موجودہ ملکی و سیاسی اور معاشی صورتحال میں صوبہ سندھ کی صورتحال دیگر صوبوں سے انتہائی تشویشناک ہے، سجاد چانڈیو

ایسا لگ رہا ہے سندھ پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ کسی دشمن ریاست کا مفتوح علاقہ ہے جہاں پر ہر آدمی کو غلام سمجھ کر اس کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے پانی سے لیکر تیل، گیس, پیٹرول، شہروں اور زمینوں، روزگار اور حقِ حکمرانی پر قبضہ کر کے سندھ کو ویران بنایا جا رہا ہے، پلیجو ہائوس میں پریس کانفرنس

بدھ 17 جولائی 2019 00:08

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جولائی2019ء) عوامی تحریک کے مرکزی صدر سجاد احمد چانڈیو ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ موجودہ ملکی و سیاسی اور معاشی صورتحال میں صوبہ سندھ کی صورتحال دیگر صوبوں سے انتہائی تشویشناک ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ سندھ پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ کسی دشمن ریاست کا مفتوح علاقہ ہے جہاں پر ہر آدمی کو غلام سمجھ کر اس کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، گویا فاتحین قومی وسائل کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹ رہے ہیں، پانی سے لیکر تیل, گیس, پیٹرول, شہروں اور زمینوں, روزگار اور حقِ حکمرانی پر قبضہ کر کے سندھ کو ویران بنایا جا رہا ہے۔

وہ پلیجو ہائوس قاسم آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں، اس موقع پر وسند تھری ایڈوکیٹ، نوراحمد کاتیار ، عبدالقادر رانٹو، سومار ہالیپوٹہ، عمراہ سموں اور حسنہ راہوجو بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

سجاد احمد چانڈیو ایڈوکیٹ نے کہا کہ گذشتہ 40 برسوں سے پانی کی قلت کے خلاف سندھ کا عوام سراپا احتجاج ہی, کوئی بھی ایسا دن نہیں گذرتا جس دن سندھ کے کسان, آبادگار, سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاج نہ کیا جاتا ہو۔

لیکن ایسے احتجاجوں کا نوٹیس لینے کے بجائے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کے برعکس سندھو دریا پہ ڈیم اور کئنال بنا کر پانی پہ زبردستی ڈاکہ ڈ النے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور سندھ کو ویران صحرا میں تبدیل کرکے سندھی عوام کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ درحقیقت اس وقت ساری نہریں اور کئنال پانی سے فل ہونی چاہیی, لیکن بدین, سجاول, ٹھٹھہ, دادو, جامشورو, سانگھڑ, عمرکوٹ ٹنڈوالھیار, ٹنڈومحمد خان, حیدرآباد, نوابشاہ اور دیگر اضلاع کی لاتعداد نہروں میں پانی کے بجائے مٹی اڑ رہی ہے۔

ہزاروں کے تعداد میں کسانوں اور آبادگاروں کا معاشی قتل عام کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں افغانستان سے غیر قانونی طور پر افغانی پاکستان میں داخل ہوئی, اور آج بھی لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی طور پہ افغانی پناہگیر ملک میں رہائش پذیر ہیں۔ افغان پناھگیروں کی بہت بڑی تعداد سندھ کی شھہ رگ کراچی میں مقیم ہے۔

اور ان کے علاوہ دیگر بڑے شہروں میں بھی آباد ہیں۔ سندھ میں غیر قانونی افغانی پناہگیر اپنے ساتھ ہیروئن, چرس, آفیم, کلاشنکوف, بدامنی اور دہشتگردی بھی لائے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں حکومت کو یہ واضح طور پر ہدایت جاری کی تہی کہ ۲۰۱۸ع کی الیکشن سے پہلے سندھ میں غیر قانونی طور پر رھائش پذیر سارے پناہگیروں کو اپنے آبائی وطن بھیجا جائے۔

دراصل سندھ میں رہنے والے پناہ گیر دہشتگردی, غیر قانونی ہتھیاروں کی فروخت, منشیات, زمینوں پر قبضے اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ حالانکہ یہ ساری انکاشافات سے بھرپور رپورٹیں قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں نے بہی سپریم کورٹ کو دی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت سپریم کورٹ کے اس واضح فرصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے تیار نہیں۔

نہ صرف یہ بلکہ تحریک انصاف کے وزیر اعظم نے تو نادرا کو حکم جاری کیا ہے کہ غیر قانونی طور پر سندھ میں پناہ گیروں کو شناختی کارڈ جاری کردیے جائیں۔ دراصل, 30 جون کو افغانیوں کی مدت پوری ہونے کے باوجود وزیراعظم افغانیوں کو یہاں رہنے کی مدت میں مزید ایک برس کا اضافہ کیا ہی, جس فیصلے کی حمایت پیپلز پارٹی کی حکومت بھی کر رہی ہے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال پہلے سے ہی بدترین ہی, اس کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں پناہگیر معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔

وفاقی اور سندھ حکومت کی یہ گٹھ جوڑ انتہائی مذمت لائق ہے۔ عوامی تحریک سمجھتی ہے کہ یہ عمل غیر قانونی پناہ گیروں کو سندھ پہ قابض بنانے کی گھری سازش ہے۔ ایک جانب افغانیوں کی رہائش کی مدت میں اضافہ تو دوسری جانب بحریہ ٹائوں, ڈ ی ایچ ای, اور ذوالفقار آباد جیسی رہائشی اسکیمیں بنا کر ان میں پناہگیروں کو آباد کرنے کا منصوبا بنایا جا رہا ہے۔

کراچی کے اصلی باشندوں سندھیوں کی لاتعداد بستیاں اور گاؤں بلڈوز کرکے ان کو بے گھر کیا جارہا ہے۔ دراصل یہ عمل سندھیوں کو زبردستی کراچی سے نکالنے کی سازش ہے۔ عوامی تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے چار مئی 2019ع پر دیے گئے فیصلے پر مکمل عمل کروایا جائے۔ بحریا ٹاون کے قبضے میں دی گئے زمین سندھ کو واپس دی جائی, اور اس فراڈ میں ملوث ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کر کے سزائیں دی جائیں۔

اس کے ساتھ کراچی میں سندھی باشندوں اور ان کے علاقوں کو بلڈوز کرنا بند کیا جائے اور انکی بستیوں کو ریگولر کر کے مالکانہ حقوق دیئے جائیں، سندھی ہندو لڑکیوں کی جبری مذہبی تبدیلی اور شادی، سندھی ھندو لڑکیوں کا زور زبردستی مذھب تبدیل کروا کر شادیاں کرنا سندھی ہندو بھائیوں کو ملک بدر کرنے کی سازش ہے۔ یہ عمل دین کی خدمت نہیں بلکہ دین کی بدنامی کا باعث ہے۔

کیونکہ ایسے عملوں کی وجہ سے سندھی مسلماں نوجوانوں کو یہ شح دی جاتی ہے کہ وہ چھوٹی عمر کی ھندو لڑکیوں سے جنسی تعلقات رکھنے کے بعد ان کو بلیک میل کرکی, مسلمان بنا کے شادیاں رچا لیں۔ عوامی تحریک سمجھتی ہے کہ یہ عمل, امن اور سلامتی والے دین پہ بدنامی کا داغ ہے۔ سندھی ھندو سندھ کے اصلی باشندے ہیں۔ سندھی ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے زبردستی شادیاں کروانا بند کیا جائے۔

عوامی تحریک مطالبا کرتی ہے کہ جن جن اضلاع میں کوئی بھی بچی اغوا ہوتی ہے تو اغوا کا مقدمہ ایس ایچھ اور ایس ایس پی کے اوپر درج کیا جائے۔ ، انہوں نے کہا کہ معصوم بچوں سے زیادتیاں اور قتل،معصوم بچوں اور خصوصی طور پہ معصوم بچیوں کو اغوا کر کے جنسی حوس کا نشانا بنا کر قتل کرنے کے وارداتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، تانیا خاصخیلی, راجمکاری, رمشا وسان, بی بی مری, شیرین بروہی, نائلا رند اور دیگر معصوم لڑکیوں کے قاتلوں کو سخت سزائیں دی جاتیں تو حیدرآباد کی بابن شاہ کالونی میں آٹھ برس کی معصوم بچی رخسانہ سیال اور بارہ برس کے بھائی قادر بخش سیال کو اس طرح قتل نہ کیا جاتا۔

عوامی تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ رخسانہ سیال اور قادر بخش سیال کے قتل کی انکوائری سندھ ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج صاحبان سے کروائی جائے۔ اس کیس میں ایس ایس پی حیدرآباد سمیت دیگر پولیس اہلکاروں اور سول اسپتال حیدرآباد کے ایم ایس کو شامل تفتیش کیا جائے۔ معصوم بچوں سے جنسی زیادتی کے بعد قتل جیسے کیسز میں دھشتگردی کے قلم لازمی شامل کیے جائیں۔

اور یہ کیس روزانی کے بنیاد پر ماڈ ل عدالتوں میں چلا کری جلد سے جلد ملوث افراد کو سزائیں دی جائیں، انہوں نے کہا کہ جب سے پی ٹی آئی حکومت اقتدار میں آئی ہی, اس دں سے لے کر ملک کی عوام کا جینا مشکل بنا دیا ہے۔ تیل, پیٹرول, ڈیزل, گئس, بجلی اور سی این جی کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں جس کی وجہ سے روز مرہ کی اشیا کے ریٹ بڑہ گئے ہیں۔ عوامی تحریک سمجھتی ہے کہ ملکی عوام کے اوپر آئی ایم ایف کی فرمائش پر مھنگائی کا ایٹم بم گرایا گیا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کو مکمل طور پر آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ غریب اور مسکین لوگ مھنگائی کی وجہ سے ایک وقت کی روٹی بھی اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے پریشان ہیں۔ بدترین بیروزگاری کی وجہ سے والدیں اپنے بچے بازاروں میں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت گذشتہ طویل عرصے سے شعوری طور پر سندھ کے لوگوں کو جاہل اور ان پڑہ رکھنے کے لیے تعلیمی نظام کا برا حشر کردیا ہے۔

حکمرانوں کا تعلیم دشمنی کا یہ عالم ہے کہ حکومتی وزیر اور مشیر تعلیم کو بہتر بنانے اورعام شاگرد کے لیئے فائدے مند بنانے کی بات کر کے موجودہ تعلیمی پالیسی سے بھی بدترکردی ہے۔ اور نقصان دینے والی پالسییسز مرتب کر رہے ہے۔ اس وقت سندھ سرکار نے سندھ کے اکثر ہائیر سیکنڈری سکول ڈی گریڈ کر دے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں پرائمری سکول بھی ختم کرنے کی پالیسی بنائی گئی ہے۔

جس کے مطابق ۳۰ بچوں پر چلنے والے سکول ختم کرکے دو تین سکولوں کو ملا کر ایک سکول قائم کرنے کی پالیسی بنائی گئے ہے۔ اس پالیسی کی تحت دیہاتی بچے سخت متاثر ہوں گے۔ ٹنڈوباگو کا قدیمی میرغلام محمد خان تالپور ہائیر سیکنڈری سکول جو کہ ۱۹۲۰ میں قائم ہوا تھا, اس کو بھی منسوخ کردیا گیا ہے۔ اس جدید دور میں تعلیم کے لیے ۲۰۰۵ع میں سندھ کو انفارمیشن ٹیکنالاجی کالیج ٹنڈو باگو دیا گیا تھا۔

جس کو موجودہ وزیر تعلیم سندھ نے ڈ ی گریڈ کر کے ڈ گری کالیج کر دیا ہے۔ عوامی تحریک موجودہ سندھ دشمن تعلیمی پالیسییز کو مکمل رد کرتی ہی۔ اور مطالبا کرتی ہے کہ پختہ اور سائنسی بنیادوں پر مشتمل پالیسیز مرتب کی جائیں۔ اس کے ساتھ انفرمیشن ٹیکنالاجی کالیج ٹنڈو باگو کو فورن بحال کرکے فعال بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں صحت کی صورتحال یہ ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں سے صحرائے تھر میں بہتر خوراک اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے ہزارون بچے مر رہی ہیں۔

تھر کی سب سی بڑی ہسپتال مٹھی میں بچوں کے ماہر ڈ اکٹر موجود نہیں۔ اور نہ ہی بچوں کو ادویہ میسر ہیں، تھر کے لاتعداد گائوں میں بنیادی صحت مرکز اور ڈسپینسریز ڈ اکٹروں کی قلت کا جواز بنا کر کے بند کی گئیں ہیں۔ پیپلز پارٹی ہر روز سسک سسک کر مرنے والے بچوں کا علاج کروانے کے لیے تیار نہیں۔ سندھ کے تمام اضلاع میں ایڈز کے کیس ظاہر ہو رہے ہیں۔

لاڑکانے میں خصوصی طور پر تعداد بڑھ گیا ہے۔ لاڑکانہ جو پیپلز پارٹی کے حکمران ذوالفقار بھٹو, بینظیر بھٹواور بلاول بھٹو زرداری کے آباو اجداد کا شھر ہے، اس ضلعی کو بیماری اور کرپشن میں مثالی بنایا گیا ہے، سندھ کے تمام ھسپتالوں کو کروڑوں کی بجیٹ ملتی ہی, لیکن وہ بجیٹ ایم این ایز, ایم پی ایز اور انتظامیہ کی کرپشن کے نظر ہو جاتی ہے۔ اسپتالوں میں علاج نہ ہونے کی وجہ سے ہر روز لوگ تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ سندھ کی ہسپتالوں کو ذبح خانہ بنایا گیا ہے۔