مل کر کام کرنے کے لیے کرپشن ختم ،اختیارات و وسائل نچلی سطح پر منتقل ، یونین کمیٹیوں کو بااختیار بنائیں ،سیف الدین ایڈوکیٹ

مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی کے ٹاؤنز کی تنخواہوں کا حساب مانگنے کے بجائے اپنی کارکردگی ، کے ایم سی کے ایک کھرب کا حساب پیش کریں ،بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ کراچی میں ’’شہباز اسپیڈ‘‘ پر کام کریں، یہ وزیر اعلیٰ سندھ اور میئرپر اعلانیہ عدم اعتماد ہے ،پریس بریفنگ مرتضی وہاب کراچی کے پارکوں اور سرکاری اثاثوں کی بندر بانٹ ، مسائل کے حل کے میں ناکامی کے بعد جھوٹ کے پیچھے چھپ رہے ہیں ،میئر کے جماعت پر الزامات نرے جھوٹ ھیں ہر جھوٹ بے نقاب ھو چکا ھے،اپوزیشن لیڈر کے ایم سی

جمعہ 26 ستمبر 2025 21:20

-کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 ستمبر2025ء)اپوزیشن لیڈر کے ایم سی اور نائب امیر جماعت اسلامی کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ نے اپوزیشن لیڈر کے دفتر واقع کے ایم سی بلڈنگ میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ قابض میئر مرتضیٰ وہاب نے کراچی کو ’’انٹرنیشنل یتیم خانہ‘‘ بنادیا ہے۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ ’’آئیے مل کر کام کریں‘‘،قابض میئر کا ’’مل کر کام کرنے‘‘ کا مطلب دراصل کرپشن میں شراکت ہے اور جماعت اسلامی کرپشن میں کسی طور شریک نہیں ہوسکتی۔

ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ مل کر کام کرنے کے لیے سب سے پہلے کرپشن روکنا، اختیارات و وسائل یو سی اور ٹاؤن کی سطح پر منتقل کرنا ہوں گے، یونین کمیٹیوں کو بااختیار بنانا ہوگا اور سب کو شہر کا برابر کا حصہ سمجھنا ہوگا۔

(جاری ہے)

مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی کے ٹاؤنز کی تنخواہوں کا حساب مانگنے کے بجائے اپنی کارکردگی اور کے ایم سی کے ایک کھرب کا حساب پیش کریں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ پیپلز پارٹی کی میئرشپ میں صرف دو سال کے دوران ایک کھرب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے مگر آج تک نہ یہ پیسے لگتے نظر آئے نہ اس کا حساب عوام کو دیا گیا۔کراچی کے بلدیاتی مسائل بدترین صورت اختیار کرچکے ہیں لیکن سندھ حکومت اور قابض میئر مسائل کے حل کے بجائے مزید اضافہ کرر ہے ہیں پیپلز پارٹی مسئلہ کا حل نہیں خود ایک مسئلہ ہے۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ وزیر اعطم پاکستان شہباز شریف کراچی میں ’’شہباز اسپیڈ‘‘ پر کام کریں، المیہ یہ ہے کہ بلاول کا یہ کہنا وزیر اعلیٰ سندھ میئرپر عدم اعتماد کا اعلان ہے جس پر انہیں استعفی دے دینا چاہئیے۔ کراچی کی صورتحال یہ ہے کہ شہر کی گلی گلی میں ناجائز تعمیرات جاری ہیں اور کوئی انہیں روکنے والا نہیں۔

بلڈر مافیا کھلے عام یہ کہتی ہے کہ انہوں نے ’’سسٹم‘‘ کو پیسے دیے ہیں، اس لیے کوئی ان کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتا۔انہوں نے کہا کہ مرتضیٰ وہاب نے این او سی کا جواز بنا کر گرین لائن منصوبہ رکوا دیا، کرپشن کو نہیں رکواتے ، قبضہ نہیں رکواتے، بلڈر مافیا کی کاروائی منشیات کے اڈے نہیں رکواتے لیکن کام شروع ہونے کے ڈھائی مہینے بعد جب سڑکوں کی کھدائی ہوچکی تھی تو کام بند کروادیا۔

روڈ کٹنگ کی تعمیر کے بارے میں انہوں سوئی گیس کا لیٹر دکھایا جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ اکتوبر تک وہ کام مکمل کریں گے چنانچہ جماعت کے ٹاؤنز فوری سڑکوں کی مرمت شروع کر دیں گے۔سیف الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ مرتضیٰ وہاب نیو کراچی ٹاؤن کے حوالے سے جھوٹ بول رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ سوئی گیس نے ساڑھے تین ارب نہیں بلکہ ایک ارب 99 کروڑ روپے دیے۔

واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایکٹ کے مطابق اس کے چیئرمین میئر کراچی ہیں، اس لیے گٹروں کے اُبلنے، لائنوں کے بیٹھنے اور پانی کی عدم فراہمی کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں اور سوئپنگ کے ٹھیکے ڈالرز میں دیئے گئے وہ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ کے چئیرمین ہیں لہذا کہیں بھی کچرا ہوتو وہی ذمہ دار ہیں۔ مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ سندھ حکومت نے دو سال میں نالوں کی صفائی کے لئیے ایک ارب روپے دئیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ بارش میں پورا شہر ڈوب گیا۔

یہ شہر کو میٹروپولیٹن سٹی بنانے کے بجائے مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔کراچی کے قیمتی اثاثوں کی بندر بانٹ کر رہے ہیں، پارکس اور کے آئی ایچ ڈی نرسنگ کالج اور ہاسٹل کی عمارتیں کمرشل استعمال کے لئے معمولی کرائے پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر تمام قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پرائیوٹ لوگوں کے حوالے کر دیں۔مرتضیٰ وہاب بیرسٹر ہونے کے باوجود خود قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہے ہیں۔

عدالت نے واضح فیصلہ دیا ہے کہ پارکس نہ تو کرائے پر دیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی وہاں پلے گراؤنڈ بنایا جاسکتا ہے، لیکن اب بھی قبضہ مافیا پارکس میں موجود ہے۔ مرتضیٰ وہاب غلط بیانی کے ذریعے یہ تاثر دیتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے ان اقدامات کی حمایت کی، حالانکہ کمیٹی کی رپورٹ میں جماعت نے مخالفت کی تھی۔سیف الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ کے آئی ایچ ڈی کے احاطے میں قائم نرسنگ اسکول کو قابض میئر نے ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ کرائے پر دے دیا ہے۔

معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ یہ ایگریمنٹ دس سال کا ہوگا اور عمارت کو کمرشل استعمال میں لایا جاسکے گا، لیکن اس معاہدے کو نہ سٹی کونسل میں لایا گیا اور نہ ہی اخبارات میں اس کی بولی طلب کی گئی۔ اسی طرح کے ایم ڈی سی جو کے ایم سی کی میڈیکل یونیورسٹی تھی، اس کے لیے بجٹ میں کوئی رقم نہیں رکھی گئی۔ عباسی شہید اسپتال کے اندر میڈیکل اسٹورز قائم کردیے گئے ہیں، یہ تو چلے جائیں گے مگر اداروں کی بحالی کون کرے گا انہوں نے کہا کہ مرتضیٰ وہاب مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کے ٹاؤنز میں پارکس کرائے پر چلائے جارہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے ٹاؤنز میں کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کا عمل پہلے ہی شروع کردیا تھا۔ ابھی بھی جہاں کچھ سرگرمیاں باقی ہیں وہ ایک سیاسی جماعت کی حمایت سے جاری ہیں لیکن اب انہیں خالی کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ قوانین کے مطابق ہر ماہ سٹی کونسل کا اجلاس ہونا چاہیے لیکن مرتضیٰ وہاب اس روایت کو نظرانداز کررہے ہیں۔

ایم یو ٹی سی میں اضافے کے خلاف ہم عدالت گئے ہیں، لیکن کمرشل پراپرٹیز پر اضافہ خاموشی سے کردیا گیا ہے۔ اب فی کس 750 روپے لیے جارہے ہیں اور نہ عدالت کو بتایا گیا اور نہ ہی کونسل کو اعتماد میں لیا گیا۔ اسی طرح 400 کروڑ روپے کے کلک کے ٹھیکے دیے گئے، 2022 کی بارشوں کے بعد کوئی نیا ٹینڈر پاس نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ قوانین کے تحت ہر معاہدہ سٹی کونسل میں منظوری کے لیے لانا لازمی ہے لیکن ایسا نہیں کیا جارہا۔

ایمپریس مارکیٹ میں پیور بلاک لگانے کا 9 کروڑ کا ٹھیکہ بھی اسی انداز میں دیا گیا۔ مرتضیٰ وہاب نے سٹی کونسل میں بڑے بڑے وعدے کیے لیکن کوئی پورا نہیں کیا۔ یونین کمیٹیوں میں برابری کی بنیاد پر کام کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر آج تک ہمارے تمام منصوبے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اے ڈی پی کی اسکیمیں دھوکہ ہیں، پی آئی ڈی سی ایل کے بے شمار منصوبے فراڈ نکلے۔

ایم کیو ایم والے وفاقی حکومت کے کام بھی پی آئی ڈی سی ایل کے ذریعے کرانا چاہتے ہیں، حالانکہ عدالت نے واضح کہا تھا کہ یہ تمام کام مقامی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہنعمت اللہ خان کے دور میں سٹی کونسل کی اجازت سے صرف 25 سڑکوں کی کمرشلائزیشن کی گئی تھی اور اس وقت پیپلز پارٹی کے نمائندے نجمی عالم سمیت دیگر رہنما اس فیصلے کی تائید میں شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ حب کینال کے معاملے پر بھی عوام کو دھوکہ دیا گیا ہے۔ سیوریج بورڈ کی جانب سے 1.6 بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا لیکن کوئی عملی کام سامنے نہیں آیا۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی کے میئر کے منصب پر ایک غیر سنجیدہ شخص کو بٹھایا گیا ہے جو عوامی مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں۔پی آئی ڈی سی ایل کو کراچی میں صرف بڑے منصوبے بنانے چاہئیں، نہ کہ گلی محلوں کے چھوٹے کام۔ لیکن افسوس کہ موجودہ میئر ہر ادارے کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔