کون آصف علی زرداری

DW ڈی ڈبلیو اتوار 10 مارچ 2024 16:20

کون آصف علی زرداری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2024ء) پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری دوسری مرتبہصدر منتخب ہو گئے ہیں۔ گزشتہ روز صدر کا انتخاب ہوا جس میں حکمران اتحاد کے نامزد امیدوار آصف علی زرداری نے 411 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جب کہ ان کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود خان اچکزئی نے 181 ووٹ لیے۔اس سے قبل زدارری سن 2008 سے 2013 تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔

بھٹو ریفرنس: سپریم کورٹ کی رائے تنقید کی زد میں

پاکستان میں نو منتخب قومی اسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھا لیا

ابتدائی زندگی

آصف علی زرداری کراچی میں پیدا پوئےا۔ ان کے والد حاکم علی زرداری سندھ میں بسنے والے بلوچ قبیلے کے سربراہ تھے۔انہوں نے کراچی ہی میں سینٹ پیٹرک اسکول سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں کیڈٹ کالج پٹارو سے بھی فارغ التحصیل ہوئے۔

(جاری ہے)

بینظیر بھٹو سے شادی

شادی سے قبل ہی آصف زرداری نے عملی سیاست میں قدم رکھا دیا تھا۔ انہوں نے 1985 میں غیر جماعتی انتخاب میں حصہ لیا مگر ناکام رہے۔ آصف زرداری کا نام پہلی بار اس وقت خبروں کی زینت بنا جب خبر آئی کہ بینظیر بھٹو جلد ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجائیں گی۔ 18 دسمبر 1987 میں آصف علی زرداری کی بینظیر بھٹو سے شادی ہوئی، جس کے بعد آصف زرداری کو سیاسی طور پربھی بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔

کرپشن اور دیگر مقدمات

نوے کی دہائی میں آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات تواتر سے لگتے رہے جب کہ انہوں نے مجموعی طور پر چودہ برس جیل میں گزارے۔ پیپلز پارٹی کرپشن کے ان الزامات کو ملک کے طاقت ور خفیہ اداروں کی جانب سے زرداری کو بدنام کر کے پیپلز پارٹی کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش قرار دیتی رہی ہے۔

سابق صدر آصف زرداری نے کم وبیش 14 سال جیلوں میں گزارے ہیں، 1993 میں آصف علی زرداری کی جیل سے رہائی کے کچھ عرصہ بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔

4 نومبر 1996 کو آصف علی زرداری کو پھر گرفتار کیا گیا۔

ان کی آخری قید کی سزا 2004 تک تقریباﹰ آٹھ سال تک جاری رہی۔ زرداری کے مطابق اس دوران انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔اس قید کا اختتام اس وقت ہوا جب اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف ملک میں سیاسی مفاہمت کے لیے قومی مفاہمی آرڈیننس (این آر او) کی منظوری دی۔

جیل سے اقتدارکے ایوانوں تک

1993 میں جب اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو آصف زرداری کو جیل سے سیدھا ایوان صدر لے جایا گیا جہاں انہوں نے عبوری حکومت میں وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

بعد ازاں جب 1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تو آصف علی زرداری اپنی اہلیہ کے ہمراہ اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس چلے گئے جہاں وہ اگلے تین سال رہے ۔ 1996 میں جب ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

بینظیر کی موت

سن دو ہزار سات میں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں ایک دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہو گئیں اور اس کے بعد ہونے والے عالم انتخابات میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گئی۔

ایسے میں سن دو ہزار آٹھ میں آصف علی زرداری ملکی صدر کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔

صدراتی دورکے چیلنجز

صدر زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت، پاکستانی تاریخ کی وہ پہلی حکومت تھی، جس نے پانچ سال کی آئینی مدت مکمل کی۔ اس دوران ملک میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تمام انتظامی اختیارات صدر کے عہدے سے وزیراعظم کے عہدے میں منتقل کیا گئے جب کہ ملکی پارلیمان کو دستوری طور پر مضبوط بنایا گیا۔

صدارت کے دوران آصف زرداری کے سامنے کمزور مینڈیٹ، عسکریت پسندی کے خطرات ،امریکہ سے کشیدہ تعلقات ، فوج کےساتھ تناؤ، وکلا تحریک اور سیلاب کی تباہ کاریوں جیسے بڑے چیلنجز کھڑے رہے۔

اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں اتارچڑھاؤ

مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو امریکی اسپیشل فورسز نے ایک آپریشن کرکے ہلاک کردیا۔

اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پیپلزپارٹی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی واضح طور پر دیکھی گئی۔

نومبر 2011 میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے استعفے سے انہیں ایک اور دھچکا لگا۔ حقانی اور صدر زرداری دونوں پر ایک متنازعہ میمو کا مسودہ تیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، جس میں پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کی صورت میں امریکی مدد طلب کی گئی تھی۔

تاہم حسین حقانی اور آصف زرداری اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔

اب دوسری مدت کے لیے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد آصف زرداری کا سب سے بڑا چیلنج ملک میں سیاسی پولرائزیشن کا خاتمہ اور سول اور ملٹری ریلشن شپ کو بہتربنانا ہو گا۔ مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت کے ساتھ ایوان صدر کے تعلقات خوشگوار ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تاہم سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، مسلم لیگ ن کے لیے اپنے سب سے بڑے اور پرانے سیاسی حریف کو ووٹ دے کر ایوان صدر میں لانا ایک بڑی سیاسی پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔