لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 فروری2025ء) پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایک مرتبہ پھر تلخ جملوں اور عدم دلچسپی کی نذر ہو گیا، محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر کی جانب سے پارلیمانی سیکرٹری رشدہ لودھی ایوان کو تسلی بخش جواب نہ دینے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنیں،حکومتی رکن امجد علی جاوید نے کہا کہ اجلاس عوام کیلئے اصول طے کرتا ہے اگر محکمہ غلط جواب دے تو پارلیمانی سیکرٹری کو جواب محکمہ کے منہ پر مارنا چاہئے، پینل آف چیئر مین سمیع اللہ خان نے اپنی رولنگ میں کہا کہ نشہ کے عادی کے افراد کے لئے قانون سازی ہونی چاہیے ،اس حوالے سے آئندہ اجلاس میں مکمل رپورٹ بھی پیش کی جائے ، رکن اسمبلی احسن ضیا کا کہنا تھا کہ رنگے والہ گائوں میں دو دن سے لائٹ بند ہے، آپ اندازہ لگائیں بل دو بندے نہیں دے رہے سزا پورے گائوں کو دی جا رہی ہے،پینل آف چیئرپرسن نے صوبائی وزیر کو واپڈا حکام کو ہائوس بلا کر بریف کرنے کا حکم دے دیا۔
(جاری ہے)
پنجاب اسمبلی کا اجلاس 2گھنٹے 16منٹ کی تاخیر سے پینل آف چیئر مین سمیع اللہ خان کی صدارت میں شروع ہوا۔ حکومت اور اپوزیشن کا ایوان کی کارروائی میں دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ اجلاس کے آغاز میں اپوزیشن کے 9اور حکومتی 11ارکان موجود تھے اور کوئی بھی وزیر ایوان میں موجود نہ تھا۔ اپوزیشن ارکان دوسرے روز بھی شدیداحتجاج اور نعرے بازی کرکے ایوان میں آگئے۔
پینل آف چیئر مین سمیر اللہ خان نے اپنی رولنگ میں کہا کہ ہمیں کسی کی حب الوطنی پر انگلی نہیں اٹھانی لیکن ایوان میں ترانے بھی سننا چاہئے۔اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچرنے پنجاب اسمبلی میں حکومتی وزرء ااور ارکان کی غیر سنجیدگی پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ غیر سنجیدگی کیوں دکھائی جا رہی ہے اتنے پیسے لگانے کے باوجود ارکان اسمبلی ایوان میں موجود ہی نہیں۔
اجلاس میں میجر حمزہ اسرار شہید کی شہادت سمیت دیگر انتقال کر جانے والوں کے لئے دعائے مغفرت کرائی گئی۔پینل آف چیئرپرسن سمیع اللہ خان نے پنجاب انجینئرنگ اکیڈمی کے انجینئرز اور سینیٹر رانا محمود حسن کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں میں آمد پر خوش آمدیدکہا۔ ایوان میں محکمہ سپیشلائز ہیلتھ کے بارے میں وقفہ سوالات کے دوران حکومتی رکن اسمبلی رخسانی کوثر کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری برائے ہیلتھ کیئر رشدہ لودھی نے کہا کہ فٹ پاتھ پر پڑے لوگ منشیات کے عادی ہمارا قومی اثاثہ ہیں،رخسانہ کوثر کا کہنا تھا کہ نشہ کے عادی نوجوان نسل سڑکوں پر بے یارو مدد گار پڑے ہیں منشیات فروشی کو روکا جائے، نشہ کے ایک سو پندرہ مریضوں کے بجائے ان تمام مریضوں کا بھی علاج ہو جن کا کوئی والی وارث نہیں ۔
پینل آف چیئر مین سمیع اللہ خان نے اپنی رولنگ میں کہا کہ نشہ کے عادی کے افراد کے لئے قانون سازی ہونی چاہیے ،اس حوالے سے آئندہ اجلاس میں مکمل رپورٹ بھی پیش کی جائے ۔پارلیمانی سیکرٹری برائے سپیشلائز ہیلتھ رشدہ لودھی نے ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ محکمہ سپیشلائزہیلتھ منشیات کے عادی افراد کو سڑکوں سے اٹھاکر سرکاری ہسپتالوں میں علاج کا طریقہ کار وضع کرے گا اور کوشش کریں گے کہ ان کاعلاج کیاجائے۔
ایوان میں محکمہ سپیشلائزہیلتھ کے بارے میں پارلیمانی سیکرٹری ممبران کی جانب سے کئے گئے سوالوں کے تسلی بخش جوابات نہیں دے سکیں، ممبران کا کہنا تھا کہ یہ غلطی محکمہ کی ہے کہ انہوں نے پارلیمانی سیکرٹری کو صحیح معلومات فراہم نہیں کیں ،ایک روائتی جواب تک ہی محدود رکھا، محکمہ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں بائی پاس آپریشن اور انجیوپلاسٹی سے متعلق جوابات پر حکومتی رکن احمد احسن اقبال اور راجہ شوکت بھٹی کے اعتراضات پر بھی پارلیمانی سیکرٹری رشدہ لودھی مطمئن جوابات نہ دے سکیں، پینل آف چیئر مین سمیع اللہ خان نے پارلیمانی سیکرٹری سے پوچھا کہ سال2024ختم ہوگیا ہے لیکن ابھی تک پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی ایکٹ 2024کا بل پاس کیوں نہ ہوا جس کا پارلیمانی سیکرٹری کے پاس کوئی جواب نہ تھا، پارلیمانی سیکرٹری کا کہنا تھا کہ پنجاب بھر میں گردوں سمیت کسی قسم کے ہیومن آرگن کی غیر قانونی خرید و فروخت نہیں ہوتی ، ایسا کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے،یہ درست نہیں ہے کہ صوبہ بھر میں پرائیویٹ ہسپتال گردوں کی تبدیلی کے آپریشن کے موقع پر گردوں کی خریدو فروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔
ایوان میں حکومتی رکن امجد علی جاوید اور پارلیمانی سیکرٹری برائے ہیلتھ کیئر رشدہ لودھی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا،امجد علی جاوید کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس عوام کے لئے اصول طے کرتا ہے اگر محکمہ غلط جواب دے تو پارلیمانی سیکرٹری کو جواب محکمہ کے منہ پر مارنا چاہئے، لوگ لمبی لائنوں کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں نہیں آتے اور پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور محکمہ کہہ رہا ہے کہ پنجاب میں دل کے مریض کم ہو گئے ، لائنوں کی وجہ سے اگر مریض ہسپتالوں سے واپس چلے جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ کم ہو گئے ہیں، بتایا جائے فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ کارڈیالوجی میں کتنے مریضوں کا علاج کیا گیا اور کتنے سرجن خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، ایوان میں مکمل تیارہوکر آناچاہیے۔
اگر جواب موجود نہیں تو ہائوس کا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔حکومتی رکن امجد علی جاوید نے کہا کہ محکمہ صحت کے متعلق سوالات کے جوابات کے لئے سیکرٹری یا سپیشل سیکرٹری ایوان میں موجود نہیں ہے ،پارلیمانی سیکرٹری کو اپنے محکمہ کی پالیسیوں کا پتہ ہونا چاہیے، ان لوگوں جا محاسبہ کریں جنہوں نے رشدہ لودھی کی تیاری کیوں نہیں کروائی، اس معاملہ کو استحقاق کمیٹی کو بھیجا جائے۔
پارلیمانی سیکرٹری رشدہ لودھی نے کہا کہ وزیر اعلی مریم نواز فیصل آباد کا دورہ کررہی ہیں ، سیکرٹری و سپیشل سیکرٹری ان کے ساتھ موجود ہیں۔اپوزیشن رکن بریگیڈیر مشتاق نے بھی محکمہ صحت کے جواب پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس سات لوگوں کی لسٹ ہے جن کو دل کے آپریشن کا وقت نہیں دیا جارہا،محکمہ صحت کہہ رہا ہے کہ پنجاب میں مریضوں کی تعداد کم ہوگئی ہے جو افسوسناک ہے۔
ایوان میں پری بجٹ پر بحث کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہاتاہم حکومتی و اپوزیشن ارکان کی قبل از وقت بجٹ بحث میں عدم دلچسپی نظر آئی ۔ قبل از وقت بجٹ بحث کے دوران ایوان میں اپوزیشن کے 4ارکان اور حکومت کے صرف 11ارکان موجود تھے جبکہ وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن بھی ایوان سے غائب رہے ۔،اپوزیشن رکن اعجاز شفیع نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں تعلیم کو اپ گریڈ کیاجاتا ہے لیکن پاکستان میں پرائمری اور مڈل کلاس کو پرائیویٹائز کردیا گیا ہے، جب غریب کے بچوں کو تعلیم نہیں ملے گی تو پھر ترقی کیسے کرے گا، ایک پورا مافیا ہے جس کا پردہ جلد فاش کریں گے جن لوگوں کو یہ سکول دئیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نوازشریف کینسر ہسپتال بنارہے ہیں جنوبی پنجاب میں تو کوئی کینسر ہسپتال نہیں ہے، جنوبی پنجاب بہاولپور ڈی جی خان یا ملتان میں کینسر ہسپتال بنائیں وہاں کے لوگ علاج کیلئے لاہور آتے ہیں، آئی ٹی سنٹر کا بھی نام نوازشریف رکھ لیاآپ قبرستانوں کانام بھی نوازشریف پر رکھ لیں، گنے اور گندم کی قیمتوں کا تعین کریں کسان بے حال ہے۔
حکومتی رکن امجد علی جاوید نے ایوان میں گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ہونہار سکالر شپ، لیپ ٹاپ سکیم، سکول کونسلز امپاورمنٹ جیسے مزید اچھے پروگرام ہے لیکن سوال ہے کہ پرانے نظام کو تو نظر انداز نہیں کررہے، سکولوں میں مسنگ فیسلٹی پہلی ترجیحات میں ہوتی رہی اب تو اس پر کوئی نظر ہی نہیں ڈالتا، وہ سکول جہاں چار دیواری نہیں ٹوئلٹس پینے کا پانی نہیں ہے تو بجٹ میں شامل کریں، سکول نہ جانے والے بچوں میں زیادہ تعداد پنجاب کے بچوں کی ہے، بھٹہ مزدوروں کے بچے جو چائلڈ لیبر اور آئوٹ آف سکول تھے پچانوے ہزار بچہ بھٹہ پر بنائے سکولوں میں رجسٹرڈ تھا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے مزدوروں کے بچوں کے سکول بند کردئیے اور دو ہزار روپے بھی بند کر دئیے، اگر آئوٹ آف سکول بچوں کی تعداد بڑھانی ہے تو بھٹہ کے بچوں کے سکولوں میں دوبارہ داخل کروائیں، سکولوں بجلی کے بل کے پیسے پورے نہیں دئیے جاتے کم از کم محکمہ نظر رکھے، مفت کتابیں فراہم کرنا حکومت کا کام ہے لیکن محکمہ تعلیم سکول 95فیصد اردو سکول تو کتابیں انگلش دی جاتی ہیں، بچے و والدین مجبور ہوتے ہیں تو انگلش کتابیں اٹھا کر پبلشرز مافیا کی مہنگی کتابیں خریدتے ہیں، پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیاں کی فیس دو دو لاکھ روپے ہے اس فیس کو کم کیاجائے، کالجز میں کمپوٹر ایجوکیشن کی بات تو کی جاتی ہے اس پر آنکھیں کھولنی ہے دو ہزار طلبہ کے لئے سات آٹھ کمپیوٹر ہوتے ہیں اس پر توجہ دیں،ہر ضلع میں خواہ جنوبی پنجاب یا اپر پنجاب ہر ضلع میں یونیورسٹی بنائی جائے۔
امجد علی جاوید نے کہا کہ مسائل کا ایک انبار ہے، کہاں کہاں بات کی جائے، ہمیں زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دیکھنا ہو گا کہ نئے انشیٹیو سے پرانے خراب تو نہیں ہو رہے۔رکن اسمبلی فیصل جمیل نے کہا کہ ہمارے خانپور سے ضلع کی حیثیت چھین لی گئی، اس کی وجہ سے پورے خانپور میں ایک ہسپتال موجود ہے، خانپور میں چند ہی سکول موجود تھے جن کو پرائیویٹ کر دیا گیا، بجائے اس کے کہ نئے سکول بنائے جاتے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کی تربیت کی جانی چاہیے ،ان کو قانون پڑھایا جانا چاہیے ۔ پری بجٹ پربات کرتے ہوئے کرنل شعیب نے کہا کہ حکومت کا صاف ستھرا پنجاب اچھا پراجیکٹ ہے ،ساتھ ستھرا پنجاب پراجیکٹ میں جب تک سٹیک ہولڈرز کو شامل نہیں کیا جائے گا پراجیکٹ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔لیہ ڈسٹرکٹ میں ڈی ایچ کیو میں دوائیوں کی شدید کمی ہے اس کو پورا کیا جائے ۔
رکن اسمبلی قاضی احمد سعید نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈسٹرکٹ رحیم یار خان کو تقسیم کریں لیاقت پور کو ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا جائے ، خان بیلا تحصیل کے درجے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کو بھی اگنور کیا گیا ہے ۔ خان بیلا کو تحصیل کا درجہ دیا جائے تو علاقے میں ترقی ہو گی۔ پچھلی حکومتوں نے جو حلقوں کا حشر نشر کیا ہے ان کو ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔
پکا لاڑا میں بوائز اور گرلز ڈگری کالج بنایا جائے۔نواں کورٹ میں ار ایچ سی کو ٹی ایچ کیو کا درجہ دے دین تو علاقے کے لوگوں کو صحت کی سہولیات میسر ا سکیں گی۔رکن اسمبلی حسن بٹر نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالات بہت مخدوش ہو چکے ہیں، کہا گیا تھا کہ گجرانوالہ کو فنڈز دئیے جائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں، ہم ماحولیاتی تبدیلی کی بات کرتے ہیں مگر ہم یورپ نہیں ہیں، ابھی تک زگ زیگ ٹیکنالوجی پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
فرزانہ کنول نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسان کی معاشی بدحالی کی وجہ مزدور اور تاجر طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے،بجلی کی قیمتوں کو کم کیا جائے اور کسان کو سہولیات دی جائیں۔ہمارے علاقے میں بڑی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، تحصیل حاصل پور کو ضلع کا درجہ دیا جائے ۔ستار عبد العزیز دریشک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ایسے علاقے ہیں جو باقی علاقوں کی طرح ترقی یافتہ نہیں ہے ، ایک کمیٹی تشکیل دی جائے کو ایسے علاقوں کے مسائل پر فوکس کرے ، وزیر خزانہ سے درخواست ہے ہمارے ڈیمانڈ پر غور کریں ۔
راجن پور پسماندہ ترین اضلاع کی فہرست میں آتا ہے، بعض ایسی تحصیلیں ہیں جہاں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ، آلودہ پانی کی وجہ سے ان تحصیلوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ہمارے علاقے میں ایجوکیشن کی کمی ہے ،ان علاقوں کے بچوں کی ملازمت کے علیحدہ سے کوٹہ مقرر کیا جائے ۔ستار عبد العزیز دریشک نے کہا کہ ہمارا نہری پانی ششماہی ہے ہمارے علاقے میں پانی کو سالانہ کیا جائے ،ہمارے علاقے میں مدر اینڈ چائلڈ اسپتال منظور ہوا تھا جس پر کام نہیں ہوا ،راجن پور میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔
صلاح الدین کھوسہ نے کہا کہ ستھرا پنجاب بھی ایک بہت اچھا پراجیکٹ ہے اس کو سراہنا چاہیے ،کشمور سے ڈی آئی جان تک ایک روڈ دو رویہ ہونی تھی جو حلقے کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو گی،سی آر بی سی کینال کا آدھا حصہ ڈی آئی خان کو سیراب کرتا ہے، مگر ڈی آئی خان پنجاب کو اس کا پانی نہیں دیتا، میری گزارش ہے کہ اس اہم مسئلہ کو حل کیا جائے۔میجر ریٹائرڈ اقبال خٹک نے کہا کہ حکومت کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ لوگوں کے پینے کا پانی دیا جائے،سڑکوں کے لئے جو فنڈز رکھے گئے ہیں، وہ لگ نہیں رہے،حکومت سے گزارش ہے کہ اگر سڑک نہیں بنانی تو اس ڈالی بجری اٹھا دیں، اس کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہو رہے ہیں۔
مولانا الیاس چنیوٹی نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے دور میں شہباز شریف نے چنیوٹ میں سٹیل مل کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔لیکن پچھلی حکومت کے پانچ سال اور اس حکومت میں ایک سال یعنی چھ سال میں اس منصوبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔چنیوٹ سے سرگودھا تک ڈبل روڈ بنایا جائے۔چنیوٹ میں میڈیکل کالج کی ضرورت ہے۔خضر مزاری نے کہا کہ ضلع راجن پور کی آبادی 23لاکھ ہیں جہاں ایک بھی یونیورسٹی موجود نہیں،میرا علاقہ خاصہ غریب ہے جو تعلیم حاصل کرنے نہیں جا سکتے، وزیراعلی کے دل کے بہت قریب ہے بچوں کو تعلیم دینا، میری التجا ہے کہ راجن پور میں یونیورسٹی بنائی جائے۔
حسن بٹر نے کہا کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی کی بات کرتے ہیں مگر ہم یورپ نہیں ہیں، ابھی تک زگ زیگ ٹیکنالوجی پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔رکن اسمبلی نادیہ کھر نے کہا کہ ایک سال میں کوٹ ادو میں ایک دن بھی صفائی نہیں کی گئی،جو پانی آتا ہے وہ زہریلا ہو چکا ہے، لوگوں کے گھروں کے آگے گندے نالے ہیں، کوٹ ادھو میں دوائیں موجود نہیں ہیں، پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو محکم ہیلتھ میں ضم کیا جا رہا ہے،محکمہ صحت تو پہلے ہی سارے مسائل کا حل نہیں کر پاتا۔
رکن اسمبلی احسن ضیا کا کہنا تھا کہ رنگے والہ گائوں میں دو دن سے لائٹ بند ہے، میں نے پوچھا تو ایکسین نے کہا دو چار بندے بل نہیں دیتے، آپ اندازہ لگائیں بل دو بندے نہیں دے رہے سزا پورے گائوں کو دی جا رہی ہے،پولیس تو پولیس اب یہ رینجرز ساتھ لے جا کر گرفتاریاں کر رہے ہیں ، آپ نے دیکھا ہو گا ایک ویڈیو میں بزرگ کو رینجرز کھینچ کر گاڑی میں ڈال رہی ہے، پینل آف چیئرپرسن نے صوبائی وزیر کو واپڈا حکام کو ہائوس بلا کر بریف کرنے کا حکم دے دیا۔
حکومتی رکن افتخار احمد بھچر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دیہاتی علاقوں میں پینتیس سالوں سے چھپڑ کا وجود ہے جو گندا پانی جمع ہوکر بیماریوں کی آماجگاہ بنتا ہے، پیٹ کے امراض اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں سے نجات کے لئے گندے پانی کو کسی اور جگہ منتقل کیاجائے،میرے حلقہ میں سولہ موزہ جات چار چار ایکڑ پر گندے پانی کے جوہڑ بنے ہوئے ہیں ہیرے جیسے لوگ ان جوہڑوں کی نذر ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ سالانہ ڈویلپمنٹ پروگرام کو دوبارہ شروع کیاجائے جو پہلے شہبازشریف نے شروع کیاتھا۔حکومتی رکن شعیب صدیقی میچز کی وجہ سے ٹریفک کی بدحالی پر پھٹ پڑے،ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل ایونٹ پاکستان میں ہونا اعزاز کی بات ہے مگر جو حال ٹریفک کا کیا جاتا ہے یہ قابل قبول نہیں،میری گزارش ہے کہ ایک فا ئیو سٹار ہوٹل قدافی سٹیڈیم میں بنایا جائے جہاں ٹیمیں رکیں،آج بھی کوئی میچ نہیں لیکن پورے لاہور کا ٹریفک نظام درہم برہم ہے،جس پر پینل آف چیئرمین سمیع اللہ خان کا کہنا تھا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ہائوس کی طرف سے ایک گزارش پی سی بی کو جانے چاہیے ، ٹیموں کی سکیورٹی ضروری ہے مگر اس کے لئے عوام جس قرب سے گزرتی ہے وہ قبول نہیں، اس کو ہنگامی بنیادوں پر دیکھتے ہیں، ہائوس کی طرف پی سی بی کو گزارش کرتے ہیں، جس وقت قدافی بن رہا تھا اس وقت اس پر سوچنا چاہیے تھا۔
ایجنڈا مکمل ہونے پر پینل آف پینل آف چیئر مین سمیع اللہ خان نے پنجاب اسمبلی کااجلاس آج بروز جمعہ مورخہ14فروری کو صبح 10بجے تک ملتوی کردیا، آج پنجاب اسمبلی کااجلاس صبح دس بجے اولڈ اسمبلی بلڈنگ میں منعقد ہوگا۔