اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جولائی2025ء)اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سے "تباہی سکواڈ" کو اس ہائیکورٹ میں لایا گیا، ہم نے انصاف کے ستونوں پر ایک کے بعد ایک حملہ دیکھا، ان حملوں نے انصاف کے نظام کو بار بار زخمی کیا اور اسے تقریبا آخری سانسوں تک پہنچا دیا۔
پیرکو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، صحت اور وطن واپسی سے متعلق کیس پر سماعت کی۔دوران سماعت عدالت نے عافیہ صدیقی کیس میں رپورٹ پیش نہ کرنے پر وفاقی کابینہ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔ جسٹس سردار اسحاق نے کہا کہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر کیس کی آئندہ سماعت ہوگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کا روسٹر چیف جسٹس آفس ہینڈل کرتا ہے، حکومت نے سپریم کورٹ میں میرے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہوئی ہے، جج اگر چاہے بھی تو چھٹیوں میں کام نہیں کرسکتا۔
(جاری ہے)
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ میری چھٹیاں آج سے شروع ہونی تھیں، میں نے فوزیہ صدیقی کیس دیگر کیسز کے ساتھ آج مقرر کیا تھا، مجھے جمعرات کو بتایا گیا کہ کازلسٹ جاری نہیں ہوگی جب تک کازلسٹ میں تبدیلی نہیں کی جاتی، میں نے پرسنل سیکرٹری سے کہا کہ کازلسٹ کے حوالے سے چیف جسٹس کو درخواست لکھو۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو تیس سیکنڈ بھی درخواست پر دستخط کرنے کے لیے نہیں ملے، ماضی میں ججز کا روسٹر مخصوص کیسز کے فیصلوں کیلئے استعمال ہو چکا ہے، فوزیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہیں، اپیل سپریم کورٹ میں مقرر ہے، جج چھٹی کے دن عدالت میں انصاف فراہم کرنے کے لیے بیٹھنا چاہتا ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیئے کہ ایک بار پھر ایڈمنسٹریٹیو پاور کو جوڈیشل پاور کے لیے استعمال کیا گیا، میں انصاف کو شکست کا سامنا نہیں کرنے دوں گا، ہائی کورٹ کی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے میں اپنی جوڈیشل پاورز کا استعمال کروں گا، روسٹر تبدیل کرنے کے حوالے سے پرسنل سیکرٹری نے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پرسنل سیکرٹری کو کہا چیف جسٹس کو خط بھیج دو کیونکہ آج چند کیسز مقرر تھے، فوزیہ صدیقی کا کیس الگ نوعیت کاہے، میں نے کہا تھا رپورٹ نہ آئی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کروں گا۔
وکیل عمران شفیق نے کہا کہ اگرحکومت نے اسٹے لینا ہوتا تو ابھی بینچ بھی بن جاتا، ہمیں معلوم ہے کہ کیسے ہائیکورٹ چل رہی ہے، آپ کا آرڈر موجود ہے، کیس آپ کی عدالت میں آج مقرر ہے۔جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ معلوم نہیں ابھی تک آپ کا کیس کیسے سپریم کورٹ میں نہیں لگا، وکیل عمران شفیق نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس نہیں لگے گا کیونکہ وہاں جسٹس منصور علی شاہ موجود ہیں، کیس تب لگے گا جب ججز کا روسٹر تبدیل ہوجائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا، اس کے علاوہ وفاقی کابینہ کے اراکین کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت نے دو ہفتوں میں نوٹس پر جواب طلب کرلیا۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے تحریری حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے عدالتی حکم کے باوجود وجوہات عدالت میں جمع نہیں کرائیں،عدالت کے پاس وفاقی حکومت کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔
انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سے ڈیمولیشن اسکواڈکو اس ہائیکورٹ میں لایا گیا، ہم نے انصاف کے ستونوں پر ایک کے بعد ایک حملہ دیکھا، ان حملوں نے انصاف کے نظام کو بار بار زخمی کیا اور اسے تقریبا آخری سانسوں تک پہنچا دیا۔جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ نظام انصاف پر حملوں کی آج ایک اور مثال سامنے آئی، ہائیکورٹ کے ایک جج کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو چیف جسٹس کے دفتر کے زیرِ انتظام ہفتہ وار روسٹر کے ذریعے کنٹرول کیا گیا۔
انہوںنے کہا کہ یہ صورتحال بیک وقت دل دہلا دینے والی اور مزاحیہ بھی ہے، ایک ایسا تضاد جو اب اس ہائیکورٹ کی پہچان بن چکا ہے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ عدالت نے حکومت کو موقع دیا تھا کہ وہ اپنی رپورٹ پیش کرے،اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کو متنبہ کیا تھا کہ اگر رپورٹ پیش نہ کی گئی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنی پڑے گی، حکومت نے ترمیمی درخواست دائر کرنے کے آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی، کسی بھی وجہ سے حکومت کا کیس سپریم کورٹ نے نہیں سنا۔
عدالت نے کہا کہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ایگزیکٹو کی چالاکیاں کہیں اور ظاہر ہوئیں، اس عدالت کی کارروائی کو روسٹر کے ذریعے کنٹرول کیا گیا، اگر کوئی جج انصاف کی فراہمی کیلئے عدالت لگانا چاہے تو ہائیکورٹ انتظامیہ اسے چھٹی کے دوران اجازت نہیں دے گی۔عدالت نے کہا کہ میری چھٹی آج سے شروع ہونے والی تھی، اسی لیے اس ہفتے دستیاب ججز کی فہرست میں میرا نام شامل نہیں تھا، چھٹی کا شیڈول اس تاریخ سے کافی پہلے ہی جاری کر دیا گیا تھا جس پر میں نے اس مقدمے کو آج کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا، یہ مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اس لیے آج سماعت کی تاریخ مقرر کی۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ جمعرات یا جمعہ کو میرے پی ایس نے بتایا کہ میری عدالت کی کازلسٹ جاری نہیں کی جائے گی، میں نے اپنے پی ایس کو چیف جسٹس کو درخواست لکھنے کا کہا، بتایا گیا روسٹر جاری نہیں ہو سکتا جب تک روسٹر میں چیف جسٹس کی اجازت سے ترمیم نہ کر لی جائے، درخواست کی فائل چیف جسٹس کے ٹیبل پر رہی اور انہیں دستخط کرنے کیلئے 30 سیکنڈ کا وقت نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ یہ جان بوجھ کر تھا یا محض غفلت، اس بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، ججز کے روسٹر کو مخصوص مقدمات میں مطلوبہ نتائج کے لیے بطور آلہ استعمال کیا جا چکا ہے، امریکی عدالت میں پاکستانی بیٹی کے حق میں مقف اپنانے کی شدید حکومتی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے اگر میں سمجھوں کہ یہ دانستہ کیا گیا تو شاید میں درست ہوں۔عدالت نے کہا کہ جج کے چھٹی کے روز عدالت لگانے میں دیکھا جائے گا کہ آیا عدالت لگانے کی وجہ کوئی ذاتی مفاد تھی یا صرف انصاف کی فراہمی، یقین ہے کہ صحیح سوچ رکھنے والے تمام لوگ اس بات سے متفق ہوں گے کہ آج میرا عدالت لگانے کا فیصلہ مکمل طور پر انصاف کی فراہمی تھا، وہ دن گزر چکے ہیں جب ایک جج گالف کھیلتے ہوئے یا اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھانے کے دوران بھی ضرورت کے تحت حکم جاری کر سکتا تھا، جج کا گان پہننا، کمرہ عدالت میں بیٹھنا یا معمولی سی کاز لسٹ کبھی بھی عدالتی امور نمٹانے کے لیے ناگزیر شرائط نہیں رہیں۔
عدالت نے کہا کہ یہ ایک اور قابل مذمت مثال ہے جس میں انتظامی اختیارات کا استعمال آزاد عدالتی اختیار کو جکڑنے کے لیے کیا گیا، غالبا یہ کوشش کی گئی کہ چھٹیاں ختم ہونے تک حکومت کا جواب موخر کر دیا جائے۔جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ انصاف کے تقاضے پھر بھی ایسے معمولی حربوں سے مغلوب نہیں ہو سکتے۔عدالت نے کہا کہ عدالتی اختیار کا استعمال جہاں تک ممکن ہوا عدلیہ کی عزت اور ہائیکورٹ کے وقار کو برقرار رکھنے کیلئے کرتا رہوں گا۔