اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 ستمبر2022ء)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاتون جج کو دھمکیاں دینے سے متعلق
توہین عدالت کیس میں سابق وزیر اعظم
عمران خان کا جواب مسترد کر تے ہوئے ان پر 22ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔بدھ کو
عدالت عالیہ کے
چیف جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل پانچ رکنی لارجز بینچ نے
سماعت کی
۔سماعت کے دوران
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین
عمران خان اپنے وکیل حامد خان اور دیگر وکلاءکے ہمراہ
عدالت میں پیش ہوئے ۔
دوران سماعت
چیف جسٹس اسلام ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتے۔دوران سماعت
عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ
عدالت نے
سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کا حوالہ دیا، یہ
دانیال عزیز اور
طلال چوہدری کے عدالتی فیصلے تھے لیکن
عمران خان کا کیس ان دو عدالتی فیصلوں کے تحت نہیں آتا،
طلال چوہدری اور
دانیال عزیز کیسز
عمران خان کیس سے بہت مختلف ہیں۔
(جاری ہے)
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہے، اس میں آپ کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکتے،
توہین عدالت تین طرح کی ہوتی ہے جسے
فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا، ایک جوڈیشل
توہین عدالت اور ایک فوجداری
توہین عدالت، دانیال عزیز اور
طلال چوہدری کے خلاف کرمنل
توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کے خلاف
عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا، ان تین عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینے کا مقصد تھا، ایک سول
توہین عدالت ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا جواب تفصیلی پڑھا، فیصلے میں حوالہ
توہین عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا،
سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں،
سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کا مسرور احسن بنام اردشیر کائوس جی کیس دیکھیں، مسرور احسن بنام اردشیر کاوس جی کیس کا پیرا گراف نمبر 96 پڑھیں
۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے
عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ پہلے بھی کہا تھا عدلیہ کی آزادی اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے ۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے
عدالت کے کہنے پر
توہین عدالت کیس کا ایک فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ معافی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا
عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے
۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹیفائی نہیں، وضاحت کرنے کی کوشش کی، جس پر
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سابق
وزیراعظم لاعلمی کا عذر پیش کر سکتے ہیں؟ جرم انتہائی سنگین ہے جس کا احساس نہیں ہوا، ہم نے صرف قانون کو دیکھنا ہے۔
حامد خان نے کہا کہ ہمیں احساس ہے اس لیے جواب میں وہ باتیں لکھی ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا آپ خود ہی بتائیں کہ کیا آپ کا جواب
سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق درست ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ
عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ ضلعی اور اعلیٰ عدلیہ کا احترام کرتا ہوں،
عمران خان نے کہا کہ شہبازگل پر تشدد کی وجہ سے بیان دیا
۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے جواب میں مبینہ تشدد کا لفظ نہیں لکھا، کیا یہ فیصلے جلسوں میں ہوں گے یا عدالتیں کریں گی؟
عدالت کے گزشتہ حکم کے بعد بھی یہ جواب فائل کیا گیا، کیا آپ اس کیس کو لڑنا چاہتے ہیں؟دوران
سماعت چیف جسٹس
اسلام آباد ہائی
کورٹ نے کہا کہ 70 سال میں کچھ اچھا نہیں ہوا، یہ
عدالت اس بات سے بہت آگاہ ہے، آپ اپنے عمل کو جسٹیفائی کرنا چاہتے تو آپ کی مرضی، کیا اگر
سپریم کورٹ کے جج کے بارے یہ الفاظ ہوتے تو یہ جواب ہوتا؟ ضلعی عدلیہ کے ججز کی عزت
سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ جج جیسی ہے۔
جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ مجھے جواب کا پورا پیرا گراف پڑھنے دیں، اگر کسی جج کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو رنجیدہ ہوں۔جس پر
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ گزشتہ
سماعت پر باور کرانے کی کوشش کی کہ اس
عدالت میں سب کو عزت دی جاتی ہے اور دی جاتی رہے گی کسی جج کے جذبات نہیں ہوتے، جج کے بارے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی، وہ جج کہیں جار ہی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آسکتا ہے،
عدالت نے آپ کو طریقے سے سمجھا دیا ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ
عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ وہ عدلیہ اور خواتین کا احترام کرتے ہیں،
عدالت کویقین دلاتے ہیں عمران اور ان کے سپورٹرز خاتون جج سے متعلق کچھ نہیں کریں گے
،عمران خان نے گفتگو میں ایکشن کے ساتھ لیگل کا لفظ مس کر دیا تھا۔حامد خان کے مو¿قف پر جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیسے ایک سیاسی رہنما جلسے میں کسی جج کےخلاف ایکشن لینے کا کہہ سکتا ہے؟ جج کے خلاف کارروائی کے لیے ایک فورم ہے، عوامی
جلسہ وہ فورم نہیں، ایک لیڈر پبلک ریلی میں کیسے کہہ رہا ہے کہ جج کے خلاف لیگل ایکشن لیں گے؟ جج کے خلاف لیگل ایکشن لینے کا بھی طریقہ بتایا گیا ہے، اس کا طریقہ یہ نہیں کہ آپ عوامی مقام پرجلسے میں یہ باتیں کریں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ عوامی جلسے میں جو کچھ کہا گیا وہ آپ چاہیں تو ہم اسے یہاں چلا سکتے ہیں، سیاسی رہنما نے کوئی پشیمانی نہیں دکھائی، احتساب
عدالت کے باہر بھی وہی کچھ کہا جو ہم یہاں چلا سکتے ہیں،
عمران خان جواب میں مسلسل اپنے عمل کو جسٹیفائی کر رہے ہیں جو
دھمکی جیسا ہے، کیا جواب کہہ رہا ہے کہ
توہین عدالت کا فئیر ٹرائل دیا جائے؟ جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ
دھمکی آمیز تھے۔
دوران
سماعت حامد خان نے
عمران خان کے خلاف
توہین عدالت کیس کا حوالہ بھی دیا جس پر
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ فیصلہ آپ کے لیے اور زیادہ مہلک ہو گا، اس کیس میں
عمران خان نے کہا تھا کہ شرمناک کا لفظ ماتحت عدلیہ کے لیے استعمال کیا، اس فیصلے میں
سپریم کورٹ نے
عمران خان کو متنبہ کیا تھا۔جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ
عمران خان نے
پشاور جلسے میں آزاد عدلیہ کی بات کی، تمام پارٹی کارکنان کو منع کیا گیا تھا کہ خاتون جج سے متعلق کوئی سخت الفاظ نہ کہیں، جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ آپ کے موکل اپنے بیان کا کوئی جواز پیش کرنا چاہتے ہیں؟
عمران خان نے اپنے رویے سے بھی یہ نہیں ظاہر کیا کہ انہیں افسوس ہے، تقریر اور
توہین عدالت کیس کے بعد بھی تقریروں میں توجیہات پیش کی جاتی رہیں،
عمران خان کے حالیہ بیانات سے بھی لگتا ہے کہ انہیں کوئی پچھتاوا نہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ
عمران خان کا
توہین عدالت کیس میں ٹرائل چلایا جائے؟۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون سے لاعلمی کوئی ایکسکیوز نہیں، اگر آپ اپنے عمل کو جسٹیفائی کررہے ہیں تو مطلب عمل پر پچھتاوا نہیں، کسی جج کا نام لیے بغیر کی گئی توہین پربھی
سپریم کورٹ نے معافی تسلیم نہیں کی،
سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کے جج میں کوئی فرق نہیں ۔حامد خان نے کہا کہ
عمران خان پرسوں کی تقریر پر وضاحت کے لیے روسٹرم پر آنا چاہتے ہیں،
عمران خان کے مطابق پرسوں کی جس تقریر کا غلط حوالہ دیا گیا، جس پر
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ وہ تقریر یہاں چلا کر دیکھ لیں گے،
نہال ہاشمی کیس میں کسی جج کا نام نہیں تھا، معافی بھی مانگی گئی لیکن نہیں ملی، ضلعی عدلیہ کی جج کو دھمکی
سپریم کورٹ جج سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے، ہمارے بارے میں شرمناک کہہ دیتے تو کبھی
توہین عدالت کا نوٹس نہ کرتے۔
جسٹس بابر ستار نے
عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ ہماری
عدالت کسی کے خلاف حکم دے اور وہ باہر کھڑا ہو کر کہے کہ میں جج کو نہیں چھوڑوں گا، کیا یہ ٹھیک ہوگا؟ جو جواب داخل کیا گیا اس سے لگتا ہے کہ نتائج کا احساس نہیں
۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا بار بار سمجھا رہے ہیں سیاسی رہنما کی بہت ذمہ داری ہو تی ہے، مدینہ منورہ میں جو کچھ ہوا وہ بھی اشتعال دلانے کا نتیجہ تھا، آپ کو بار بار یہ چیز سمجھا رہے ہیں کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، ہمیں حضورﷺ کی ذات اور فتح
مکہ سے سیکھنا چاہیے تاکہ اشتعال پیدا نہ ہو، ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی وہ انتہائی نامناسب تھی۔
حامد خان نے کہا کہ
سپریم کورٹ نے 2014 میں
عمران خان کی وضاحت قبول کرتے ہوئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا، موجودہ
توہین عدالت اور 2014کے
عمران خان کے خلاف کیس ایک جیسے ہیں، ہائیکورٹ کو
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سامنے رکھ کر بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے،
سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں آرٹیکل 19 کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا، سیاستدان کئی مرتبہ نادانستہ کچھ الفاظ کہہ جاتے ہیں۔
جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ کیا آپ نے
عمران خان کو بتایا کہ تشدد سے متعلق میڈیکل رپورٹ نے تردید کی تھی؟ جبکہ
چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ یہ ہے کہ
شہباز گل والا مقدمہ
عدالت کی سامنے زیر
سماعت تھا۔جسٹس طارق جہانگیری نے مزید پوچھا کہ کیا
عمران خان کو بتایا گیا کہ میڈیکل بورڈ نے ٹارچرکی تصدیق نہیں کی؟ میڈیکل بورڈ میں انتہائی سینئر ڈاکٹرز شامل تھے ۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جوڈیشل آرڈر کی اہمیت ہے یا محض تاثر پر جائیں گے، آپ کی ساری لیگل ٹیم
عدالت میں موجود تھی۔حامد خان نے کہا کہ میں اس طرف نہیں جا رہا بلکہ کیس ختم کرنے کی بات کر رہا ہوں، میرے موکل کو یہ تاثر تھا کہ
شہباز گل پر تشدد ہوا ہے،
میرا موکل جج صاحبہ کو ہر گز ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا اسی لیے انہیں پچھتاوا ہے،
عمران خان خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، تاثر یہ ہے کہ شاید خواتین کے خلاف نفرت کا مسئلہ ہے۔
جسٹس بابر ستار نے حامد خان سے استفسار کیا کہ کس نے یہ تاثر پیدا کیا؟
۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا کسی لیڈر نے
سوشل میڈیا پر اپنے فالورز کو منع کیا؟
سوشل میڈیا جھوٹے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، عدلیہ نشانہ ہے،
سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے ذمہ دار سیاسی جماعتوں کے لیڈر ہیں، کیا کسی لیڈر نے کہا کہ
سوشل میڈیا کا غلط استعمال نہ کریں؟۔
جسٹس بابر ستار نے
عمران خان کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ اپنے جواب کا پیرا گراف چار پڑھیں، وہاں لکھا ہے
عمران خان کو پتہ تھا آرڈر چیلنج ہونا ہے، کیا پھر یہ جان بوجھ کر اپیل پر پیشگی اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں؟حامد خان نے کہا کہ
عمران خان کو معلوم نہیں تھا کہ اپیل ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے، یہ معلوم تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر ہو سکتی ہے، جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا تو مطلب وہ اپیل دائر ہونےکی صورت میں کیس پر اثر انداز ہونا چاہ رہے تھے؟۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جواب میں کہا گیا کہ تاثر تھا انسان سے غلطی ہو جاتی ہے،
دانیال عزیز اور
طلال چوہدری کے کیس سے پہلے متعدد تقاریر کی گئی تھیں۔عدالتی معاون منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ ملزم پر الزام ہے کہ خاتون سیشن جج کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی گئی، یہ بھی الزام ہےکہ زیر التوا مقدمے پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی، جوڈیشل اور کرمنل
توہین عدالت کا الزام عائد کیا گیا، ہم اس وقت شوکاز کے مرحلے پر ہیں ، عوام میں عدلیہ کا اعتماد غیر جانبداری اور منصفانہ فیصلوں سے قائم ہوتا ہے۔
منیر اے ملک کی جانب سے
مرزا اسلم بیگ کے خلاف
توہین عدالت کیس کی مثال دی گئی اور کہا گیا کہ اسلم بیگ کیس میں معافی نہیں مانگی گئی تھی، اسلم بیگ کیس میں گہرے پچھتاوے کاذکر کیا گیا تھا، الفاظ افسوس ناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں،
عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے میں انہیں کہتا ہوں آئندہ ایسا نہ کریں،
عدالت سے درخواست ہے اس موقع پر
توہین عدالت سے درگزر کرے، آج کی کارروائی یہ پیغام دے گی کہ ایسی ذبان آئندہ برداشت نہیں ہوگی،
عدالت کوجوپیغام دیناتھادےدیا،اب تحمل دکھاناچاہیے۔
جسٹس بابرستار کا کہنا تھا کہ منیر اے ملک صاحب یہ تاثر نہیں جائےگاکہ بااثرلوگوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور جو لوگ با اثر نہیں ہوتے انہیں سزا دے دی جاتی ہے۔دوسرے عدالتی معاون مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ
توہین عدالت کا قانون ججز کی حفاظت کے لیے نہیں،
توہین عدالت کا قانون انصاف میں خلل ڈالنے سے متعلق ہے، عوامی مفاد آزادی اظہار رائے میں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ سابق
امریکی صدر
ٹرمپ کا
ٹوئٹر اکاو¿نٹ معطل کردیا گیا تھا؟ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ وہ
توہین عدالت پر نہیں تھا،کانگریس کی توہین سے متعلق بات پر شاید معطل ہوا۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ مفاد عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے تو اظہار رائےکی آزادی میں بھی ہے، امریکا میں صدر نے عدالتی فیصلے کو بدترین کہا تھا ، وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا اور دوسرا راستہ نکالا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ امریکا میں ہی مگر
ڈونلڈ ٹرمپ کا
ٹوئٹر اکاو¿نٹ معطل ہوا تھا،
ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاو¿نٹ اشتعال دلانے پر معطل ہوا تھا، لیڈر کا رول معاشرے میں اہم ہے جو معاشرے کو بدل سکتا ہے۔عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ معاملہ سیاسی مقدمات کاہو تو عدالتی فیصلے سے ایک پارٹی خوش اور دوسری ناراض ہوتی ہے، کوئی سیاسی رہنما زیرسماعت مقدمے پرکچھ بھی کہے،
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پرکوئی اثرنہیں ہوگا، بےنظیربھٹوکیس میں اس وقت وہ بھی سابق
وزیراعظم تھیں،
سپریم کورٹ نے معاملہ ختم کردیا تھا، محترمہ بےنظیر کو وزارت عظمٰی سے ہٹا دیا گیا اور مقدمات چل رہے تھے،
سپریم کورٹ نے کہا سیاسی حالات کو مد نظر رکھنا ہوگا،کیا سیاسی رہنما کو کارنرڈ کردیا گیا ؟اس موقع پر دوسرے عدالتی معاون مخدوم علی خان نےبھی
عمران خان پر
توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنےکی رائے دے دی۔
جسٹس بابرستار کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں ایک سیاسی رہنما کاکیس سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے، توپھر ہر شخص کے مساوی ہونے کا اصول کدھر جائےگا
۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ کیاعمران خان کی جانب سے داخل جوابات اطمینان بخش ہیں؟ اسی پارٹی کے دیگر لیڈرز نے اس
کورٹ کے خلاف باتیں کیں، ہمیں ان چیزوں سے فرق نہیں پڑتا، ہمارے بارے میں کچھ کہا جاتا ، ہم اس کا بالکل نوٹس نہ لیتے، اس بات پر ہم منیر ملک اور آپ سے بالکل متفق ہیں ، یہاں انصاف کی فراہمی سے ضلعی عدلیہ کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس اطہر نے کہا کہ پروسیڈنگ کے کسی مرحلے پرغیر مشروط معافی مانگی جائے تو
عدالت غور کرسکتی ہے
۔عمران خان نے کہا کہ
عدالت نے جو سوال پوچھے، مجھے اپنا مو¿قف دینا تھا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عملے کو ہدایت دی کہ
عمران خان سے بیان حلفی پر انڈر ٹیکنگ لی جائے۔دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتی کارروائی میں 5 منٹ کا وقفہ کردیا گیا اور کیس کی کارروائی آگے بڑھانے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
عدالت کے اٹھتے ہی
عمران خان بھی کھڑے ہوگئے اور کہا کہ جسٹس صاحب ،میں کچھ کہہ سکتا ہوں؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹھتے ہوئے جواب دیا کہ ہم نے آپ کے
وکلا کو سن لیا ہے۔وقفے کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم عدالتی معاونین کے مشکور ہیں ، دو ہفتے بعد 22 ستمبر کو
عمران خان پر فرد جرم عائد کی جائےگی،
عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں ہے
۔عمران خان کے خلاف
توہین عدالت کیس کی
سماعت کے موقع پرعدالت کے گرد سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر دو ایس پیز سمیت 778 افسران اور اہلکار تعینات کیے گئے۔