Live Updates

خواتین کا مخصوص سے جنرل نشستوں تک کا سفر کھٹن کیوں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 25 جنوری 2024 20:20

خواتین کا مخصوص سے جنرل نشستوں تک کا سفر کھٹن کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2024ء) پاکستان میں خواتین زیادہ تر صرف مخصوص نشستوں پر ہی ایوان میں آتی رہی ہیں اور یہ انتخاب واضح کرتا ہے کہ ان خواتین کو کسی نہ کسی سیاسی وابستگی کی وجہ سے ایوان میں آنے کا راستہ ملتا ہے۔ انتخابات میں ووٹ کے ذریعے اپنا نمائندہ چنتے ہوئے، جب خواتین کی بات آتی ہے تو انہیں مخصوص نشستوں کی کینڈی سے بہلایا جاتا ہے۔

سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہر شعبے میں خواتین کے لیے مخصوص ڈبے بنا کر انہیں ان تک محدود کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں پہلی اور ایشیا میں دوسری خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے باوجود آج بھی خواتین کو خود کو منوانے کے لیے بہت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

(جاری ہے)

موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو پیپلز پارٹی پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے اور وہاں سے جنرل سیٹس پر صرف دو عورتیں اور مسلم لیگ ن میں جنرل نشستوں پر پانچ عورتیں الیکشن لڑ رہی ہیں، جن میں مریم نواز بھی ہیں۔

ماضی کے انتخابات پر نظر دوڑائیں تو 1988ء میں 16 خواتین نے عام نشستوں پر الیکشن لڑا اور صرف 3 کامیاب ہوئیں۔ 1990ء میں 12 خواتین میں سے 2، 1993ء میں 14 میں سے 4 اور 2002ء میں پاکستان کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی 6.21 فیصد ہوئی اور ان میں 13 خواتین عام نشستوں کے ذریعے منتخب ہو کر اسمبلی پہنچیں۔ 2008ء میں ملک بھر سے 64 خواتین نے عام نشستوں پر انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیابی صرف 16 خواتین کو ملی۔

لیکن 2013ء میں 135 خواتین میں سے صرف 5 کامیاب ہو پائیں۔

2017ء میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے سیاسی جماعتوں کو 5 فیصد ٹکٹیں خواتین نمائندوں کو دینے کا پابند بنایا گیا۔ مگر اس پر عمل درآمد کے لیے 2024ء کے انتخابات کے لیے بھی الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کو خطوط لکھ کر یاد دہانی کروانی پڑ رہی ہے۔

مرتضی سولنگی، فیڈرل انفارمیشن منسٹر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی سیاست سمیت عوامی زندگی میں خواتین کی شرکت کو دبانے میں پدرشاہی کا کلچر سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ’’جیسے جیسے آپ سماجی سیڑھی سے نیچے جاتے ہیں، خواتین کے لیے یہ مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔

آپ سماجی سیڑھی سے جتنا اوپر جائیں گے، اتنی زیادہ خواتین آپ کو عوامی زندگی میں شامل ہونے کی خواہشمند نظر آئیں گی۔جب تک پدر شاہی اور بدانتظامی کا کلچر مضبوط رہے گا، خواتین کے لیے جنرل نشستوں پر انتخاب لڑنا مشکل ہوتا جائے گا۔‘‘

فافن (فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک) کی 2 فروری 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی 57 فیصد خواتین صرف 6 بڑے شہروں اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کی رہائشی ہیں۔

سندھ اسمبلی میں 66 فیصد کراچی سے، پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین میں سے 59 فیصد کا تعلق لاہور اور خیبر پختونخوا میں 50 فیصد کا تعلق پشاور سے ہے جبکہ بلوچستان اسمبلی میں 73 فیصد کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ مخصوص نشستوں پر اسمبلی تک پہنچنے والی ان تمام خواتین کا تعلق سیاسی اثرورسوخ والے خاندانوں سے رہا ہے۔

فافن رپورٹ کے مطابق ملک کے 136 اضلاع میں سے 105 اضلاع ایسے ہیں، جن میں سے مخصوص نشستوں پر ایک بھی خاتون رکن قومی اسمبلی نہیں بنی۔

پنجاب کے 23، بلوچستان کے 32، خیبر پختونخوا کے 30 اور سندھ کے 20 اضلاع میں سے قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر خواتین کی نمائندگی نہیں ہے۔

گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2022ء میں خواتین کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کی درجہ بندی میں پاکستان 153 ممالک میں 93 نمبر پر رہا۔ ورلڈ اکنامک فورم کا جینڈر گیپ انڈکس 2023ء بتاتا ہے کہ پاکستان دنیا کے 146 ممالک کی فہرست میں سے 142ویں نمبر پر ہے، جہاں برابری کی شرح 57.5 فیصد ہے۔

جبکہ بنگلہ دیش 72.2 فیصد کے ساتھ اس فہرست میں 59ویں اور بھارت 64.3 فیصد کے ساتھ127ویں نمبر پر آتا ہے۔

قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق قیام پاکستان کے 55 سال کی اب تک کی منتخب 11 اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی ہے ۔

آخری عوامی منتخب قومی اسمبلی 2018ء میں خواتین کی 60 مخصوص نشستوں میں سے تحریک انصاف کو 28، مسلم لیگ (ن)کو 16، پیپلز پارٹی کو 9 اور متحدہ مجلس عمل کو 2 نشستیں ملیں۔

گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، ایم کیو ایم پاکستان، ق لیگ، بی اے پی، بی این پی کے حصے میں خواتین کی ایک ایک مخصوص نشست آئی تھی۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر وزیراعظم شہباز شریف کی 37 رکنی اراکین پر مشتمل مخلوط کابینہ کی تشکیل میں خواتین کی تعداد صرف 5 رکھی گئی تھی۔ یہ خواتین بھی گہری سیاسی وابستگیوں کی بنا پر ہی کابینہ کا حصہ بنیں، جن میں مریم اورنگزیب، حنا ربانی کھر، شازیہ مری، عائشہ غوث پاشا اور شیری رحمان شامل تھیں۔

ان میں سے 3 وفاقی وزرا اور 2 وزرائے مملکت رہیں۔

25 کڑور کی آبادی کے اس ملک میں اگر جنرل سیٹوں پر ہماری سیاسی جماعتیں 2.0 فیصد بھی خواتین کو نہیں دے رہیں تو یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں شاید آج بھی عورتوں کی نمائندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور نا ہی خواتین کو فیصلہ سازی کے مرحلے میں شامل کرنا چاہتی ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Live مریم نواز سے متعلق تازہ ترین معلومات