کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 ستمبر2025ء)پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ بھارت کی آبی دہشتگردی اور صوبائی حکومتوں کی غفلت نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، پنجاب میں لاکھوں لوگ متاثر ہیں مگر وزیراعلی پنجاب فوٹو سیشن میں مصروف ہیں، جبکہ سندھ حکومت سیلاب کو ایک اور کرپشن کا موقع سمجھ رہی ہے۔
وہ انصاف ہاس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، جس میں پی ٹی آئی رہنما جمال صدیقی، ایڈووکیٹ امان اللہ قاضی، ایم پی اے ساجید میر، ارسلان خالد، ذوالفقار ملاح، سیدہ آصیہ شاہ، ڈاکٹر جے پال چھابڑیا، مولانا جمیل اظہر وتھرا، فرخ جی خان، معظم خان، عائشہ رشید، محمد علی بلوچ، چیتن مل آروانی اور انور مہدی سمیت دیگر رہنما بھی شریک تھے۔
(جاری ہے)
حلیم عادل شیخ نے کہا کہ پنجاب سے آنے والا سیلابی ریلا ہیڈ سدھنائی اور محمد والا سے گزر کر پنجند پہنچ چکا ہے، جہاں سے یہ اگلے دو تین دنوں سندھ میں داخل ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ دس لاکھ کیوسک پانی سندھ کی حدود میں داخل ہوگا، اگر دس فیصد کمی بھی ہو تو گڈو بیراج پر نو لاکھ کیوسک پانی پہنچے گا، جو کندھکوٹ، کشمور، شکارپور، جیکب آباد، لاڑکانہ اور قمبر شہدادکوٹ سمیت کئی اضلاع کو متاثر کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ٹوڑھی بند ٹوٹا تھا جس سے شکارپور اور جیکب آباد کے علاقے متاثر ہوئے تھے، اسی طرح عاقل آگانی بند لاڑکانہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے جبکہ اگر کوہ سلیمانی پر مزید بارشیں پڑتی ہیں تو ایم این وی ڈرین قمبر شہدادکوٹ میں اوور فلو ہوگی۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے اب تک کوئی خیمہ بستی قائم نہیں کی، نہ عوام اور ان کے مویشیوں کو ریسکیو کرنے کے انتظامات ہیں۔
کروڑوں روپے فنڈز ڈپٹی کمشنروں کو جاری کیے گئے مگر ان کے استعمال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔پی ٹی آئی رہنما نے الزام عائد کیا کہ محکمہ ایریگیشن سندھ کو 2008 سے 2025 تک تقریبا 650 ارب روپے بجٹ ملا لیکن اس کے استعمال کا کوئی حساب نہیں، نہ ہی کسی قسم کی انکوائری کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اکانٹنٹ جنرل کی رپورٹ 2024-25 میں سندھ کے مختلف محکموں میں 836 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی، جو کرپشن کی واضح مثال ہے۔
انہوں نے کہا 17 برس سندھ حکومت کو 30789 ارب بجٹ ملا 17 برس میں 10950 ارب سے زائد بے ضابطگیاںحلیم عادل شیخ نے کہا خیبرپختونخواہ حکومت نے سیلابی صورتحال میں فوری اقدامات اٹھاتے ہوئے متاثرین کو بروقت ریلیف فراہم کیا۔ 15 اگست کو سیلاب آیا اور محض 6 گھنٹوں کے اندر صوبائی حکومت نے ریسکیو آپریشن شروع کر دیا۔ اگلے ہی روز 16 اگست کو 3 ارب روپے جاری کیے گئے۔
72 گھنٹوں کے اندر 390 جاں بحق افراد کے لواحقین کو 20 لاکھ روپے فی کس معاوضہ دینا شروع کر دیا گیا، جن میں سے 75 فیصد خاندانوں کو رقم مل چکی ہے۔ مجموعی طور پر 4 ارب روپے ریلیف پروگرام کے تحت جاری کر دیے گئے۔ 75 فیصد متاثرہ سڑکیں بھی کھول دی گئی ہیں۔ صوبائی حکومت نے فی گھر 10 لاکھ روپے معاوضہ دینا شروع کر دیا ہے جبکہ دکانداروں کو فی کس 5 لاکھ روپے دیے جا رہے ہیں۔
مویشیوں کے لیے چارہ پہنچا دیا گیا ہے اور جن کے لائیو اسٹاک یا گاڑیاں تباہ ہوئیں انہیں بھی معاوضہ دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد 21 لاکھ گھروں کی تعمیر کا اعلان کیا گیا تھا، وفاق نے 38 ارب روپے ہنگامی امداد اور متاثرہ خاندانوں کے لیے 25 ہزار روپے فی گھرانہ کا اعلان کیا، ورلڈ بینک نے 1.692 بلین ڈالر کی منظوری دی جن میں ہاسنگ، زراعت، صحت اور سماجی تحفظ کے منصوبے شامل تھے۔
لیکن آج تک نہ 21 لاکھ گھر تعمیر ہوئے، نہ ہی متاثرین تک امداد پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 118 جہازوں پر خوراک، خیمے اور طبی امداد پاکستان پہنچائی گئی تھی مگر عوام آج بھی بے خبر ہیں کہ وہ سامان کہاں گیا۔حلیم عادل شیخ نے کہا خیبرپختونخواہ حکومت نے سیلابی صورتحال میں فوری اقدامات اٹھاتے ہوئے متاثرین کو بروقت ریلیف فراہم کیا۔ 15 اگست کو سیلاب آیا اور محض 6 گھنٹوں کے اندر صوبائی حکومت نے ریسکیو آپریشن شروع کر دیا۔
اگلے ہی روز 16 اگست کو 3 ارب روپے جاری کیے گئے۔72 گھنٹوں کے اندر 390 جاں بحق افراد کے لواحقین کو 20 لاکھ روپے فی کس معاوضہ دینا شروع کر دیا گیا، جن میں سے 75 فیصد خاندانوں کو رقم مل چکی ہے۔ مجموعی طور پر 4 ارب روپے ریلیف پروگرام کے تحت جاری کر دیے گئے۔ 75 فیصد متاثرہ سڑکیں بھی کھول دی گئی ہیں۔ صوبائی حکومت نے فی گھر 10 لاکھ روپے معاوضہ دینا شروع کر دیا ہے جبکہ دکانداروں کو فی کس 5 لاکھ روپے دیے جا رہے ہیں۔
مویشیوں کے لیے چارہ پہنچا دیا گیا ہے اور جن کے لائیو اسٹاک یا گاڑیاں تباہ ہوئیں انہیں بھی معاوضہ دیا جائے گا۔حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سندھ حکومت کے وزرا صرف اس انتظار میں ہیں کہ سیلاب آئے گا تو بجٹ آئے گا اور کرپشن کریں گے۔ اگر فوری طور پر شفاف تحقیقات اور احتساب نہ ہوا تو سندھ مزید تباہی کا شکار ہوگا۔ سیلاب کی صورتحال انتہائی خراب ہوسکتی ہے سندھ کے شہروں کو سیلاب سے کم نہروں کو شگاف سے زیادہ خطرہ ہے کیوں کہ گزشتہ 17 سالوں میں نہ نہروں کی بھل صفائی ہوئی ہے نہ ہی پشتوں کو حقیقی معنوں میں مضبوط کیا گیا ہے صرف بجٹ ہڑک کیا گیا ہے۔
حلیم عادل شیخ نے اعلان کیا سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے پی ٹی آئی کی جانب سے ایمرجنسی روم قائم کر دیا ہے ہماری سندھ کی تنظیم سندھ کے شہروں میں موجود ہیں عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے اس مصیبت کی گھڑی میں سندھ کی عوام کو پیپلزپارٹی کے کرپٹ وزرا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے عوامن کی ہر ممکن مدد کریں گے۔کراچی کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے حلیم عادل شیخ نے کہا کہ شہر کراچی 97 فیصد سندھ کا روینیو پیدا کرتا ہے، عوام سہولیات سے محروم ہے، شہر کو کچرے کا قبرستان بنانے میں اصل کردار پیپلزپارٹی کا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ صرف تین سال میں 43 ارب روپے ہڑپ کیے گئے۔ شہر میں روزانہ 12 سے 16.5 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے لیکن صرف 9 ہزار ٹن ڈمپ کیا جاتا ہے، باقی 6 سے 8 ہزار ٹن شہر کی سڑکوں اور ساحلوں پر پھیل رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2023-24 میں 18 ارب اور 2024-25 میں مزید 12 ارب روپے خرچ کیے گئے، مگر شہر کی گلیاں آج بھی کچرے کے ڈھیر بنی ہوئی ہیں، جبکہ اب دوبارہ اربوں روپے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی سندھ کے صدر نے ملیر ایکسپریس وے جسے بعد میں شاہراہِ بھٹو کا نام دیا گیا کو 54 ارب روپے کے منصوبے میں ناقص مٹیریل استعمال کیا گیا جس کی وسے پہلی بارشوں میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کی لمبائی صرف 38.75 کلومیٹر ہے لیکن فی کلومیٹر لاگت 1.41 ارب روپے رکھی گئی جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں۔ ابھی منصوبہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ بارش کے پانی نے اربوں روپے کی لاگت سے بنی سڑک کو تباہ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 15 برسوں میں کراچی کو اس کے جائز حق 3360 ارب سے محروم رکھا گیا۔ اگر شہر کو صرف موجودہ سال کا 880 ارب روپے کا حصہ دیا جائے تو اس کے بیشتر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ان کے مطابق آبادی کے لحاظ سے کراچی کا حصہ 90 ارب روپے بنتا ہے، سندھ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 377 ارب، جی ایس ٹی شیئر میں 222 ارب اور آئی ڈی سی میں 200 ارب روپے کا حصہ ملنا چاہیے، مگر سندھ حکومت کراچی کے لیے محض 8 ارب روپے رکھتی ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔