لاہور/قصور/ سیالکوٹ/ جھنگ/ چنیوٹ/ بہاولنگر/ چشتیاں/ ساہیوال/کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 ستمبر2025ء) پنجاب کے دریائوں میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہونے سے صوبے میں بدترین سیلابی صورتحال برقرار ہے، سیلابی ریلوں کی وجہ سے ہزاروں بستیاں ڈوب گئیں جبکہ لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں،بھارت نے بغیر پیشگی اطلاع دیئے دریائے چناب میں پانی چھوڑ کر ایک بار پھر آبی جارحیت کا مظاہرہ کر دیا جس کے باعث ہیڈ تریموں پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے،دریائے ستلج میں اونچے درجے کے سیلاب کے باعث ہر طرف تباہی ہے تاہم دریائے راوی میں ہیڈ بلوکی پر پانی کے بہائو میں کمی کا سلسلہ جاری ہے، اب بہائو ایک لاکھ 75ہزار کیوسک پر آ گیا ہے مگر اب بھی انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے،دریائے راوی میں آئے ہوئے شدید سیلاب نے ساہیوال کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے نتیجے میں ضلع بھر کے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی صورتحال پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے 74سکول مزید 7روز کے لیے بند رہیں گے جبکہ سندھ میں بھی سپر فلڈ کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ۔
(جاری ہے)
تفصیلات کے مطابق پنجاب کے تینوں دریاں میں بدترین سیلابی صورتحال برقرار ہے جس کے سبب اب تک 20لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں اور مختلف حادثات میں 33افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔بھارت نے بغیر پیشگی اطلاع دیئے دریائے چناب میں پانی چھوڑ کر ایک بار پھر آبی جارحیت کا مظاہرہ کر دیا جس کے باعث ہیڈ تریموں پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے اور پانی کا بہائو 4لاکھ 79ہزار کیوسک تک پہنچ گیا ہے۔
دریائے چناب میں ہیڈ پنجند پر بھی پانی کی آمد میں اضا فہ ہوا ہے مگر صورتحال معمول پر ہے، دریائے چناب میں ہیڈ خانکی اور قادرآباد پر پانی کی سطح کم ہوئی ہے اور اب درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔محکمہ آبپاشی کے ذرائع نے بتایا کہ بھارت نے سلال ڈیم کے تمام گیٹ کھول دیئے ہیں جس سے دریائے چناب میں 8لاکھ کیوسک پانی کا ریلا پاکستان پہنچے گا، کچھ روز قبل بھی بھارت نے 9لاکھ کیوسک پانی چھوڑا تھا مگر اس وقت دریا معمول کے مطابق بہہ رہا تھا، بھارت کی جانب سے سلال ڈیم سے پانی چھوڑنے کی کوئی باضابطہ اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
اس وقت دریائے چناب میں تریموں کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے، تریموں کے مقام پر سیلاب کی آمد اور اخراج 4لاکھ 79ہزار 743کیوسک ریکارڈ کیا گیا ۔دریائے چناب کا سیلابی ریلا سیالکوٹ، وزیرآباد اور چنیوٹ سے گزرتے ہوئے جھنگ میں داخل ہو چکا ہے جہاں تقریباً 200دیہات زیر آب آ گئے اور سینکڑوں گھر پانی میں ڈوب گئے۔متاثرہ علاقوں سے 2لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے اور کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، ملتان سے دریائے چناب کا بڑا ریلا گزرنے کا امکان ہے، شہر کو بچانے کے لیے ہیڈ محمد والا روڈ پر ڈائنا مائٹ نصب کی گئی ہے اور ضرورت پڑنے پر شگاف ڈالنے کی تیاری ہے۔
منڈی بہائوالدین میں ہیڈ قادر آباد بیراج پر پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے جبکہ پھالیہ کے 140سے زائد دیہات اور کچی بستیاں زیر آب آ گئی ہیں، کبیر والا میں بھی سیلابی پانی داخل ہو گیا اور لوگ کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیے جا رہے ہیں۔دوسری جانب دریائے راوی میں ہیڈ بلوکی پر پانی کے بہائو میں کمی کا سلسلہ جاری ہے، اب بہائو ایک لاکھ 75ہزار کیوسک پر آ گیا ہے مگر اب بھی انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن کے مطابق دریائے راوی میں شاہدرہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے، شاہدرہ کے مقام پر پانی کی آمد اور اخراج 67ہزار 900کیوسک ریکارڈ کیا گیا ۔فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن لاہور کے مطابق دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام سے ڈیٹا موصول نہیں ہو سکا، ہیڈ سلیمانکی پر اونچے درجے کا سیلاب ہے، بہائو ایک لاکھ 34 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
ادھر ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے کہا ہے کہ تریموں ہیڈورکس پر 9لاکھ کیوسک کا ریلا پہنچنے کا امکان ہے، سدھنائی کے مقام پرخطرہ بڑھا تو ہمیں شگاف ڈالنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ ہیڈ محمد والا پر 8لاکھ کیوسک پانی کا ریلا پہنچے گا، ضرورت پڑنے پر ہیڈ محمد والا پر بھی شگاف ڈالنا پڑ سکتا ہے۔ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق بھارت نے سلال ڈیم سے متعلق آفیشل معلومات نہیں دیں، سلال ڈیم ہیڈ مرالہ سے 78کلو میٹر دور ہے، ابھی تصدیق نہیں کر سکتے کہ ہیڈمرالہ پر کتنا پانی آئے گا، پی ڈی ایم اے نے تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔
ادھر دریائے ستلج کی غضب ناک لہریں بورے والا کی حدود میں تباہی مچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، سیلاب کے نتیجے میں ایک لاکھ 90ہزار کیوسک کا سیلابی ریلہ اس وقت بورے والا سے گزر رہا ہے جو ہر طرف تباہی کی علامت بن چکا ہے۔سیلاب سے بچائو کے لیے بنائے گئے متعدد بند ٹوٹ چکے ہیں جس کی وجہ سے سیلابی پانی ساہوکا تک پہنچ چکا ہے، ہزاروں ایکٹر پر کاشت کی گئی فصلیں، بشمول کپاس، دھان، مکئی اور تل مکمل طور پر دریا برد ہو گئی ہیں۔
اس سیلابی ریلے نے کھیتوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور فصلوں کی تباہی نے کسانوں کے لیے ایک بڑا المیہ کھڑا کر دیا ہے۔سیلاب نے مکانات، بستیاں اور سکولوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، کئی علاقوں میں پانی کی سطح کئی فٹ تک بڑھ چکی ہے اور پورے علاقے میں تباہی کا منظر ہے، متاثرین اپنے گھروں کو چھوڑ کر سڑکوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں اور کئی مقامات پر رابطے منقطع ہو چکے ہیں۔
ایمرجنسی ریلیف آپریشن جاری ہے اور اسسٹنٹ کمشنر بورے والا کے مطابق متاثرین کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ افراد کو کھانا، ادویات اور جانوروں کے لیے چارہ فراہم کیا جا رہا ہے، ان اقدامات سے سیلاب متاثرین کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن تباہی کا پیمانہ بہت بڑا ہے۔
سیلاب نے 80 سے زائد دیہاتوں اور موضع جات کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا، متعدد افراد اپنے گھروں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کی مدد کے لیے حکام کی جانب سے فوری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔دوسری جانب دریائے راوی میں آئے ہوئے شدید سیلاب نے ساہیوال کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس کے نتیجے میں ضلع بھر کے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
سیلابی پانی کی تیزی نے متعدد گھروں اور علاقوں کو متاثر کیا ہے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے فوری طور پر ریسکیو آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے، سیلاب کی شدت کو دیکھتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے 74سکول مزید 7روز کے لیے بند رہیں گے۔سیلاب کے باعث ساہیوال کے مختلف علاقوں میں صورتحال انتہائی نازک ہے تاہم انتظامیہ اور امدادی ادارے سیلابی علاقوں میں امدادی کاموں میں مصروف ہیں تاکہ مزید نقصانات کو روکا جا سکے اور متاثرہ افراد کو فوری سہولت فراہم کی جا سکے۔
پنجاب کی ضلعی انتظامیہ سیلاب متاثرین کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ڈیجیٹل تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے جس کے ذریعے متاثرہ افراد کو تلاش کر کے ریسکیو کیا جا رہا ہے۔سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ غیر معمولی سیلابی صورتحال کے پیش نظر پنجاب کے 15اضلاع کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جھنگ، ملتان، مظفرگڑھ، اوکاڑہ، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد، تاندلیانوالہ، خانیوال، پاکپتن، وہاڑی، بہاولنگر، بہاولپور، راجن پور اور رحیم یار خان میں سیلاب کے باعث ہائی الرٹ پر ہیں۔
مریم اورنگزیب نے بتایا کہ صوبے میں حالیہ سیلاب سے 20لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے ساڑھے 7لاکھ افراد اور 5لاکھ مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کیے گئے ہیں۔فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق دریائے چناب کے تریموں بیراج پر پانی کا بہائو 4لاکھ 55ہزار اکیاون کیوسک تک پہنچ گیا ہے اسی دوران دریائے راوی میں بلوکی ہیڈ ورکس اور دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا پر پانی کے بہا میں انتہائی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
این ڈی ایم اے نے پنجاب کے 6اضلاع میں ریلیف راشن کی فراہمی کا منصوبہ تیار کر لیا ہے اور 8ٹرکوں پر مشتمل قافلہ وزیرآباد اور حافظ آباد کے لیے روانہ کر دیا گیا ۔ہر راشن بیگ 46کلوگرام وزنی ہے اور 22اشیاء پر مشتمل ہے، ناروال اور سیالکوٹ میں سامان پہنچا دیا گیا جبکہ چنیوٹ اور جھنگ کے لیے آئندہ روز روانہ کیا جائے گا۔ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ پنجاب میں سیلاب کے باعث اب تک 33افراد جاں بحق اور 20لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 7لاکھ افراد متاثرہ علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیے جا چکے ہیں، ستلج میں قصور کے مقام پر پانی کم ہو رہا ہے جبکہ ہیڈ سلیمانکی پر پانی بڑھ رہا ہے اور شام تک پانی کی سطح عروج پر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پاکپتن، بہاولنگر اور وہاڑی میں پانی کی مقدار کل تک ایک لاکھ 35ہزار کیوسک پہنچ جائے گی جبکہ ستلج اور چناب کا پانی 2ستمبر کو ملے گا، دریائے ستلج اور راوی مزید دیہات کو متاثر کریں گے جبکہ دریائے چناب کا پانی مظفرگڑھ اور ملتان کو متاثر کرے گا۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی خصوصی ہدایات پر وائلڈ لائف رینجرز کا سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ہنگامی آپریشن جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق سیلاب زدہ اضلاع کے مختلف علاقوں میں اب تک مجموعی طور پر 8ہرنوں کو بچایا جا چکا ہے جن کا اب ویٹرنری کیمپوں میں معائنہ اور علاج کیا جا رہا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ سیالکوٹ میں 26اگست کو سرحد پار سے سیلابی پانی میں بہہ کر آنے والے ہرنوں کے ایک جوڑے کو بچا گیا۔ذرائع کے مطابق نارووال سے 27اگست کو ایک زخمی اور حاملہ ہرن کو بچایا گیا اور اسے طبی امداد فراہم کی گئی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ 27اگست کو شکر گڑھ سے ایک نابالغ ہرن کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔اس کے علاوہ 28اگست کو مریدکے، وزیر آباد اور منڈی بہائوالدین میں کیے گئے ریسکیو آپریشنز کے دوران 3نر اور 2مادہ ہرنوں کو بچایا گیا۔دوسری جانب وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کے حکم پر ملتان روڈ پر راوی کنارے فارم ہاس میں سیلابی پانی میں پھنسے 6شیروں کو کامیابی کے ساتھ ریسکیو کر لیا گیا۔
اس کامیاب آپریشن کی نگرانی سیکرٹری وائلڈ لائف مدثر ریاض نے کی جس میں طوفانی بارش اور پانی کے دبائو کے باوجود وائلڈ لائف رینجرز نے اپنی جانفشانی سے فرائض انجام دیئے۔سیلابی پانی میں پھنسے ان شیروں کو بچانے کا آپریشن انتہائی مشکل تھا، اس آپریشن میں چار کشتیاں اور ویٹرنری ڈاکٹرز نے حصہ لیا، وائلڈ لائف رینجرز نے نہ صرف شیروں کو بچایا بلکہ اس دوران انسانی جانوں کے خطرے کو بھی بروقت ٹال دیا۔
ریسکیو کئے گئے تمام شیروں کو فوری طور پر محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا جہاں ان کا میڈیکل چیک اپ شروع کر دیا گیا ہے، ان کی صحت کی مسلسل مانیٹرنگ کی جا رہی ہے تاکہ کوئی اور مشکل درپیش نہ آئے۔سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے وائلڈ لائف رینجرز اور وائلڈ لائف ریسکیو فورس کی مشترکہ کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ ایک قابل فخر آپریشن تھا جس میں ہمارے بہادر رینجرز نے طوفانی بارش میں بھی اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر شیروں کو بچایا، آپریشن کی کامیابی پر ہم وائلڈ لائف رینجرز اور ریسکیو فورس کو شاباش پیش کرتے ہیں۔
مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ جنگلی حیات کا تحفظ حکومت پنجاب کی اولین ترجیح ہے، ہم کسی جاندار کو مشکل میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور جنگلی حیات کو بچانا ہماری پہلی ترجیح ہے۔دوسری جانب وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر دریائے سندھ میں سپر فلڈ آیا تو کچے کا سارا علاقہ زیر آب آ جائے گا، اس صورتحال کے پیش نظر صوبائی حکومت نے کچے کے علاقے کو خالی کرانے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔
گڈو بیراج پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس وقت راوی اور تریموں کے مقامات پر پانی کی سطح بلند ہے، اگرچہ امید کی جا رہی ہے کہ پانی اتنی شدت کے ساتھ نہیں بڑھے گا لیکن حکومت نے 9 لاکھ کیوسک تک کے ممکنہ سپر فلڈ کے لیے پیشگی انتظامات شروع کر دیئے ہیں۔ادھر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم ای)نے اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں یکم سے 3ستمبر تک شدید موسلادھار بارش کا الرٹ جاری کر دیا۔
این ڈی ایم اے کے مطابق پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں متوقع بارش سے سیلابی صورتحال میں شدت آ سکتی ہے جس سے شمال مشرقی، وسطی اور جنوبی پنجاب کے اضلاع متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔الرٹ میں بتایا گیا ہے کہ مری، راولپنڈی، جہلم، اٹک، منڈی بہائوالدین، گجرات، گوجرانوالہ اور حافظ آباد میں شدید بارش کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جبکہ چنیوٹ، لاہور، سیالکوٹ، نارووال، شیخوپورہ، فیصل آباد، سرگودھا، بھکر، لیہ اور میانوالی میں بھی موسلادھار بارش کے نتیجے میں پانی کی سطح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
این ڈی ایم اے نے ڈیرہ غازی خان، ساہیوال، ملتان، بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یار خان میں بھی بارش اور سیلاب کے امکانات پر خبردار کیا ہے۔این ڈی ایم اے کے مطابق بالائی علاقوں میں ممکنہ شدید بارش اور دریائوں میں تیز بہا سے مرالہ ہیڈ ورکس پر پانی کی سطح میں اضافہ، سیلابی صورتحال اور ملحقہ علاقوں کے زیر آب آنے کا خطرہ ہے۔شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ نشیبی علاقوں اور ندی نالوں کے قریب الرٹ رہیں اور غیر ضروری سفر سے گریز کریں کیونکہ ندی نالوں میں اچانک پانی کے بہا میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
این ڈی ایم اے نے عوام اور متعلقہ اداروں کو حفاظتی اقدامات کرنے، خطرے والے علاقوں سے دور رہنے اور ممکنہ خطرات کے بارے میں بروقت آگاہ رہنے کی ہدایت کی ہے۔الرٹ میں کہا گیا ہے کہ تیز بہا کی صورت میں ندی نالوں، پلوں اور پانی میں ڈوبی سڑکوں سے گزرنے سے اجتناب کیا جائے اور مقامی انتظامیہ اور متعلقہ ادارے نشیبی علاقوں سے فوری نکاسی آب کے لیے مشینری اور پمپس تیار رکھیں۔
دوسری جانب گلگت بلتستان کے غذر میں برفانی گلیشیئر کے زیادہ پگھلنے کا الرٹ جاری کیا گیا ہے جہاں یاسین ویلی کے ڈارکوٹ سٹیشن پر درجہ حرارت 35ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔محکمہ موسمیات نے خبردار کیا کہ اس سے برفانی جھیلوں کے پھٹنے، نالوں اور چشموں میں اچانک سیلاب آنے اور نشیبی علاقوں کے زیر آب آنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔