پیپلز پارٹی نے بلدیاتی بل کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو سننے اور اس پر غور کرنے پر تیار ہے،سعید غنی

سیاسی پوائنٹ سکورننگ کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو باہمی مشاورت سے شہر، صوبے اور ملک کی خدمت کیلئے اقدامات کرنے چاہئے،وزیراطلاعات سندھ قانون پر اعتراضات کرتے ہوئے اپنے اعتراضات سڑکوں کی بجائے اسمبلی میں لائیں اور فلور پر تجاویز دیں،مجلس وحدت مسلمین کے دفتر کے دورے کے موقع پر رہنماؤں سے گفتگو

جمعہ 21 جنوری 2022 17:43

پیپلز پارٹی نے بلدیاتی بل کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2022ء) پاکستان پیپلز پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ بلدیاتی بل کو جواز بنا کر سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو باہمی مشاورت سے اس شہر، صوبے اور ملک کی خدمت کے لئے اقدامات کرنے چاہئے۔ پیپلز پارٹی نے بلدیاتی بل کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو سننے اور اس پر غور کرنے پر تیار ہے البتہ کوئی یہ چاہے کہ 2001 کے آمر مشرف کا بلدیاتی نظام اس صوبے میں دوبارہ رائج کیا جائے تو یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔

سندھ حکومت صوبے میں جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کی خواہ ہے، لیکن جب تک الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کا کام مکمل نہیں کرلیتی یہ ممکن نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار ان دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے جمعہ کے روز مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

قبل ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کا وفد پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری وقار مہدی اور صوبائی وزری اطلاعات ومحنت سندھ سعید غنی کی قیادت میں مجلس وحدت المسلمین کے صوبائی دفتر میں ان سے ملاقات کی۔

اس موقع پر پر وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی سلمان مراد، اقبال ساندھ، ڈسٹرکٹ ایسٹ کے جنرل سیکرٹری لالہ رحیم اور دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ جبکہ مجلس وحدت المسلمین کے صوبائی ترجمان علامہ مبشر حسین، صوبائی سیاسی سیکرٹری علی حسین نقوی، کراچی ڈویژن کے سیکرٹری علامہ صادق جعفری، سیاسی سیکرٹری میر تقی ظفر، ملک غلام عباس، علی احمر، آصف صفوی اور دیگر بھی موجود تھے۔

ملاقات میں دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے سندھ سمیت ملک بھر میں سیاسی صورتحال، ملک میں مہنگائی، بیروگاری، گیس و بجلی کے بحران کے علاوہ سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ بعد ازاں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و محنت سندھ و صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی نے کہا کہ میں مجلس وحدت المسلمین کے دوستوں کا شکر گذار ہوں۔

انہوںنے کہا کہ ان کی جانب سے رکھی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں ہمیں شرکت کرنا تھی لیکن کچھ مصروفیات کے باعث ہم شریک نہ ہوسکے تھے اور اسی لئے آض ہم نے ان سے ملاقات بھی کی ہے اور بلدیاتی نظام کے حوالے سے ان سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور ان کی جانب سے ہمیں اس اے پی سی میں جو فیصلے ان کے ہوئے ان کی منٹس بھی ہمیں فراہم کی ہے۔

سعید غنی نے کہاکہ ان کی جانب سے بلدیاتی نظام کے حوالے سے جو نکات اٹھائے ہیں ان میں زیادہ تر نکات سے ہم اتفاق کرتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ کراچی شہر میں مسائل کے حل کے لئے سندھ حکومت کام کررہی ہے، انہوںنے کہا کہ ہم ہمیشہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مزید صوبے اور اس شہر میں کام کی ضرورت ہے لیکن اس وقت کراچی شہر میں بلدیاتی قانون کو جواز بنا کر کچھ سیاسی جماعتیں اپنا قد اونچا کرنے اور سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کے لئے جو کچھ کررہی ہیں وہ دراصل حقیقی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کررہی ہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ ہم نے 2013 کے قانون میں ترامیم کرکے اختیارات کو مزید نچلی سطح تک منتقل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2001 کا آمر کا قانون کسی صورت بھی نافذ نہیں کیا جاسکتا، انہوںنے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون پر اعتراضات کرتے ہوئے اپنے اعتراضات سڑکوں کی بجائے اسمبلی میں لائیں اور فلور پر تجاویز دیں۔ اس موقع پر مجلس وحدت المسلمین کے علی حسین نقوی نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم نے کچھ روز قبل اے پی سی بعنوان تعمیر کراچی و تعمیر پاکستان کے عنوان سے رکھی تھی، انہوںنے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تعمیر کراچی ہی تعمیر سندھ و پاکستان پے۔

انہوںنے کہا کہ کراچی مضبوط ہو گا تو سندھ مضبوط اور سندھ مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا۔ علی حسن نے کہا کہ ہماری اس اے پی ایس کا مقصد وفاق کی جانب سے پیش کئے جانے والے گورکھ دھندوں کو بے نقاب کرنا تھا۔ انہوںنے کہا کہ آج اس ملک میں غریب بدحال ہے، ادویات کی قیمتوں میں 500 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے، بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور ہمارے حکمران دعویٰ کررہے ہیں کہ ہمارے یہاں فی کس آمدنی 1600 ڈالر کو پہنچ چکی ہے۔

انہوںنے کہا کہ سندھ میں بلدیاتی نظام پر پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی نیک نیتی سامنے نظر آرہی ہے اور مزید آنے والے وفد نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ جو بھی مثبت اور عوامی مفاد میں تجاویز آئیں گی انہیں وہ ضرور غور کرکے بل کا حصہ بنائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ ہم نے وفد سے جماعت اسلامی کے حوالے سے بھی کہا ہے کہ ہماری ماں بہنیں اور بھائی کئی روز سے احتجاج ہر ہیں اس حوالے سے بھی ان سے بات چیت کی جائے، جس پر انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس سلسلے میں ان سے مزاکرات کریں گے۔

انہوںنے کہا کہ ہم پیپلز پارٹی کے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ جو کچھ یہاں بلدیاتی قانون کی آڑ میں ہورہا ہے، وہ دراصل منی بجٹ اور مہنگائی سمیت دیگر عوامی اشیوز سے توجہ ہٹانے کے لئے ہورہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ بلا شبہ شہید ذوالفقار علی سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضرور تھے، کیونکہ ایک فوجی آمر یحییٰ خان جو اس وقت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریرٹر تھے ان سے سول حکومت کو حکومت ٹرانسفر کرنا تھی اور ملک میں اس وقت تک کوئی آئین موجود نہیں تھا۔

انہوںنے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت چند ماہ کے اندر اندر ایک عبوری آئین دیا اور بعد ازاں ایک ایسا آئین دیا جو آج تک اس ملک میں رائج ہے۔ انہوںنے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو پر تنقید کرنے والوں کو ماضی کے حالات کو دیکھ کر تنقید کرنا چاہیئے کیونکہ اس وقت سولین مارشل لا حالات کا تقاضہ تھا،۔ ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ ضیا الحق کے جس بلدیاتی قانون کے تحت جماعت اسلامی کے افغانی مئیر بنے اور جس طرح بھی وہ اقلیت کے باوجود مئیر بنائے گئے یہ وہی قانون تھا، جو ذولفقار علی بھٹو نے 1972 میں بنایا تھا اور اس وقت الیکشن نہیں ہوسکے تھے اور بعد ازاں اس قانون میں کچھ ترامیم کرکے 1979 کا قانون بنا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ حکومتوں کی کارکردگی عوام کے ووٹوں سے جانچی جاتی ہے اور سندھ کے عوام نے ہمیشہ پیپلز پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور زیادہ سے زیادہ ووٹ دئیے ہیں۔ مجلس وحدت المسلمین سے ملاقات سیاسی پارٹی گنتی ہونے کے سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ ہمارا یہاں اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیوں کا مطلب ہرگز سیاسی جماعتوں کی گنتی نہیں بلکہ انہیں بلدیاتی قانون کی حقیقت اور اس پر کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوام کو گمراہ کئے جانے کے حوالے سے آگاہ کرنا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ایم ڈبلیو ایم کے علی حسین نقوی نے کہا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ 2001 کا مشرف والا قانون اس صوبے میں دوبارہ رائج کیا جائے تو یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ انہوںنے کہا کہ موجودہ قانون میں بہتری کی گنجائش موجود ہے ، وہ کسی بھی جماعت کی جانب سے آئیں اس پر گور ہونا چاہیئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ملک میں حالیہ دہشتگردی کے جو واقعات ہوئے ہیں اس پر صرف تھریڈ لیٹر کی بجائے عملی طور پر اداروں کو کارروائی کرنا ہوگی۔

لیاری کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جانب سے خاتون رکن اسمبلی کو حراساں کئے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ کسی بھی خاتون کو حراساں کرنا یا اسے نازیباں ایس ایم ایس کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ انہوںنے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس واقعہ کانوٹس لیا ہے اور اس کی تحقیقات کی جارہی ہے اور اگر اس میں وائس چانسلر بھی ملوث ہوئے تو ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ بلدیاتی ادارے مادر پدر آزاد نہیں ہوسکتے، انہوںنے کہا کہ منصوبوں کی لاگت کی بنیاد پر طے ہوتاہے کہ منصوبہ کہاں سے چلناہے، انہوںنے کہا کہ کوئی یونین کمیٹی یہ نہیں کہہ سکتی کہ صوبے کا بجٹ وہ بنائیں گے۔