Live Updates

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس، وزارت اطلاعات دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے ”بولو“ مہم شروع کر رہی ہے، وفاقی وزیر اطلاعات کا اجلاس میں اظہار خیال

بدھ 10 ستمبر 2025 23:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 ستمبر2025ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ وزارت اطلاعات دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے ”بولو“ مہم کا آغاز کر رہی ہے جس کا مقصد شہریوں کو اس ناسور کے خلاف آواز بلند کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ بدھ کو یہاں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز میں سینیٹر سید علی ظفر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ”بولو“ مہم کا مقصد شہریوں کو دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کے قابل بنانا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک اس وقت بڑی تبدیلیوں کے عمل سے گذر رہا ہے، دہشت گردی سے نمٹنے سے لے کر ٹیکس چوری کے سدباب کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ طویل عرصے سے کاروباری لین دین غیر رسمی طور پر ہاتھ سے لکھی پرچیوں پر درج کیا جاتا رہا ہے۔ اس رجحان کے خاتمے کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے عوامی آگاہی مہم شروع کرنے کے ساتھ ساتھ دو صفحات پر مشتمل سادہ ٹیکس ریٹرن فارم متعارف کرایا ہے تاکہ ٹیکس نظام کو سہل بنایا جا سکے جس کا مقصد مالی لین دین کی باضابطہ دستاویزات کو فروغ دیتے ہوئے شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) میں ریونیو بڑھانے کے لئے اصلاحات جاری ہیں جن میں ایشیاء کپ جیسے بڑے ایونٹس کی براہ راست نشریات شامل ہیں تاکہ دور دراز علاقوں میں ناظرین کو نشریات تک رسائی یقینی بنائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ فنانس ڈویژن سے گرانٹس کے بعد مالی مشکلات میں کمی آئی ہے اور تنخواہوں و واجبات کی ادائیگی ممکن ہو سکی ہے تاہم وزیراعظم نے ریونیو میں مزید اضافے کی ہدایت کی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاور ڈویژن کی سفارشات پر بجلی کے بلوں میں وصول کی جانے والی 35 روپے ٹی وی فیس ختم کر دی گئی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر بی بی سی کے لائسنسنگ ماڈل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں عوامی نشریاتی اداروں کی معاونت کے لئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کے اینکرز میرٹ پر تعینات کئے جاتے ہیں اور انہیں اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو مدعو کرنے کی آزادی حاصل ہے۔

وفاقی وزیر نے تجویز پیش کی کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے تحت ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے جو الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کی ملازمتوں کے تحفظ اور واجبات کی ادائیگی سے متعلق موجودہ قوانین کا جائزہ لے۔ مجوزہ ذیلی کمیٹی موجودہ قانون سازی میں پائی جانے والی خامیوں کا جائزہ لے گی اور صحافتی تنظیموں سے مشاورت کے بعد جامع اصلاحات کی سفارش کرے گی۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے اس بات پر زور دیا کہ ایک مضبوط قانونی فریم ورک ناگزیر ہے تاکہ الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کو بلا جواز برطرفی سے بچایا جا سکے اور ان کے واجبات کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جا سکے۔ کمیٹی نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) پر عمل درآمد کا جائزہ لیا۔ سینیٹر سید علی ظفر نے صوبائی حکام کی جانب سے پیکا ایکٹ کے تحت درج 378 مقدمات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری واپس لینے کی ہدایت کی اور کہا کہ کسی بھی شہری کے خلاف غیر قانونی کارروائی نہیں ہونی چاہئے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر نے تجویز دی کہ صوبائی اتھارٹیز کی جانب سے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) کے تحت غیر مجاز مقدمات کے اندراج کے معاملے کا جائزہ لینے کے لئے ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ انہوں نے اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کے باہمی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ کمیٹی نے تعمیل کو یقینی بنانے کے لئے ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔

سینیٹر علی ظفر نے زور دیا کہ پیکا قانون کو صحافیوں یا عوام کے خلاف سنسر شپ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”ریاست مخالف“ کی کیٹیگری میں درج سینکڑوں مقدمات میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کون سے واقعی قومی سلامتی سے متعلق ہیں اور کون سے محض سنسر شپ کے زمرے میں آتے ہیں۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر کوئی شخص جرم کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہئے اور اسے سزا ملنی چاہئے لیکن اگر حکومتی پالیسیوں پر تنقید مثلاً سیلاب کے ناکافی اقدامات کی نشاندہی کو پیکا کے تحت جرم قرار دیا جائے تو یہ قانون کا غلط استعمال ہوگا۔ وزارت داخلہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اب تک درج ہونے والے کسی بھی مقدمے کا تعلق ریاست مخالف سرگرمیوں سے نہیں ہے بلکہ یہ نفرت انگیز جرائم جن میں اشتعال انگیزی اور فرقہ وارانہ تشدد شامل ہیں، سے متعلق ہیں۔

سینیٹر علی ظفر نے زور دیا کہ قومی سلامتی کے تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کے مابین محتاط توازن برقرار رکھنا ناگزیر ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ صحافی جمہوریت کا چوتھا ستون ہیں، ہم سب کا مقصد جمہوریت کو آگے بڑھانا ہے لیکن سوالات کو بھی اخلاقی دائرے میں رہنا چاہئے، بعض اوقات ہمیں پہلے سے طے شدہ سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کمیٹی نے طارق علی ورک کے معاملے پر بھی غور کیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے ارکان کو بتایا کہ واقعہ میں ملوث افسر کو معطل کر دیا گیا ہے جبکہ آر پی او راولپنڈی نے پریس کلب میں صحافیوں سے ملاقات کر کے معاملہ حل کیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے نمٹا دیا گیا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین نے سفارش کی کہ ایک کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دی جائے جو صحافیوں کے تمام مسائل اور شکایات کا ازالہ کرے۔

کمیٹی نے پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمات کی تفصیلات کا جائزہ لیا۔ حکام نے بتایا کہ اسلام آباد میں 19 مقدمات درج کئے گئے جس سے کوئی بھی صحافی شامل نہیں ہے۔ حالیہ ترامیم کے بعد صوبوں کو پیکا مقدمات درج کرنے سے روک دیا گیا ہے اور اس نوعیت کے تمام کیسز وفاقی دائرہ اختیار میں منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔ نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک بھر میں 1214 مقدمات درج کئے گئے جن میں 10 صحافیوں کے خلاف، 611 مالیاتی فراڈ سے متعلق ہیں جبکہ 320 ہراسانی کے کیسز شامل ہیں۔

اسلام آباد میں درج 19 مقدمات میں کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ کمیٹی نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے بعد صوبوں میں غیر قانونی طور پر درج مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا اور سفارش کی کہ ایسے تمام مقدمات واپس لئے جائیں جو غیر مجاز اتھارٹیز نے درج کئے ہوں۔ کمیٹی نے اس مسئلے کے حل کے لئے ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا۔ سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے ایک مالیاتی فراڈ کی نشاندہی کی کہ قومی اسمبلی کے 9 ارکان کو ان کے نام کا غلط استعمال کرتے ہوئے جعلسازوں نے نشانہ بنایا ہے، ارکان سے میرے نام پر پیسے مانگے جا رہے تھے جس پر این سی سی آئی اے کے حکام نے تصدیق کی کہ سینیٹر عرفان الحق صدیقی کے کیس میں 13 لاکھ روپے برآمد کرلئے گئے ہیں، چار گرفتاریاں عمل میں آ چکی ہیں اور مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لئے کوششیں جاری ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صرف پانچ ماہ میں واٹس ایپ ہیکنگ کے کیسز میں ایک کروڑ روپے کی ریکوری کی گئی ہے۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ کابینہ نے سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قواعد کی منظوری دے دی ہے اور عملے کی بھرتی کے اشتہارات جلد جاری کئے جائیں گے۔ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں وفاقی حکومت کے اشتہارات کے اخراجات کی تفصیلی اعداد و شمار طلب کئے جو 5 مارچ 2024ء سے اب تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جاری کئے گئے ہیں۔

قبل ازیں کمیٹی نے سینیٹر افنان اللہ کی جانب سے پیش کئے گئے موشن پکچر (ترمیمی) بل 2025ء پر غور آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔ اجلاس میں سینیٹرز سرمد علی، عرفان الحق صدیقی، پرویز رشید، عبدالشکور خان، جان محمد، سید وقار مہدی اور فیصل جاوید نے شرکت کی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔
Live سیلاب کی تباہ کاریاں سے متعلق تازہ ترین معلومات