Live Updates

آرڈیننس کا مقصد ہراساں کرنا نہیں، کے سی سی آئی کے انڈر فائلرز پر خدشات دور کیے جائیںگے، شوکت ترین

ڈی ایل ٹی ایل بند نہیں گی، تمام کلیمز بروقت ادا کئے جائیں گیا،کے سی سی آئی وفد کے دورے کے دوران تمام زیر التواء پالیسیوں کی ڈیڈ لائن دی جائے گی،وفاقی وزیر خزانہ نیا آرڈیننس ہراساں کرنے اور بدعنوانی کے مزید راستے کھولے گا، زبیر موتی والا،روپے کی قدر میں کمی نہ برآمدات، نہ ہی کاروبار،معیشت کوسہارا دے رہی ہے، شارق وہرہ

پیر 20 ستمبر 2021 21:21

آرڈیننس کا مقصد ہراساں کرنا نہیں، کے سی سی آئی کے انڈر فائلرز پر خدشات ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 ستمبر2021ء) وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو شوکت ترین نے یقین دہانی کرائی ہے کہ لوکل ٹیکسز اور لیویز (ڈی ایل ٹی ایل) کی واپسی کی مدت میں توسیع کر دی گئی ہے اوریہ جاری رہے گا جبکہ تاجر برادری کے تمام کلیمز کی بروقت ادائیگی کی جائے گی کیونکہ بجٹ میں اس مقصد کے لیے پہلے ہی فنڈز مختص کیے جا چکے ہیںاور پچھلے مالی سال کے 32 ارب روپے کے زیر التوا کلیمز بھی اگلے 6 ماہ میںادا کردیے جائیں گے۔

وفاقی وزیرخزانہ نے اتوار کو مقامی ہوٹل میں منعقدہ اجلاس میں بزنس مین گروپ (بی ایم جی) اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کی قیادت کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہوئے کے سی سی آئی کو مشورہ دیا کہ وہ ایک وفد اسلام آباد بھیجے تاکہ نئے آرڈیننس پر پائے جانے والے تحفظات پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان، مشیر تجارت و سرمایہ کاری رزاق داؤد، وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر اور وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرکے موقع پر ہی تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ہم تمام زیر التواء پالیسیوں کے لیے فوری طور پر ڈیڈ لائن دیں گے کیونکہ وزیراعظم تجارتی، صنعتی اور زرعی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اجلاس میں چیئرمین بزنس مین گروپ وسابق صدر کے سی سی آئی زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی طاہر خالق، ہارون فاروقی اور جاوید بلوانی، جنرل سیکرٹری بی ایم جی اے کیو خلیل، صدر کے سی سی آئی شارق وہرہ، سینئر نائب صدر ثاقب گڈ لک، نائب صدر شمس الاسلام خان، سابق نائب صدر محمد ادریس، سابق صدور، کے سی سی آئی منیجنگ کمیٹی کے ممبران کے ساتھ ممتاز کاروباری شخصیات نے اجلاس میں شرکت کی۔

شوکت ترین نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ آرڈیننس کا مقصد کسی کومتاثر کرنا نہیں ہے بلکہ یہ آرڈیننس خالصتاً نان فائلرز اور انڈر فائلرز کے لیے ہے جو زیرو ٹیکس فائل کرتے ہیں۔یہ بات باعث تشویش ہے کہ 2.9 ملین کے مجموعی فائلرز میں سے 10 لاکھ ایسے ہیں جو ریڑن تو فائل کرتے ہیں لیکن کوئی انکم ظاہر نہیں کرتے جس پر ٹیکس کا اطلاق ہو۔ ہم آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے مدد لینے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے ذریعے بینکنگ لین دین کی سرگرمیوں کے ساتھ بجلی، گیس، ٹیلی فون کے بلوں کی جانچ پڑتال ممکن ہوگی اور انڈر فائلرزکی شناخت کرنے میں مدد ملے گی جن سے تیسرے فریق کے ذریعے کہا جائے گا کہ وہ اپنے ٹیکس جمع کروائیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت 5 فیصد کی شرح سے پائیدار معاشی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے جو کہ پی ایس ڈی پی کو بڑھانے اور خام مال کی قیمتوں کو کم کرنے کی بنیادی وجہ ہے تاکہ انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے۔ انہوں نے کہاکہ اچھی خبر یہ ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں کیونکہ تمام اشارے بہتری ظاہر کر رہے ہیں اور ہم توقع سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں تاہم درآمدی بل پچھلے سال کے 13 ارب ڈالر کے مقابلے میں اس سال 19 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گاجس کی بنیادی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور دیگر اشیاء ہیںجسے ہمیں جذب کرناہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا ہدف اگلے چند سالوں میں برآمدات کی رفتار کو موجودہ 8 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنا ہے جبکہ محدود صنعتوں کی بنیاد کو بھی ترغیب کے ذریعے بڑھایا جا رہا ہے۔تعمیراتی شعبے، دواسازی سیکٹر، اسپیئر پارٹس مینوفیکچررز کو مراعات دی گئی ہیں۔ہر ایک جس کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہو اس کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تاکہ وہ برآمدات کی طرف بھی جا سکے۔

ہمیں بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ذریعے مقامی سرمایہ کاروں کو سہولت دے کر برآمدات اور ایف ڈی آئی کو بہتر بنانا ہے۔اگر ہمارے مقامی سرمایہ کار خوش نہیں ہوں گے تو ہم غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کس طرح راغب کریں گے۔وزیرخزانہ نے مزید کہا کہ مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ علاقائی ممالک سمیت دنیا کے کئی ممالک بھی اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں جو کرونا کی وجہ سے پوری دنیا میں پیداوار میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ لاجسٹکس میں رکاوٹ اور زیادہ کنٹینر چارجرز کی وجہ سے ہے۔

پام آئل، گندم اور چاول کی قیمتیں 2018 سے عالمی سطح پر بڑھ رہی ہیں۔ہم خود کو بین الاقوامی اشیاء کی قیمتوں سے الگ نہیں کر سکتے کیونکہ ہم ان سے جڑے ہوئے ہیں۔انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ وہ کراچی کے خستہ حال انفرااسٹرکچر پر کے سی سی آئی کے خدشات کو وزیر اعظم تک پہنچائیں گے اور وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے نفرااسٹرکچر کی خراب حالت کو بہتر بنانے کے لیے کسی قسم کے براہ راست اقدامات کی درخواست کریں گے۔

چیئرمین بی ایم جی و سابق صدر کے سی سی آئی زبیر موتی والا نے نئے آرڈیننس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جس میں ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے نام پرنئے اقدامات متعارف کرائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس آرڈیننس نے بنیادی طور پر انڈر فائلرز کی وجہ سے سب کو خوف زدہ کیا ہوا ہے جو ہر ایک کے ذہن میں زیرگردش ہے اور اس آرڈیننس کے انڈر فائلر کو خارج کیا جائے۔

یہ بہت ناانصافی ہے کہ فائلرز کی حوصلہ افزاکرنے اور ان کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کرنے اور نان فائلرز کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے بجائے یہ آرڈیننس موجودہ فائلرز کو بھی انڈر فائلرز کے طور پر شمارکرکے نشانہ بناتا ہے جو ہراساں کرنے اور بدعنوانی کے مزید راستے کھولے گا۔ اس لیے انڈر فائلر کو آرڈیننس سے نکالنا ہوگا۔ انہوں نے ہر ایک کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک سے حاصل ہونے والی کوئی بھی آمدنی جو حکومت کے مقرر کردہ معیار سے تجاوز کرتی ہے وہ ٹیکس کے زمرے آنی چاہیے چاہے وہ زراعت، صنعت ہو یا تجارت۔

انہوں نے کہاکہ ہم محب وطن شہری ہیں اور ہم پاکستان کا ترقی کرتا اور ٹیکس وصولی کو زیادہ سے زیادہ سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ترقی پورے ملک میں ہو۔ تمام اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں واقعی کم از کم 12000 ارب روپے کے ٹیکس وصولی کی ضرورت ہے لیکن اس مقصد کے لیے آپ کو ہر جگہ ہاتھ پائوں مارنے کے بجائے یہ دیکھنا ہو گا کہ فنڈز کہاں سے غائب ہو رہے ہیں یہ آرڈیننس افراد کے ٹیکس نیٹ میں ہونے کی وجہ سے شکار کا ذریعہ تصور کیا جارہا ہے کیونکہ فائلرز کی تمام تفصیلات ایف بی آر کے پاس موجود ہیں ۔

وہ نان فائلرز کے خلاف کارروائی کے بجائے فائلرز کے خلاف کارروائی کرکے سب سے آسان طریقہ اختیار کریں گے۔اس طرح کے قوانین وضع کرنے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جانی چاہیے۔زبیر موتی والا نے یہ نشاندہی بھی کی کہ ڈی ایل ٹی ایل میں توسیع نہیں کی گئی کیونکہ یکم جولائی 2021 سے کوئی توسیع کا نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور برآمد کنندگان کو بالکل اندازہ نہیں ہے کہ ڈی ایل ٹی ایل وہاں ہے یا نہیں۔

اگرچہ 32 ارب روپے مالیت کی ڈی ایل ٹی ایل کلیمز ایف بی آر نے کلیئر کر دیے ہیں اور اسٹیٹ بینک کو بھیجے ہیں لیکن رقم جاری نہیں کی گئی۔ انہوں نے کراچی کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نی1100ارب روپے کے پرجوش کراچی ٹرانسفارمیشن پلان ( کے ٹی پی) کا اعلان کیا لیکن کوئی نہیں جانتا کہ ان فنڈز کے ثمرات کب نظر آئیں گے اور اب تک کیا پیش رفت ہوئی۔

تاجر برادری کے نمائندے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ صنعتی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی کہاں ضرورت کہاں ہے لیکن ٹرانسفارمیشن پلان میں ان سے مشاورت نہیں کی جا رہی۔کے فور منصوبے کا ڈیزائن جو کراچی کی لائف لائن ہے 11 بار تبدیل کیا گیا جس کے نتیجے میں اس منصوبے کی لاگت 22 ارب روپے سے بڑھ کر 100 ارب روپے سے تجاوز گئی جو کہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اگرچہ ورلڈ بینک کے ’’ڈوئنگ بزنس انڈیکس‘‘ میں پاکستان کی رینکنگ 108 ویں نمبر پر آگئی ہے لیکن یہ اب بھی بہت زیادہ تھا کیونکہ تاجر برادری کو یکساں کاروباری مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔

پاکستان میں ہمارے پاس برابری کی بنیاد پر کاروباری مواقع دستیاب نہیں کیونکہ پنجاب اور دیگر علاقوں میں کاروبار کرنے کی لاگت کے مقابلے میں کراچی کی کاروباری لاگت انتہائی زیادہ ہے۔ اگرچہ حکومت نے آر ایل این جی کو6.5ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اور بجلی 9 سینٹ فی یونٹ پر 5 زیرو ریٹڈ سیکٹرکو دی ہے لیکن کراچی میں صنعتوں کوآر ایل این جی کی مد میں ریلیف نہیں دیا گیا۔

جنہوں نے ڈھائی ماہ کے وقفے کے بعد حال ہی میں 9 سینٹ پر بجلی وصول کرنا شروع کی۔انہوں نے افغانستان کے ساتھ روپے میں تجارت کی اجازت دینے پر وزیر خزانہ کے اقدامات کو سراہتے ہوئے وزیر خزانہ کو آگاہ کیا کہ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک نے متعلقہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا اور افغانستان کے ساتھ تجارت 60 فیصد کم ہو گئی ہے۔صدر کے سی سی آئی شارق وہرہ نے وزیر خزانہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے اختیار کی گئی حکمت عملی کو سراہا جس نے معیشت کو 4.8 فیصد جی ڈی پی گروتھ کے ساتھ مستحکم کیا جبکہ برآمدات میں مستقل اضافہ دیکھا جارہاہے اور لارج اسکیل مینوفیکچرنگ بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے جو نہ صرف حکومت بلکہ نجی شعبے کے لیے بھی اطمینان بخش صورتحال پیدا کر رہی ہے۔

انہوں نے کے سی سی آئی کے نقطہ نظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ برآمدات بمقابلہ درآمدات میں ہمیشہ ایک مماثلت رہی ہے کیونکہ برآمدات 22 سے 25 ارب ڈالر کے درمیان مستحکم ہے اور درآمدات بڑھتی رہتی ہیں۔روپے کی قدر میں کمی نہ تو برآمدات اور نہ ہی کاروبار ومعیشت کوسہارا دے رہی ہے۔جسے تب ہی بچایا جا سکتا ہے جب حکومت ملک کے کم صنعتی بنیادکو بڑھانے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کرے اور ماحول بھی سازگار بنائے جس میں صنعتی یونٹس اضافی پیداوار حاصل کرسکیں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات