اگست پاکستان میں دہشتگرد حملوں کے حوالے سے دہائی کا بدترین مہینہ رہا، جولائی کے مقابلے میںدہشتگردی میں 74فیصد اضافہ ریکارڈ

پیر 1 ستمبر 2025 20:45

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 ستمبر2025ء)اگست 2025ء پاکستان میں دہشتگرد حملوں کے حوالے سے دہائی کا بدترین مہینہ ثابت ہوا ، جولائی کے مقابلے میںدہشتگردوں کے حملوں میں 74فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق اگست 2025ء میں ملک میں عسکریت پسندی میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ جولائی کے مقابلے میں عسکری حملوں کی تعداد میں 74فیصد اضافہ ہوا۔

پی آئی سی ایس ایس کے مطابق 143دہشتگرد حملوں کے ساتھ اگست گزشتہ دہائی کا سب سے مہلک مہینہ بن گیا اور فروری 2014کے بعد سب سے زیادہ مہلک مہینہ ثابت ہوا۔تشدد کی اس لہر کے نتیجے میں 194افراد لقمہ اجل بنے جن میں 73سکیورٹی اہلکار، 62شہری، 58عسکریت پسند اور ایک سرکاری حمایت یافتہ امن کمیٹی کا رکن شامل ہے، اس دوران 231افراد زخمی ہوئے، جن میں 129 سکیورٹی، 92شہری، 8عسکریت پسند اور 2امن کمیٹی کے رکن شامل ہیں جبکہ عسکریت پسندوں نے کم از کم 10افراد کو اغوا ء بھی کیا۔

(جاری ہے)

ملک بھر میں سکیورٹی فورسز نے آپریشنز تیز کیے جس کے نتیجے میں کم از کم 100عسکریت پسند ہلاک اور 31گرفتار ہوئے تاہم ان کارروائیوں کے دوران 3شہری اور ایک سکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوا۔ملک بھر میں دہشتگردوں کے حملوں اور سکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں کم از کم 298افراد لقمہ اجل بنے جن میں 158عسکریت پسند، 74سکیورٹی اہلکار، 65 شہری اور ایک امن کمیٹی رکن شامل ہیں، زخمی ہونے والوں کی تعداد 250رہی جن میں 137سکیوڑٹی اہلکار، 100شہری، 11عسکریت پسند اور 2امن کمیٹی کے رکن شامل ہیں۔

پی آئی سی ایس ایس کے مطابق سکیوڑٹی فورسز کے شہید اور زخمی ہونے والے ارکان میں جولائی کے مقابلے میں بالترتیب 100فیصد اور 145فیصد اضافہ ہوا، عسکریت پسندوں کے ہلاک ہونے کی شرح 27فیصد اور شہری اموات میں 20فیصد اضافہ ہوا۔بلوچستان میں دہشتگردوں کے 28حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 52 افراد لقمہ اجل بنے جن میں 23سکیورٹی اہلکار، 21شہری اور 8عسکریت پسند شامل ہیں جبکہ 45افراد زخمی ہوئے، جن میں 23سکیورٹی اہلکار اور 22شہری شامل ہیں، عسکریت پسندوں نے کم از کم 5افراد کو اغوا کیا۔

سیکیورٹی فورسز نے 50عسکریت پسند ہلاک کیے، جو جون 2015کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔دریں اثنا، انٹیلی جنس بیورو نے اسلام آباد میں ایک اہم دہشتگرد حملے کی سازش ناکام بنائی اور ایک خودکش بمبار اور اس کے سہولت کار کو گرفتار کیا۔سب سے شدید تشدد قبائلی اضلاع میں ریکارڈ کیا گیا جہاں 51حملے ہوئے، جو 200فیصد اضافے کو ظاہر کرتے ہیں، ان حملوں میں 74افراد لقمہ اجل بنے جن میں 20سکیورٹی اہلکار، 12شہری، ایک امن کمیٹی رکن اور 41عسکریت پسند شامل ہیں، مزید 24عسکریت پسند سکیورٹی آپریشنز میں ہلاک ہوئے، زخمیوں کی تعداد 99تھی، جس میں 50سکیورٹی اہلکار، 41شہری، 6عسکریت پسند اور 2امن کمیٹی کے رکن شامل ہیں۔

55حملوں میں 56افراد ہلاک ہوئے جن میں 26سکیوڑٹی اہلکار، 22شہری اور 8عسکریت پسند شامل ہیں، زخمی ہونے والوں کی تعداد 81تھی جن میں 53سکیورٹی اہلکار اور 26شہری شامل ہیں، سکیورٹی فورسز نے 24عسکریت پسند ہلاک اور 16گرفتار کیے، مجموعی طور پر خیبرپختونخوا ہ میں 106حملے کیے گئے، جو گزشتہ 10سالوں میں سب سے زیادہ ہیں۔سندھ میں 6حملے ہوئے جس میں 8افراد ہلاک ہوئے جن میں 6 شہری اور 2سکیورٹی اہلکارشامل ہیں، کراچی میں سکیورٹی فورسز نے 11مشتبہ عسکریت پسند گرفتار کیے۔

پنجاب میں دو حملے ہوئے جن میں ڈیرہ غازی خان میں کالعدم تنظیم کا حملہ اور راولپنڈی میں ایک نوجوان عالم کا قتل شامل ہے جس میں ایک شہری اور ایک عسکریت پسند ہلاک ہوا۔گلگت بلتستان کے چلاس ضلع میں ٹی ٹی پی سے منسلک عسکریت پسندوں کے حملے میں 2سکیورٹی اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔