اپوزیشن نے جو کانٹے بوئے تھے وہی کاٹ رہی ہے، سینیٹر عرفان صدیقی

آپ نے 9مئی کو ملکی اداروں پر حملے کئے، جمہوریت کا قرینہ یہی ہے اپنی بات کہو اور دوسرے کی بات سنو، سینیٹ میں اظہار خیال

منگل 12 اگست 2025 21:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 اگست2025ء) مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماء سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے جو کانٹے بوئے تھے وہی کاٹ رہی ہے، ماضی میں اپوزیشن پر انہوں نے مقدمات بنائے، آپ نے 9 مئی کو ملکی اداروں پر حملے کئے، جمہوریت کا قرینہ یہی ہے کہ اپنی بات کہو اور دوسرے کی بات سنو، چاہے وہ غلط، تلخ یا آپ کے نکتہ نظر کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

منگل کو سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ جب بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ ہمیں بھی بولنا ہے تو آپ نے انہیں اجازت دی اور اس وقت ایک جملہ میں نے کہا تھا کہ بولئے بھی اور سنیئے بھی لیکن وہ بولے تو ضرور لیکن سنا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کا قرینہ یہی ہے کہ اپنی بات کہو اور دوسرے کی بات سنو، چاہے وہ غلط ہے، چاہے وہ تلخ ہے یا چاہے وہ آپ کے نکتہ نظر کے خلاف ہو۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم نے بڑے تحمل سے ان کی بات سنی۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ قدرت کا قانون بھی یہی ہے کہ اس نے ایک زبان اور دو کان دیئے ہیں کہ بولو کم اور سنو زیادہ لیکن یہاں جونہی بات ہمارے بارے میں، ہمارے لیڈروں کے بارے میں اور ماضی کے بارے میں کہا گیا فرضی تخیلاتی باتیں کہی گئیں لیکن جب ہماری محترم ساتھی سینیٹر شیری رحمن نے جو حقائق بیان کئے تو اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کر دیا، کیا فریال تالپور صاحبہ کو چاند رات کو نہیں اٹھایا گیا، ڈاکٹرز روکتے رہے کہ انہیں ہسپتال میں رکھنے کی ضرورت ہے لیکن آپ کو انہیں جیل میں لے جانے کی ضرورت تھی، اسی طرح مریم نواز کے ساتھ آپ نے کیا کچھ کیا، وہ بھی کسی کی بہن اور کسی کی بیٹی ہے، میں تو بار بار اپنی کہانی ان کو سناتا نہیں ہوں، میں شاید اس ہائوس کا واحد آدمی ہوں جس پر کرائے داری کا کیس بھی بنا اور غداری کا کیس بھی بنا، کرائے داری کا کیس اس لئے بنا کہ میں نے فرضی گھر میں مقیم کرائے دار کے کوائف تھانے میں جمع نہیں کرائے جو میرا گھر نہیں تھا، یہ پرانی بات نہیں 2019 کے دور کی کہانی ہے، اس کے بعد میاں صاحب غالبا لندن میں تھے، انہوں نے وہاں تقریر کی اور یہاں ان کی مجلس عاملہ کے ارکان نے زوم پر بیٹھ کر ان کی تقریر سنی، اس پر جتنے سننے والے تھے سب کو اٹھا لیا گیا، یہ ان کے جمہوری دور میں ہوا، جو اب کہتے ہیں کہ جو بویا وہی کاٹو گے، یہ بھول بیٹھے ہیں کہ انہوں نے کیا بویا تھا، یہ کانٹوں کی فصل ان کی اپنی بوئی ہوئی ہے، 25 آدمیوں پر آج بھی وہ ایف آئی آر موجود ہے، ان کے دور میں کونسا لیڈر تھا جس پر پی ایم ایل این کا لیبل تھا، وہ جیل سے باہر تھا، کسی نہ کسی جرم میں اور جس پر کوئی جرم نہ ملے اس پر ہیروئن ڈال دو، اس پر ایفیڈرین ڈال دو یا اس پر کرایہ داری ڈالو دو، وہ شخص جیل میں ضرور جانا چاہئے، یہ وہ فصل اور کارنامے ہیں جس کے ہم بدلے نہیں لے رہے، یہ مکافات عمل کی آواز آ رہی ہے، نواز شریف کا کیس تو سپریم کورٹ سے شروع ہوتا تھا اور وہیں ختم ہو جاتا تھا، ٹرائل کی باتیں ہی بے معنی تھیں، آپ کہتے ہیں کہ قاضی فائز عیسی سے مظالم شروع ہوئے تو یہ کھوسہ کس کا نام تھا، ہم کہتے ہیں بولو لیکن جی ایچ کیو پر حملے نہ کرو، کور کمانڈر ہائوس پر حملے نہ کرو، پاک فضائیہ کے طیارے نہ جلائو، 9 مئی کو کیسے فراموش کر دیں، 250 مقامات پر حملے کئے اور قائدین کی تقریریں ریکارڈ پر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ کی غلطیوں کے انبار ہیں، یہ واردات امریکہ، برطانیہ یا بھارت میں ہوتی تو یہ لوگ کیفر کردار تک پہنچ چکے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ایک صوبہ کا وزیراعلی نکلتا ہے اور وہ وفاقی دارالحکومت پر حملہ کراتا ہے، نہ آپ کسی سے بات کرتے ہیں، نہ کلام کرنا چاہتے ہیں، آپ نے ایک جملہ معرکہ حق کی کامیابی پر خراج تحسین کیلئے نہیں بولا، آپ نے حملے کرکے دیکھ لئے جب بھی راستہ نکلے گا بات چیت کے ذریعے نکلے گا۔