کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جولائی2025ء)وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے ایم پی ایز کم علمی کا شکار ہیں انہیں کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا اور وہ بیان دے دیتے ہیں۔ سہون ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے جن ان 38 افسران اور ملازمین کو ایس بی سی اے میں بھیجا گیا ہے، ان میں سے کسی کو کراچی میں تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ میری ایم کیو ایم۔
کو درخواست ہے کہ خدا کے واسطے ہر بات میں نفرت اور تعصب کے پہلو اور زہر افشانی نہ کریں۔ ریحام خان پہلے بھی سیاست میں رہی ہیں اب انہوں نے اپنی پارٹی بنالی ہے ان کو گڈ لک کہتے ہیں۔ گورنر سندھ صاحب بھی شاید نمبر پلیٹ کے معاملہ پر حقائق سے بے خبر لگتے ہیں کیونکہ وہ نمبر پلیٹ کلچر والی نمبر پلیٹ نہیں ہے بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ نمبر پلیٹ ہے جو دنیا بھر میں رائج ہے۔
(جاری ہے)
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ سعید غنی نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ایم پی ایز کم علمی کا شکار ہیں انہیں کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا اور وہ بیان دے دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا ایم کیو ایم کے دوستوں کو مشورہ ہے کہ وہ کسی بھی بیان کو دینے سے قبل اس کی معلومات حاصل کرلیں تو انہیں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
سعید غنی نے کہا کہ ایس بی سی اے سے قبل سے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تھی جو بعد میں صوبے بھر میں ایس بی سی اے بنائی گئی تھی۔ اس دوران تمام ڈویلپمنٹ اتھارٹیز میں بلڈنگ کنٹرول کے سیکشن تھے جو ایس بی سی اے بننے کے بعد ختم ہوگئے تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ اسی طرح سہون ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں جو بلڈنگ کنٹرول کا سیکشن بھی ختم ہوا اور وہ ساری ذمہ داریاں ایس بی سی اے کے باس چلی گئی تھی اس وقت ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ تمام ملازمین جو مختلف اتھارٹیز کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن میں کام کررہے تھے وہ ایس بی سی اے میں ضم کردئیے جاتے لیکن ایسا ہوا نہیں۔
ایس ڈی اے نے اس اشیو کو متعدد بار اٹھایا اور وہ اس کی ڈیمانڈ کرتے رہے کہ یہ ملازمین جو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ہیں وہ اس وقت ایس ڈی اے میں ہیں جبکہ اب وہاں یہ سیکشن ہی نہیں ہے۔ حال میں ایس ڈی اے کی ہونے والی گورننگ باڈی کے اجلاس میں یہ معاملہ ایک بار پھر اٹھایا گیا کہ یا تو ان ملازمین کو جو ملازمین بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ہیں ان سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ضم کیا جائے۔
ساتھ ہی یہ طے پایا کہ کیونکہ یہ ملازمین ایس ڈی اے کے ہیں اور وہ اسی حدود میں بلڈنگ کنٹرول کا کام کررہے تھے اس لئے ان کو ایس بی سی اے میں ایس ڈی اے کی حدود میں ہی تعینات کیا جائے گا۔ سعید غنی نے کہا کہ ان 38 افسران اور ملازمین میں سے کسی کو کراچی میں تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ یہ اپنی ایس ڈی اے کی حدود میں ہی پوسٹ ہوں گے اور وہی کام کریں گے اس سے کراچی کے شہری یا یہاں کے کسی ملازمین کا حق سلب نہیں ہوگا۔
سعید غنی نے کہا کہ میری ایم کیو ایم کو درخواست ہے کہ خدا کے واسطے ہر بات میں نفرت اور تعصب کے پہلو اور زہر افشانی نہ کریں، بات ضرور کریں لیکن کراچی تو کبھی دیہی اور شہری تو کبھی مقامی اور غیر مقامی کی باتیں کرنا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔ تمام لوگ جو اس ملک یا صوبے کے اداروں میں کام کرتے ہیں وہ سب پاکستانی شہری اور صوبہ سندھ کے شہری ہیں ان سب کا حق ہے۔
اگر پاکستان کے کسی بھی صوبے سے کوئی شہری یہاں آکر بس سکتا ہے، نوکری اور کاروبار کرسکتا ہے یہاں تک کہ وہ انتخابات میں بھی حصہ لے سکتا ہے تو خدا کے واسطے آپ سندھ کے شہریوں پر اس طرح کی پابندیاں لگانے سے گریز کریں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے اس سے نفرتیں پروان چڑھتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ گورنر سندھ صاحب بھی شاید نمبر پلیٹ کے معاملہ پر حقائق سے بے خبر لگتے ہیں کیونکہ وہ نمبر پلیٹ کلچر والی نمبر پلیٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک جدید اور ٹیکنالوجی سے بھرپور نئی نمبر پلیٹ ہے کوئی کلچر نمبر پلیٹ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں اس طرح کی جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور نمبر پلیٹس بنائی جارہی ہیں، جس کا مقصد جعلی نمبرز پلیٹ کا خاتمہ، جرائم کی روک تھام، گاڑی چوری ہونے پر اس کی فوری برآمدگی سمیت دیگر ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ اگر کسی موٹر سائیکل یا گاڑی کا مالک کسی گاڑی کو خریدنے کے 10 سال کے بعد بھی اس کو اپنے نام ٹرانسفر نہیں کرتا اور اس گاڑی یا موٹر سائیکل سے کسی قسم کی واردات یا کوئی حادثہ ہوجاتا یے تو اس نمبر سے پرانا مالک ہی ذمہ دار ہوجاتا ہے جس کو علم۔
نہیں ہوتا کہ وہ گاڑی اب کس کے پاس ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں جب بے تحاشہ اضافہ ہوا تو یہی لوگ جو آج اس جدید ٹیکنالوجی سے مزئین نمبر پلیٹس کے خلاف باتیں کررہے ہیں سب سے زیادہ حکومت کو ہی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ موٹر سائیکل کے ذریعے کئی ایسی وارداتیں ہوئی جس سے لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا اور ان کے ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جارہا تھا۔
اس کی سب سے بڑی وجہ ایسی موٹر سائیکل پر جعلی نمبر پلیٹس ہونا تھا۔ سعید غنی نے کہا کہ اس جدید اور ٹیکنالوجی سے بھرپور نمبر پلیٹس کے اجرا کا اصل مقصد اسٹریٹ کرائم، ٹارگٹ کلنگ اور جرائم کی روک تھام اور ملزمان کو فوری گرفتار کرنا بھی ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ اسٹریٹ کرائم اور جرائم بڑھتے ہیں تو ہم پر تنقید کی جاتی ہے اور جب ہم اس کو کم کرنے اور ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کے لئے اس طرح کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کی روک تھام چاہتے ہیں تو اب اس پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے۔
سعید غنی نے مزید کہا کہ ہیلمٹ کا قانون بنائیں تو ہم پر اعتراض اور سختی نہ کریں اور حادثات کے باعث ہیلمٹ استعمال نہ کرنے والے اس کا شکار ہوں تو اس کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد کی جاتی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس طرح کے اعتراضات کرنے والے کیا اس شہر اور صوبے میں لاقانونیت چاہتے ہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ کوئی کسی سے کچھ نہ پوچھے۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم اگر قانون کی پاسداری اور قانون پر عمل درآمد چاہتے ہیں تو ہمیں اس طرح کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔
سب سے آسان بات تو یہ ہے کہ لوگ خود سے اس پر عملدرآمد کرنا شروع کردیں اور نئی نمبر پلیٹس لینا شروع کردیں جس کے لئے ان کو وقت دیا گیا ہے، لوگ نئی نمبر پلیٹ لگانا، ہیلمٹ پہننا شروع کردیں اپنی بائیک یا گاڑی کو اپنے نام ٹرانسفر کروالیں تو کوئی کسی کو تنگ نہیں کرسکتا۔ اگر مقررہ وقت میں جب ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو پھر سختی ہوتی ہے اور میرے خیال میں اس طرح کی سختیاں ہونی چاہیے اور یہ سختیاں لوگوں کو جیلوں میں بھیجنے اور جرمانے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کی جاتی ہیں کہ لوگ قانون پر عملدرآمد کرنا شروع کردیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ حیدرآباد سندھ کا واحد شہر ہے، جس کی نکاسی کا تمام دارومدار پمپنگ کے ذریعے ہے۔ حیدرآباد پورے میں گریویٹی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ بارشوں کے دوران اگر بجلی چلی جائے اور وہ نکاسی کا نظام جو بجلی کے ذریعے ہی چلتا ہو ان کے لئے جو جنریٹر ہوں وہ پورے اس پمپنگ اسٹیشن کو بھی نہ چلا سکتے ہوں تو ایکسٹرا پمپنگ اسٹیشن کو کس طرح چلایا جاسکتا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ حیدرآباد میں زیادہ تر علاقوں سے نکاسی کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے گوکہ ابھی بجلی کا نظام بھی مکمل بحال نہیں ہوا ہے لیکن اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ کام کررہی ہے اور انشااللہ باقی مانندہ علاقوں سے بھی نکاسی کا عمل جلد مکمل کرلیا جائے گا۔