یا خود نپٹو یا راستہ دو

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 3 ستمبر 2022 14:20

یا خود نپٹو یا راستہ دو

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 ستمبر 2022ء) اس وقت پاکستان میں سیلاب نہیں بلکہ ایک بڑا انسانی المیہ ورق در ورق کھل رہا ہے۔ دس بلین ڈالر کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ پوری داستان کھلنے تلک بیس بلین یا اس سے بھی اوپر کا ہندسہ چھو سکتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہر چھٹا پاکستانی کلی یا جزوی طور پر اس المیے کی زد میں ہے۔

بین الاقوامی برادری نے گورننس سے متعلق تحفظات کے باوجود امداد کے دروازے کھول دیے ہیں۔

سرکردہ عالمی این جی اوز بھی ہاتھ بٹانے کے لیے بے تاب ہیں۔ حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ اس المیے سے نمٹنے کے لیے ہر طرح کی اور ہر طرف کی مدد درکار ہے۔

ایسے میں پاکستان میں رجسٹرڈ اڑتیس بین الاقوامی این جی اوز کے پاکستان ہیومینٹیرین فورم کی جانب سے یہ بیان آیا ہے کہ خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے بعض متاثرہ علاقوں تک ہم اس لیے نہیں پہنچ پا رہے کیونکہ وفاقی حکومت کی تحریری اجازت درکار ہے۔

(جاری ہے)

سرکاری عذر یہ ہے کہ بین الاقوامی این جی اوز کی بہت سے حساس علاقوں میں مکمل سیکورٹی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

جہاں جہاں رسائی کی اجازتہے وہاں وہاں تک بائیس بین الاقوامی امدادی اداروں اور بیرونی گرانٹ پر منحصر مقامی تنظیموں نے اب تک پونے دو لاکھ متاثرین کی مدد کی ہے۔ مگر بہت سے اندرونی علاقے اس وقت کٹے ہوئے ہیں اور ہزاروں لوگ پناہ، خوراک اور علاج معالجے کی سہولتوں کے منتظر ہیں۔

فورم کا کہنا ہے کہ اس ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں سرکار کے نافذ کردہ قواعد و ضوابط میں عارضی نرمی درکار ہے۔

سرکاری صلاحیتیں اور امدادی انفراسٹرکچر کی کمزوریاں گزشتہ کی طرح اس المیے نے بھی ایک اور بار آشکار کر دی ہیں۔ مگر حکومت کے اندر بھی بہت سی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں ہیں، جو غیر معمولی حالات میں بھی معمول کی سوچ یا بقول شخصے آؤٹ آف باکس حل نکالنے سے ہمیشہ کی طرح قاصر ہیں۔

پاکستان کا عالمی این جی اوز اور امدادی اداروں سے رشتہ ہمیشہ سے اعتماد اور شک کے درمیان جھولتا آیا ہے ۔کبھی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے تو کبھی اچانک ملکی سالمیت، مقامی ثقافت اور دوست کے بھیس میں اغیار کی مسلمان دشمنی کا خیال زور پکڑ لیتا ہے اور شکنجہ کس دیا جاتا ہے اور جب نئی ابتلا آتی ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ شکنجے کا کون سا پیچ ڈھیلا کیا جائے اور کتنا کیا جائے۔

مگر وہ جو شیخ سعدی نے کہا ہے کہ

چناں قحط سالی شد اندر دمشق

کہ یاراں فراموش کردند عشق

(دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ عاشق محبت کرنا بھول گئے )

جب آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کو شمالی پاکستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا تو کاروبارِ زندگی ایسا چوپٹ ہوا کہ بین الاقوامی اداروں کے لیے وہ تمام متاثرہ علاقے کھولنے پڑ گئے جہاں غیر ملکی بنا اجازت نامہ کبھی پر نہیں مار سکتے تھے۔

امریکی شنوک اور جاپانی فضائیہ کے ہیلی کاپٹر ان علاقوں میں سینکڑوں پروازیں بھرتے رہے۔ یوں بیسیوں مقامی و بین الاقوامی امدادی اداروں کے تعاون سے امداد و بحالی کا کام تیز رفتاری سے ممکن ہو سکا اور ہزاروں زندگیاں بچا لی گئیں۔

دو ہزار سات آٹھ میں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نقصانات کی بھرپائی کے لیے امریکی کانگریس نے ساڑھے سات ارب ڈالر کا کیری لوگر پیکیج منظور کیا تو اس میں ڈیڑھ ارب ڈالر ایسے فلاحی منصوبوں کے لیے مختص ہوئے جنہیں بین الاقوامی این جی اوز کے توسط سے مکمل ہونا تھا۔

حکومتِ وقت نے تھوڑی بہت آنا کانی کے بعد یہ شرط مان لی اور یو ایس ایڈ اور ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمٹ کی معرفت متعدد ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہو گیا۔

شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا تازہ باب تب کھلا جب دو ہزار دس میں اخبار نیویارک ٹائمز میں خبر چھپی کہ مبینہ طور پر پینٹاگون نے امریکی امدادی نیٹ ورک سے منسلک کچھ کنٹریکٹرز کو پاک افغان سرحدی علاقوں میں جہادی تنظیموں کے اندرونی نظامِ کار اور قبائلی ڈھانچے کی بدلتی ہیت سے متعلق معلومات جمع کرنے کا کام سونپا۔

اس رپورٹ کے بعد پاکستانی حساس اداروں نے ان علاقوں میں ریسرچ اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر کام کرنے والے اجنبیوں اور ان کے مقامی اتحادیوں کی نگرانی بڑھا دی۔

البتہ اونٹ کی کمر اس آخری تنکے سے ٹوٹی جب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے آپریشن کے کچھ دن بعد ”سیو دی چلڈرن‘‘ کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی سی آئی اے کی مدد سے ایک جعلی طبی مہم چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

یہ مہم اسامہ بن لادن کے ڈین این اے کے حصول اور توثیق کے لیے منظم کی گئی تھی۔ چنانچہ کئی بین الاقوامی این جی اوز نے شدید تنقید کرتے ہوئے برملا کہا کہ اس حرکت سے تمام این جی اوز کی سلامتی، نیک نامی اور جاری منصوبے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔

شکیل آفریدی کی گرفتاری کے نتیجے میں ”این جی او کلچر‘‘ کی مخالف مقامی تنظیموں کے ہاتھ میں تازہ ڈنڈہ آ گیا اور اس موقع کو ریاستی اداروں نے بھی این جی اوز کو پوری طرح قابو کرنے کے لیے خوب استعمال کیا۔

تمام غیر ملکی سفارت کاروں اور اقوامِ متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کے حکام کو پابند کیا گیا کہ وہ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں سے باہر وزارتِ داخلہ کے اجازت نامے کے بغیر نہیں جا سکتے۔

دو ہزار پندرہ میں نواز شریف حکومت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے این جی او سرگرمیوں کو نکیل ڈالنے کا کام اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ”سیو دی چلڈرن‘‘ کو مکمل طور پر بوریا بستر لپیٹنے کا حکم دیا۔

جبکہ پندرہ دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے اجازت نامے بھی کم ازکم چھ ماہ کے لیے معطل کر دیے گئے۔ ان میں اوکسفیم یوکے، نارویجن ریفیوجی کونسل، ڈینش ریفیوجی کونسل، کیتھولک ریلیف سروس، ورلڈ وژن اور مرسی کور جیسی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔

نئے ضوابط کے تحت بین الاقوامی این جی اوز کی رجسٹریشن کا کام وزارتِ خزانہ کے اکنامک ڈویژن سے وزارتِ داخلہ کو منتقل کر دیا گیا اور این او سی کا اجرا حساس اداروں کی رضامندی سے مشروط ہو گیا۔

یہ بھی پابندی لگائی گئی کہ این جی اوز کے مقامی بجٹ کا صرف تیس فیصد انتظامی اخراجات کے لیے مختص ہو گا اور کسی بھی پروجیکٹ کی افرادی قوت میں دس فیصد سے زائد غیر ملکی عملہ شامل نہیں ہو گا۔

ان پابندیوں کا اطلاق ان مقامیاین جی اوز پر بھی کیا گیا جنہیں بین الاقوامی امداد ملتی ہے۔ اکتوبر دو ہزار اٹھارہ میں عمران حکومت کے دور میں اسلام آباد میں حساس اداروں نے ایکشن ایڈ سمیت اٹھارہ بین الاقوامی این جی اوز کے دفاتر پر چھاپہ مار کر ریکارڈ سربمہر کر دیا اور انہیں ساٹھ دن میں اپنے منصوبے مکمل کر کے ملک چھوڑنے کا حکم یہ کہتے ہوئے دیا گیا کہ وہ چھ ماہ بعد دوبارہ رجسٹریشن کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔

ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ساتھ فارن فنڈنگ پر منحصر درجنوں مقامی تنظیمیں بھی مفلوج ہو گئیں۔ یو ایس ایڈ نے بھی اپنے منصوبے مختصر کر دیے اور نئے منصوبوں پر سے ہاتھ اٹھا لیا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ بارشوں اور سیلاب کی زد میں زیادہ تر وہ علاقے ہیں جو قومی سلامتی کے اداروں کی ریڈ لسٹ میں ہیں۔

ان میں قبائلی پٹی سے متصل جنوبی خیبر پختون خواہ، یورینیم کی پیداوار کے لیے معروف پنجاب کا ضلع ڈیرہ غازی حان اور بدامنی سے دوچار بلوچستان شامل ہے۔ ان علاقوں میں مقامی این جی اوز فعال ہیں اور بہت اچھا کام کر رہی ہیں مگر جتنا وسیع بحران ہے اس کے ہوتے سب کا کام ملا کے بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔

اس بحران نے قومی سلامتی کو حقیقی اندرونی خطرے میں ڈال دیا ہے مگر فیصلہ سازوں کی توجہ اب بھی بیرونی خطرات کے فریم میں پھنسی ہوئی ہے اور قیمتی وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔

کوئی بھی دلیل روٹی، صاف پانی، خیمے، پناہ اور علاج سے بڑی نہیں ہو سکتی۔

یا تو ریاست میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ اس قیامت سے اکیلے نمٹ سکے۔ اگر یہ صلاحیت بھی چوپٹ ہو تو پھر کون سی سلامتی اور کون سے کروڑوں لوگ کہ جنہیں انجانے بیرونی خطروں سے بچانا اس وقت بھی ترجیح ہے جبکہ وہ حقیقی خطرے کی طغیانی میں غوطہ زن ہیں۔

کوئی تو حل ہو گا اس بوالعجبی کا؟