اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مئی 2025ء) بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر آج کل جرمنی اور نیدرلینڈز جیسے یورپی ممالک کے دورے پر ہیں، جہاں وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی پر نئی دہلی کا موقف پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے بدھ کے روز ایک ڈچ ٹی وی کے ساتھ انٹرویو کے دوران کہا کہ بھارت نے پاکستان پر حملے کے لیے جو آپریشن سندور شروع کیا تھا، وہ اب بھی جاری ہے۔
تاہم وقتی طور پر یہ آپریشن غیر فعال ہے اور عسکریت پسندوں کی جانب سے کسی حملے کی صورت میں اسے دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آپریشن سندور کا تسلسل بھارت کے لیے ایک اسٹریٹیجک مقصد پورا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آپریشن جاری ہے، کیونکہ اس آپریشن میں ایک واضح پیغام ہے - 22 اپریل کو ہم نے جس طرح کی کارروائیاں دیکھی تھیں، اگر ایسی دوبارہ ہوئیں، تو ان کا جواب دیا جائے گا۔
(جاری ہے)
پاک بھارت مذاکرات کے لیے سعودی عرب ممکنہ غیر جانبدار میزبان، شہباز شریف
انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ یہ آپریشن اصولی طور پر اب بھی قائم ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوجی کارروائی بھی جاری ہے۔
انہوں نے کہا، ’’آپریشن جاری رکھنے کا مطلب ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل لڑنا نہیں بلکہ فی الوقت لڑائی اور دیگر عسکری کارروائیوں کے خاتمے پر اتفاق ہے، اس لیے وقتی طور پر آپریشن غیر فعال ہے۔
البتہ وقت پڑنے پر دوبارہ بھی شروع بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘’جنگی جنون ادیبوں پر بھی طاری ہو جائے تو خیر کی آواز کہاں سے آئے گی‘
’امریکہ نے ثالثی نہیں کی‘
اپنے اس انٹرویو کے دوران بھارتی وزیر خارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت اور پاکستان کی حالیہ کشیدگی کے عروج پر جو جنگ بندی ہوئی، اس میں امریکہ سمیت کسی نے بھی کوئی ثالثی نہیں کی اور لڑائی ’’پاکستانی فوج کی جانب سے ہاٹ لائن پر بات چیت کرنے کے بعد‘‘ روکی گئی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا، ’’یہ پاکستانی فوج تھی، جس نے پیغام دیا کہ وہ فائرنگ بند کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہم نے اسی کے مطابق جواب دیا۔‘‘ البتہ جے شنکر نے تسلیم کیا کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک نے لڑائی پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور دونوں فریقوں کو فون کالز بھی کی تھیں۔
بھارتی وزیر خارجہ نے کہا، ’’امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس نے اس پر بات کی تھی۔
مسٹر روبیو نے مجھ سے اور جے ڈی وینس نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کی تھی، تاہم ان کا کردار تشویش کا اظہار کرنے تک ہی محدود تھا۔‘‘جے شنکر کا کہنا تھا، ’’ہم سے جس نے بھی بات کی، امریکہ سمیت، ہم نے اس پر ایک بات بالکل واضح کر دی تھی کہ اگر پاکستانی جنگ بند کرنا چاہتے ہیں، تو یہ بات ہم ان سے سننا چاہتے ہیں اور ان کے جنرل کو ہمارے جنرل کو فون کر کے یہ کہنا پڑے گا۔
اور ایسا ہی ہوا۔‘‘واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ دنوں میں کئی بار یہ بات بہت واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی حالیہ لڑائی انہی کی کوششوں کی بدولت رکی تھی۔ ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی بھی پیشکش کی ہے۔
پاکستان کی حمایت پر ترکی کو بھارتی بائیکاٹ کا سامنا
تاہم چونکہ بھارت ثالثی کا مخالف ہے، اس لیے وہ پوری شدت سے اس بات کو مسترد کرتا آیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں کسی بھی ملک نے کسی ثالث کا کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
امریکی صدر کے ان دعووں کے بارے میں جب جے شنکر سے پوچھا گیا کہ امریکی صدر نے جنگ بندی میں سہولت فراہم کی اور ثالثی کی پیشکش کی ہے، تو جے شنکر نے ایسے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہمارے اور پاکستانیوں کے درمیان کا معاملہ ہے۔ ہم اس سے دو طرفہ طور پر نمٹنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔‘‘
بھارتی وزیر خارجہ نے کشمیر پر نئی دہلی کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، ’’کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔
کوئی بھی ملک اپنی سرزمین کے کسی حصے پر مذاکرات نہیں کرتا۔ کشمیر کا ایک حصہ ایسا ہے جو سن 1947 اور 1948 سے پاکستان کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔ جب وہ اس حصے کو چھوڑنے کی تجویز پیش کریں گے، تو ہم ان سے بات کرنا چاہیں گے۔‘‘بھارت پاک کشیدگی: بھارت کا ایشیا کپ میں حصہ نہ لینے پر غور
انہوں نے کہا، ’’یہ ایک سنجیدہ بات چیت ہونا چاہیے۔
یہ وہ ہے، جو ہمیں اپنے اور حکومت پاکستان کے درمیان کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم اپنی سرزمین پر بات چیت نہیں کر رہے ہیں۔‘‘واضح رہے کہ 22 اپریل کو بھارتی کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام علاقے میں ہونے والے خونریز حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان زبردست کشیدگی پائی جاتی ہے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جسے پاکستان سختی سے مسترد کرتا ہے۔
بھارت نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب کو پاکستان کے متعدد علاقوں میں فضائی حملے کیے تھے، جس کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور پھر پاکستان نے بھی بھارت میں حملے کیے تھے۔ تقریباﹰ تین روز تک فضائی حملوں کا یہ سلسلہ جاری رہا تھا۔ ان حملوں کے سبب سرحدی علاقوں میں بسنے والے درجنوں افراد کی ہلاکت بھی ہوئی اور زبردست مادی تباہی بھی۔
دونوں حریف ہمسایہ ممالک کے مابین اب بھی ماحول بہت کشیدہ ہے، تاہم جنگ بندی کے سبب سرحد پر اب صورتحال پہلے کے مقابلے میں قدرے بہتر اور پرامن ہے۔