامع پروگرام شروع کئے جائینگے مرحلہ وار تمام اضلاع میں لوکل گورنمنٹ اور چیئرمین کونسل کے دفاتر تعمیر کئے جارہے ہیں جبکہ مرحلہ وار سب اضلاع میونسپل کمیٹیوں اور میونسپل کارپوریشنز کے چیئرمینوں کو
گاڑیاں دی جائیںگی انہوں نے کہاکہ سڑکیں کسی بھی ملک اور صوبے میں معاشی ترقی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے رواں مالی سال 2017-18ء کے دوران 12سو کلومیٹر معیاری بلیک ٹاپ سڑکیں بنائی گئی جبکہ آنے والے مالی سال 2018-19ء کے دوران مزید اتنی ہی بلیک ٹاپ بنانا ہدف رکھاگیاہے ،فلائی اوور ،کوئلہ پھاٹک کا کام مکمل ہوچکاہے جس سے
ٹریفک کے دبائو میں کمی آئی ہے عوام کی سہولت کی غرض سے سیکرٹریٹ ماسٹر پلان کیلئی62.6کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں جسے سول سیکرٹریٹ
کوئٹہ میں باقی ماندہ کام کیفے ٹیریا اور دیگر پر تیزی سے کام جاری ہے ۔
انہوں نے کہاکہ معدنیات ومعدنی وسائل سے
بلوچستان کا مستقبل وابستہ ہے ملک میں 50اقسام کے معدنیات میں سے 40صوبے سے حاصل کی جارہی ہے
بلوچستان کے کوئلے کے ذخائر کا تخمینہ 217ملین ٹن ہے چمالنگ میں کوئلے کے کانوں پر کام کے آغاز سے صوبے میں کئی ہزار افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئے ہیں آنے والے مالی سال 2018-19ء میں معدنیات کیلئے غیر ترقیاتی مد میں 2ارب مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال 2017-18ء کے مقابلے میں تقریباًً17فیصد زیادہ ہے
بلوچستان کی معدنی دولت پر قبضے کے غیر قانونی لیز منسوخ کرنے پر تیزی سے کام جاری ہے مائننگ انڈسٹریز کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی اس کی ترقی وتوسیع میں جدید آلات ومشینری کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے گی حکومت
بلوچستان ریکوڈک کیس کو انٹرنیشنل اربیٹریشن ٹریبونل میں بھرپورانداز سے لڑ رہی ہے ہماری کوشش ہے کہ
بلوچستان کے خلاف فیصلہ نہ آئے اور اگر آ بھی جائے تونقصان کم سے کم ہو ،سیندک منصوبے کی15سو ملازمین اور اس منصوبے سے آنے والی آمد کو مد نظررکھتے ہوئے پروجیکٹ کو حکومت
بلوچستان کے
این او سی کے بعد وفاقی حکومت نے اس کی لیز کو چینی
کمپنی کیلئے 5سال مزید توسیع دیدی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ
بلوچستان میں
پانی کا مسئلہ انتہائی اہم ہے ایک طرف نہ صرف
پانی کے وسائل ضائع ہورہے ہیں تو دوسری جانب ٹیوب ویلوں کی بھر مار سے
پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکاہے ہم جانتے ہیں کہ ناموافق حالات سے نمٹنے کیلئے جدید آب پاشی کے نظام کی اشد ضرورت ہے اس سلسلے میں ہم اقدامات اٹھانے کیلئے پرعزم ہے آئندہ مالی سال 2018-19ء میں محکہ اب پاشی کیلئے 2.8ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،وفاقی حکومت کے تعاون سے اب پاشی کے 9بڑے اور 19چھوٹے منصوبے زیر تکمیل ہے جن پر تقریباًً5.5ارب روپے خرچ ہونگے ۔
ان منصوبوں پر عملدرآمد سے زیر زمین
پانی کی سطح میں بہتری آئے گی بلکہ ہزاروں ایکڑ اراضی زیر کاشت لائی جاسکے گی اس کے علاوہ مختلف اضلاع میں لوگوں کو پینے کا صاف
پانی میسر آئے گا انہوں نے کہاکہ آنے والے مالی سال 2018-19ء میں آبنوشی کے شعبے کیلئے 3.8ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 3فیصد زیادہ ہے خصوصی ترقیاتی پروگرام کے تحت60نئی اور14جاری پینے کے صاف
پانی کے اسکیموں کو مکمل کرلیاگیاہے جبکہ 538پرانے اورغیرفعال واٹرسپلائی اسکیموں کی مرمت کرکے انہیں فعال کردیاگیاہے پینے کے صاف
پانی کے ذخیرے کیلئے مختلف اضلاع نوحصار ،کچلاک ،قلعہ سیف اللہ ،قلعہ عبداللہ ،موسیٰ خیل اور قلات میں 6ڈیموں کی تعمیر پر تیزی سے کام جاری ہے اس کے علاوہ 9ارب روپے کی لاگت سے
کوئٹہ شہر کو صاف پینے کے
پانی کی فراہمی کیلئے مانگی
ڈیم کی تعمیر جاری ہے اسی طرح 40.3ارب روپے کی لاگت سے
کوئٹہ شہر کو پٹ فیڈر کینال سے صاف پینے کی
پانی کی فراہمی کیلئے کام ہورہاہے انہوں نے کہاکہ 5سو واٹر سپلائی ٹیوب ویلوں کو سولر سسٹم پر منتقل کیاجائے گاجس پر 1.5ارب روپے کا خرچہ ہوگا گوادر میں صاف پینے کے
پانی کی مستقبل بنیادوں پر فراہمی کیلئے سمندر کے کھارے
پانی کو میٹھا بنانے کیلئے کارواٹ پلانٹ کی بحالی جاری ہے جس پر 8.3ارب روپے خرچ ہونگے انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت اور چائنا کی ایک معروف
کمپنی کے مابین گوادر شہر کو پینے کا صاف
پانی فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے گئے ہیں جس کے تحت گوادر شہر کو یومیہ تین لاکھ گیلن
پانی فراہم کیاجائے گاجسے گوادر شہر کو درپیش
پانی کے بحران پر قابو پایاجاسکے گا انہوں نے کہاکہ
بلوچستان میں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے اس وقت 15سی24سال کے عمر کے نوجوانوں کی تعداد15لاکھ سے زائد ہے جنہیں روزگار کی فراہمی بہت بڑا چیلنج ہے اس لئے نوجوان نسل کو مختلف شعبوں میں ہنر سیکھانے کیلئے تربیت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں تاکہ وہ سماج میں بہتر مقام حاصل کرسکیں اور منفی رحجانات کی طرف مائل نہ ہوں اس حوالے سے فنی مہارت اور تیکنیکی
تعلیم فراہم کرنے کے غیر فعال اداروں کو نجی شعبے کے تعاون سے فعال کیاجارہاہے جو ہمارے بے روزگار نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر روزگار کے قابل بنانے میں اہم کرداراداکرسکتے ہیں 15ٹیکنیکل سینٹرز برائے مرد اور 7ٹیکنیکل سینٹرز برائے خواتین صوبے کے 18اضلاع میں نوجوان نسل کو تربیت فراہم کررہی ہے جبکہ ٹیکنیکل سینٹر مستونگ اور قلعہ سیف اللہ پر تیزی سے کام جاری ہے ۔
انہوں نے کہاکہ گندم ہماری بنیادی ضروریات میں سرفہرست ہے اس کے مہنگا ہونے سے عام آدمی براہ راست متاثر ہوتاہے اگر حکومت اپنے کاشتکار بھائیوں سے گندم کی 100کلو بوری وفاقی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ امدادی نرخوں تقریباًً3250روپے میں ان کے گھر کے دہلیز سے خریدتی ہے لیکن چند ناگزیر اور زمینی اخراجات مثلا خریداری کی جگہوں سے صوبے کے دور دراز علاقوں تک ان کے ترسیل ،بینکوں سے لی گئی قرضوں پر سود کے اخراجات ،بار دانہ ،لوڈنگ اور ان لوڈنگ اور اس طرح کے دوسرے اخراجات کی وجہ سے گندم کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے لہٰذا گندم کی قیمت کی اعتدال پر رکھنے اور عام لو گوں کو سستے داموں گندم کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے
بلوچستان کا بینہ نے اس سال گندم پر 87 کروڑ روپے کی سبسڈی کی منظور دی ہے اور مزید برآن کھلی منڈی میں قیمتوں کو برقراررکھنے اور وفاقی حکومت کے فیصلے کی تقلید کر تے ہوئے اشیاء صرف کی دوسری چیزوں کے علاوہ رمضان پیکج کی مد میں مزید60 کروڑ روپے سستے آٹے کی فراہمی کیلئے مختص کرنے کا ارادہ رکھتی ہے گندم کو خراب ہونے سے بچانے اور طویل عرصے تک محفوظ کرنے کیلئے چند منصوبے حکومت
بلوچستان کے زیر غور سے حکومت کو گندم خراب نہ ہونے کی صورت میں کروڑوں روپے کی بچت ہو گی اس سلسلے میں صوبے کے ضلعی مراکز میں نئے گداموں کی تعمیر اور پرانے گوداموں کی مرمت اور اپ گریڈیشن کی جا رہی ہے جس میں گندم کی وافر مقدار کوزخیرہ کیا جا سکے گا اس کے علاوہ
بلوچستان فوڈ اتھارٹی جس کا قانون2014 میں منظور ہو چکا ہے جس کے تحت فوڈ اتھارٹی کو فعال کرنے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے صوبے کو گندم میں خود کفیل کرنے کے لئے صوبے کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی اولین ترجیح ہے اس سلسلے میں گندم کا شت کے علاقوں میں ون ونڈ و آپریشن کیلئے پہلے مرحلہ میں اوستہ محمد اور ڈیرہ اللہ یار میں گندم خریداری کے جدید مراکز تعمیر کروانے کیلئے فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں جس میں خریدی گئی گندم کو ذخیرہ کرنے اور بعد میں دوسرے اضلاع کو منتقل کرنے کیلئے گودام کاشت کاروں کو بروقت ندم کی قیمت کی ادائیگی کے لئے بینکوں کے بوتھ اور تمام سہولتیں میسر ہونگی جنگلات سماجی واقتصادی ترقی کی بہتری میں اہم کردار ادا کر تے ہیں جنگلات کو محفوظ بنانے اور ان کی ترقی کیلئے رواں مالی سال کے دوران شجر کاری مہم کے تحت ایک کروڑ پندہرہ لاکھ پودے لگانے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گی اہے
بلوچستان میں اٹھارہRiver Basin ہیں ہر بیسن پر اگ ردس لاکھ پودے لگا ئے جائیں تو صرف ماھولیاتی آلودگی پر قا بو پایا جا سکتا ہے بلکہ بارش میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے جس سے زیر زمین
پانی کی سطح میں بہتری آسکتی ہے جنگلات وجنگلی حیات کی بہتری کیلئے رواں مالی سال میں خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے جاری مالی سال2018-19 کے دوران جنگلات کی بہتری کیلئے مختلف اضلاع میں خاطر خواہ تعداد میں نر سریاں بنائیں گئی ہیں تاکہ شجر کاری مہم کے دوران زیادہ سے زیادہ پودے میسر آسکیں علاوہ ازیں محکمے کے کام میں بہتری کیلئے غیر ترقیاتی
بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے جس کا حجم1 ارب روپے کر دیا گیا مزید برآن مالی سال2018-19 میں13 جاری اور6 نئے منصوبوں کیلئی12.3 کروڑ روپے کے ضروری فنڈز مہیا کئے جائین گے تاکہ صنوبر، تمر ، شینہ، زیتوں اور چلغوزہ کے قدرتی جنگلات ک ی بہتری، چر ا گاہوں کے بہتر بندوبست ، واٹر شیڈ کے تحفظ ، جنگی حیات کی حفاظت اور شاہراہوں کے کناروں پر شجر کاری جیسے اقدامات کئے جاسکیں صوبہ بھر میں ماحول کو صاف ستھرا بنانے کیلئے
وزیراعظم گرین
پاکستان پروگرام کے تحت بھی شجر کاری مہم میں درخت لگانے کیلئے کثیر فنڈز مہیا کئے جا رہے ہیں اس سال پہلی مرتبہ اربن فارسٹری عینی شہروں میں مین شا ہراہوں اور اوپن جگہوں پر پودے لگا نے کا ہدف رکھا گیا ہے تاکہ عام لو گ درختوں سے فائدہ اٹھا سکے اور ماحول میں بہتری آسکیں اس کے علاوہ جنگلی حیات اور رینج کے بقاء کیلئے مختلف اقدامات چامل کئے گئے ہیں توانائی صوبے کی معاشی ترقی کیلئے انتہا ئی اہمیت کی حامل ہے موجودہ توانائی بحران نے زندگی کے تمام شعبوں پر سنگین اثرات مرتب کئے ہیں ان بحران کے خاتمے کیلئے ہماری حکومت ہر ممکن کو شش کر رہی ہے کوش قسمتی سے
بلوچستان توانائی خصوصاً متبادل توانائی کے وسائل سے مالا مال ہے جس سے شمی ، ہوا اور جیو
تھر مل کی وافر توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
کویت انویسٹمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے بوستان ضلع پشین میں شمسی توانائی کا پلانٹ لگایا جا ئے گا جس سے 100 میگاواٹ
بجلی پیدا کی جا سکے گی سرکاری عمارتوں کو بھی بتدریج شمسی توانائی کے نظام پر لایا جا ئیگا جس کیلئے Private investor کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ان عمارتوں پر سولر پلانٹ لگائیں اور اضافی
بجلی یوٹیلٹی
کمپنی کو فروغ کریں سولر انرجی کے آلات کو چانچنے کیلئے ایک ٹیکنیکل لیبارٹری کی تجویز ہے جس پر لاگت کا تخمینہ 38 کروڑ روپے ہے نجی شعبے نے توانائی کے نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے اینگرو کارپوریشن ، زور لوانر جی اور متعدد قومی او بین الاقوامی کمپنیوں نے متبادل توانائی کے منصوبوں میں لیٹر آف انٹرسٹ حاصل کئے ہیں اور مجموعی طور پر5500 میگاواٹ کے ونڈ اور سولر انجی کے منصوبوں پر کام شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اس طرح
بلوچستان مستقبل میں
پاکستان انرجی باسکٹ کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے ان منصوبوں سے نہ صرف پائیدار بلکہ سستی
بجلی میسر ہو گی محکمہ توانائی نے پرائیویٹ بینک کے تعاون سے سرکاری ملازمین کیلئے ہوم سولر ایڈوانس کیلئے اسکیم تیار کی ہے جس سے ملازمین کو ہوم سولر سسٹم کیلئے آسان شرائط پر
قرضہ دستیاب ہو گا اس اسکیم سے دو لاکھ آٹھ ہزار سرکاری ملازمین اور80 ہزار پیشنرز استفادہ حاصل کر سکیں گے جس سے نہ صرف لوڈ شیڈنگ میں نمایا کمی ہو گی بلکہ متبادل سے توانائی حاصل کرنے کے عزم کو بڑھائو ملے گا اورپاکستان جو کہ مالیاتی تبدیلی کے شکار ممالک میں پہلے دس ممالک میں شامل ہے اس سے ہوا میں کاربن کی مقدار کم کرنے میں مدد ملے گی حکومت
بلوچستان نے گوادر میں50 میگاواٹ سولر اور ونڈ پائور پلانٹ کی تعمیر کے لئے زمین الاٹ کی ہے جیسے اگلے مالی سال میں نیشنل اور انٹر نیشنل انویسٹر Cmpetative Bidding کے ذریعے الاٹ کیا جائیگا ہماری عوامی حکومت نے صوبے میں صنعتی سر گرمیوں میں اضافہ کو الین ترجیحات میں شامل کیا ہے اس سلسلے میں انڈسٹریل اسٹیٹس کے قیام اور اس سے روزگار کے مواقع میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں اس وقت صوبے کے مختلف اضلاع میں انڈسٹریل اسٹیٹس موجود ہیں جن میں
کوئٹہ، ڈیرہ مراد جمالی، گوادر، لسبیلہ اور بوستان شامل ہیں جبکہ چمن، خضدار، تربت اور مسلم باغ میں منی انڈسٹریل اسٹیٹس کے قیام کیلئے ترقیاتی کام تیز ی سے جاری ہے اس وقت صوبے بھر مین سمال انڈسٹریز کے تحت کم وبیش179 سے زائد تربیتی مراکز ہیں جن میں بچوں اور بچیوں کے مختلف پیشوں میں ہنر سکھائے جاتے ہیں ان تربیتی مراکز میں سہولیات بہم پہنچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ ان مراکز سے تربیت حاصل کرنے کے بعد مقامی لو گوں اور روایتی دستکاری کے ذریعے اپنا روزگار خود پیدا کر کے خود کفیل ہوں گے اانیوالے والے مالی سال2018-19 میں محکمہ صنعت وتجارت کے لئے تقریبا1.2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال2017-18 کے مقابلے میں تقریبا10 فیصد زیادہ ہے خضدار اور بوستان میں اسپیشل اکنامک زونز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس سے صوبے میں مزید صنعتوں کا قیام عمل میں آسکے گا اور بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی آئے گی چالیس سے زائد ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کی تعمیر کا کام مکمل کر کے فعال بنا دیا گیا ہے جہاں پر نوجوانوں کو ٹریننگ دی جائے گی جس کی بدولت بے روزگاری پر قابو پایا جا سکے گا انڈسٹریل اسٹیٹ
کوئٹہ ڈیرہ مراد جمالی اور حب کو فعال بنا دیا گیا ہے جہاں مختلف صنعتی ریونیو بھی فراہم کیا جاتا ہے بوستان میں وفاقی حکومت کے تعاون سے کام ہو رہا ہے جو عنقریب صنعتی اور اقتصادی سر گر میوں کا مرکز بنے گا ۔
معلومات عامہ کے شعبے کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا خاص طور پر آج کے اس جدید دور مدیں اس کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے ہر حکومت کو عوامی مشکلات سے باخبر رہنے اور ان کے حل کیلئے معلومات عاملہ کا سہارا لینا پڑتا ہے یہ شعبہ حکومت کو بروقت وبہتر تجا ویز کے لئے مسائل حل کرنے میں اہم کردا رادا کر تا ہے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ چونکہ صحافت سے وابستہ افراد ہیں لہٰذا حکومت اور اس کے مکتلف شعبوں کی فلاح وبہبود پر مسلسل توجہ مرکز رکھے ہوئے ہیں حکومت
بلوچستان کبھی بھی صحافیوں کے مسائل کے حل اور اور انکے فلاح وبہبود سے غافل نہیں ہو رہی ہے اس حوالے سے درج ذیل اقدامات قابل ذکر ہے حکومت
بلوچستان نے جرنلسٹ ویلفیئر فنڈز جو کہ30 ملین روپے تھا اسے بڑھا کر200 ملین روپے کر دیا ہے اس رقم سے حاصل شدہ منا فع صحافیوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جا رہا ہے پریس کلب
کوئٹہ تمام عوامی وسیاسی مسائل کی شنوائی کیلئے پلیٹ فارم مہیا کر تا ہے حکومت نے پریس کلب کو جدید تقاجوں سے ہم آنگ کرنے میں بھر پور معاونت فراہم کی ہے اور اس کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے سالانہ گرانٹ10 ملین روپے سے بڑھا کر20 ملین روپے کر دی گئی ہے صحافت کے شعبہ سے وابسپت ایک اہم طبقہ’’ ہاکرز‘‘ ہے ہاکرز کی فلاح وبہبود کے لئے حکومت نے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہین جس میں اخبار مارکیٹ سر فہرست ہے علاوہ ازیں ہا کرز کی فلاح وبہبود کیلئی11 ملین روپے فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے ترقی نسواںہماری حکومت خواتین کے حقوق ، تحفظ اور فلاح وبہبود اور ترقی کیلئے کوشاں ہے تاکہ خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ لایا جا سکے اس مقصد کیلئے رواں مالی سال اس محکمے کیلئے نہ صرف اسامیاں رکھی گئی ہیں بلکہ اگلے مال سال2018-19 میں اس محکمے کے لئے تقریبا11.2 کروڑ روپے کا ترقیاتی
بجٹ بھی رکھا گیا ہے ڈائریکٹریٹ آف وومن ڈویلپ،منٹ جس کا قیام2010 میں لایا گیا تھا مگر عمارت نہ ہونے کی وجہ سے یہ دفتر عارضی طور پر Rented Bulding میں کام کر رہا ہے اس لئے اس مالی سال میں ڈائریکٹریٹ آف وومن ڈویلپمنٹ کی عمارت کی تعمیر کیلئی5 کروڑ روپے کی ترقیاتی رقم مختص کی گئی ہے اسی طرح وومن ڈائریکٹریٹ کے ذیلی دفتر شہید
بے نظیر بھٹو وومن سینٹر
کوئٹہ کی عمارت کی تعمیر کیلئی5 کروڑ روپے کی ترقیاتی رقم مختص کی گئی ہے اسی طرح وومن ڈائریکٹریٹ کے ذیلی شہید
بے نظیر بھٹو وومن سینٹر کو ئٹہ کی عمارت کی تعمیر کیلئی2.5 کروڑ روپے کی ترقیاتی رقم مختص کی گئی ہے اس کے علاوہ عورتوں کی فلاح وبہبود کیلئے ایک اسکیم متعارف کروائی جا رہی ہے جسے Women Enclave کا نام دیا گیا ہے جس میں خواتین سے متعلق تمام سہولیات شامل ہو نگی فی الحال خواتین کے ایک ہاسٹل کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس کیلئے حکومت
بلوچستان نی2.5 کروڑ روپے کی ترقیاتی رقم مختص کی ہے ہماری صوبائی حکومت صوبے کی ثقافتی قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات پر یقین رکھتی ہے اسی طرح اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ
بلوچستان میں تفریح اور سیاحت کے موقع بہت کم ہیں آنیوالے مالی سال2018-19 کیلئے محکمہ ثقافت وسیاحت کیلئے غیر ترقیاتی مد میں تقریبا19.8 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں
بلوچستان آر ٹ کونسل ایکٹ2017 کو نافذ کرنے کیلئے
صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا جا رہا ہے صوبے میں سیاحت کو فروغ کیلئی60 سے زائد تفریحی مقامات کی نشا ند ہی کر دی گئی ہے ادارہ برائے سیاحت
کوئٹہ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے
بلوچستان آرٹسٹ ویلفیئر فنڈ کی تجویز بھی زیر غور ہے
بلوچستان پبلک سروس کمیشن جو اقرباء پروری، ذاتی پسند نا پسند اور
کرپشن کی نظر ہو چکا تھا کو کا فی کو ششوں کے بعد انصاف ومیرٹ کی راہ پر گامزن کر دیا گیا ہے ایک ایسے شخص کو بطور چیئرمین توسیع دے گئی ہے جس کا ماضی انصا ف، ایمانداری اور قابلیت پر مبنی فیصلوں سے بھرا پڑا ہے آئندہ بھی اس انتہائی اہم ادارے کی فعالیت اور کارکردگی بڑھانے کیلئے کسی بھی مشکل اور غیر مقبول فیصلے میں جھجک محسوس نہیں کی جائے گی ہر حکومت کی یہ ذمہ داری ہو تی ہے کہ اپنے محدود وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کو با عزت روزگار کے مواقع فراہم کرے اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلے مالی سال کیلئی8035 نئی اسامیاں پیدا کی جائیں گی جس سے براہ راست روزگار کے مواقع میسر ہونگے صوبائی صوبائی حکومت کے مختلف اداروں میں موجود تربیتی اداروں مثلاً ٹی ٹی سی ، وی ٹی سی اور سمال انڈسٹریز کے تحت کام کرنے والے اداروں میں نوجوان کو تربیت دی جائیگی تاکہ وہ اپنے لئے خود روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے قابل بن جائیں مزید یہ
تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کیلئے انٹرن شپ کا بندوبست کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ وفاقی اداروں میں وفاقی
بجٹ سے ہزاروں اسامیوں پر
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بے روزگار نوجوانوں کو اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر روزگار فراہم کرنے کی بھر پور کو شش کی جائے گی سرکاری ملازمین ، پینشرز اور ورکرز کیلئے ریلیف اقدامات صوبے کی انتظامی مشینری کو چلانے، منصوبہ سازی اور منصوبوں کو عملی جامعہ پہنانے میں سرکاری ملازمین ہمارے دست وبازو ہیں ان کی مالی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے مسائل حل کرنا ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنکواہیں موجودہ
مہنگائی کے تناسب سے ناکافی ہیں لہٰذا اس ضمن میں حکومت
بلوچستان نے اپنے سرکاری ملازمین، پنشنرز اور ورکرز کیلئے مندرجہ ذیل ریلیف اقدامات کئے ہیں، محکمہ صحت کے صوبائی سنڈیمن ہسپتال میں ٹرانا سینٹر کے ڈاکٹرز اور سٹاف کے پروفیشنل الائونس میں خاطرہ خواہ اضافہ کر دیا گیا ہے باقی صوبوں کی طرز پر ہمارے صوبے کے ضلعی سپورٹس افیسران کی اسامیوں کو گریڈ16 سے گریڈ17 میں اپ گریڈ کر دیا گیا ہے جس سے سپورٹس سرگرمیوں پر مثبت اثرات مرتب ہو نگے آئندہ مالی سال2018-19 میں تنکواہوں اور پینشن کے حوالے سے ہماری صوبائی حکومت اپنے ملازمین اور پینشرز کیلئے وفاقی حکومت کے اعلان کر دہ طرز پر اجافے کا اعلان کر تی ہے موجودہ حکومت نے ایم فل الائونس کی طرح ایم سی ڈگری پاس کرنے والوں کو بھی پانچ ہزار روپے ماہانہ الائونس دینے کی منظوری دے دی ہے استنٹ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افیسر کو گریڈ 16 سی17 میں اپ گریڈیشن دے دی گئی ہے محکمہ Reclamation And probation کے ملازمین کا ماہانہ الائونس اور تنکواہ نیشنل پالیسی2009 کے مطابق کر دی گئی ہے اقلیتی امور ، اقلیتوں کے بنیادی وآئینی حقوق کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اقلیوں کے پانچ فیصد
کوئٹہ پر سختی سے عملدرآمد کیلئے احکامات جاری کر د یئے گئے ہیں خلاف ورزی پر سخت تا دیبی کا رروائی کی جائے گی
بلوچستان کے اسکولوں کی سطح پر غیر مسلم بچوں کو اسلامیات کے بجائے اخلاقیات کا مضمون پڑھانے کے اقدامات کر دیئے گئے ہیں
بلوچستان کے
غریب اور نادرار افراد اورطلباء وطالبات کو گرانٹ ان ایڈ کے تحت مالی امداد اور وظائف دیئے جا رہے ہیں سطح پر Interfaith Harmony committees جو کہ بین العقائد ہم آہنگی کے فروغ کیلئے بہت بہتر کام کر رہے ہیں ہندو برادری کیلئے قانون برائے
شادی رجستریشن بن چکا ہے جو کہ تمام اضلاع میں عملدرآمد کیلئے بجھوا دیا گیا ہے جبکہ
عیسائی برادری کے لئے قانون برائے
شادی رجسٹریشن پر کام ہور ہا ہے سماجی بہبود اور معذوروں کیلئے مراعات، معذوروں کے بنیادی وآئینی حقوق کو بھی تحفظ ف فراہم کیا جا رہا ہے معذوروں کیلئے مختص کر دہ کوٹہ پر سختی سے عملدرآم دکیلئے کام جاری ہے تمام پبلک مقامات، شاپنگ سینٹرز وگیرہ مین اسپیشل انتظامات کیلئے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں آنیوالے مال سال2018-19 خصوصی افراد کیلئے ایک انٹر کالج کا قیام عمل میں لایا جائے گا رواں مالی سال کے دوران100 سے زیادہ موٹرسائیکلیں معذور افراد میں تقسیم کر دی گئی ہیں آنیوالے سال2018-19 میں بھی اس کام کو جاری رکھا جائیگاآنیوالے مالی سال کے دوران بے گھر اور بے سہارا بچوں کیلئے سینٹر کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے دہشتگردی سے متاثرین کیلئے معاوضہ،رواں مالی سال کے دوران تقریبا1 ارب روپے بطور معاوضہ دہشت گردی کے متاثرین میں تقسیم کر دیا گیا ہے اس کے علاوہ دہشت گردی سے
شہید ہونیوالے سرکاری ملازمین کے لواحقین، صحت، گھر، تنخواہ اور پنشن کے اخراجات بھی حکومت
بلوچستان ادا کر رہی ہے عام شہری جو دہشت گردی میں
زخمی یا
شہید ہوئے ان کیلئے بھی خاطر خواہ رقم فراہم کی گئی ہے
بجٹ تخمینہ مالی سال2018-19 کیلئی352.3 ارب روپے کا
بجٹ تجویز کیا جا تا ہے اس میں88.3 ارب روپے کا ترقیاتی
بجٹ شامل ہے جس میں بیرونی تعاون کا حصہ 9.2 ارب روپے ہے امسال غیر ترقیاتی
بجٹ 264.4 ارب روپے کا ہے جس میں ریونیو اخراجات کا تخمینہ 223.05 ارب روپے اور کیپٹل اخراجات کیلئی40.99 ارب روپے شامل ہیں صوبے کے اپنے وسائل سے آمد کا تخمینہ 15.1 ارب روپے ہے جبکہ وفاق سے حاصل ہونیوالے آمد 243.2 ارب روپے کی تفصیل درج ذیل ہے قابل تقسیم پول224.1 ارب روپے براہ راست منتقلی9.1 ارب روپے دیگر 10.0 ارب روپے کل آمدن کا تخمینہ290.3 ارب روپے ہے سال2018-19 کے لئے
بجٹ خسارہ 61.9 ارب روپے ہو گا ترقیاتی
بجٹ وزیراعلیٰ
بلوچستان کا اعلان کر دہ پیکج زرعی یونیورسٹی بمقام نصیر آب اد کیلئی2.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں3 ارب روپے کی لاگت سے میڈیکل کالج نصیر آباد کی تعمیر کی جائے گی جان لیوا بیماریوں جس میں کینسر ہیپاٹائٹس وغیرہ کیلئی1 ارب روپے دیئے جائینگے 1.5 ارب روپے کی لاگت سے Shelterless سکولوں کو عمارت فراہم کی جائے گی صوبے کے معذور افراد کو وطیفہ دیا جائیگا جس پر50 کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ ہے ایک ہزار سے زائد ضرورت مند نوجوان جوڑوں کی اجتماعی
شادی پروگرام کیلئی20 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں50 کروڑ روپے کی لاگت سے
بلوچستان کے اہل طلباء وطالبات کو میرٹ کی بنیاد پر لیپ ٹاپ دیئے جائینگے 13 کروڑ رپوے کی لاگت سے
کوئٹہ شہر کی سڑکوں، اسٹریٹ لائٹس وغیرہ کی مرمت کی جائے گی وزیراعلیٰ
بلوچستان یوت