اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان محمد بلند اختر رانا کو سکیورٹی مہیاء کرنے اور وزارت خزانہ کو ان کے کام میں مداخلت کرنے سے روک دیا،عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیا، پندرہ دنوں میں جواب طلب کرلیا

ہفتہ 19 جولائی 2014 07:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19جولائی۔2014ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان محمد بلند اختر رانا کو سکیورٹی مہیاء کرنے اور وزارت خزانہ کو ان کے کام میں مداخلت کرنے سے روک دیا ہے‘ سماعت کے دوران جسٹس نورالحق این قریشی نے وفاق کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان طارق محمود کھوکھر سے استفسار کیا کہ رٹ پٹیشن میں سنجیدہ الزامات لگائے گئے ہیں‘ حکومت درخواست گزار کو سکیورٹی مہیاء نہیں کرسکتی‘ وفاق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کی جانب سے غیر سنجیدہ اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں‘ ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے‘ عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پندرہ دنوں میں جواب طلب کرلیا۔

جمعہ کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان محمد بلند اختر رانا کیس کی سماعت ہوئی۔

(جاری ہے)

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نورالحق این قریشی پر مشتمل سنگل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

درخواست گزار کے وکیل سعید خورشید احمد عدالت میں پیش ہوئے جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان طارق محمود کھوکھر‘ ڈپٹی اٹارنی جنرل بیرسٹر جہانگیر جدون عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا عہدہ آئینی ہوتا ہے۔ وزارت خزانہ‘ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ و دیگر ادارے ان کے انتظامی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرسکتے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا کام عوام کے پیسے کی نگرانی کرنا ہے اور اسے غلط استعمال ہونے سے روکنا ہے۔ فاضل وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تقرری ایک مخصوص مدت کیلئے ہوتی ہے جس طرح سپریم کورٹ‘ الیکشن کمیشن آئینی ادارے ہیں اسی طرح اے جی پی آر بھی ایک آئینی ادارہ ہے۔

سماعت کے دوران فاضل جج نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو حکومت کی جانب سے کوئی نوٹس جاری ہوا۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل کو سکیورٹی نہیں دی جارہی بلکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار‘ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن و دیگر فریقین کی جانب سے کام میں مداخلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فاضل وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس اور ایف آئی اے کیساتھ مل کر حکومت آڈیٹر جنرل آف پاکستان کیساتھ مختلف مقدمات تیار کررہی ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی مرضی کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنی تنخواہ میں اضافہ کردیاہے جس کے تحت انہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی پیش ہونا پڑا۔ فاضل وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس گریڈ 20 کی آفیسر فرح ترین کو تمام اختیارات دئیے جارہے ہیں اور حکومت درخواست گزار کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے عہدے سے ہٹاکر فرح ترین کی تقرری کرنا چاہتی ہے۔

فاضل وکیل نے بتایا کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس کیخلاف باقاعدہ انکوائریاں ہورہی ہیں اور چارج شیٹ بھی تیار ہوچکی ہے لیکن حکومت کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے تحت آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو بے اختیار بنایا جارہا ہے۔ وزارت خزانہ عوام کے اے جی پی آر کے ادارے کوذاتی استعمال کرنا چاہتی ہے۔ فاضل وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے اگر حکومت کی جانب سے اس عہدے کا اس طرح سے حشر کیا جائے گا کہ ان کے آئینی اختیارات ختم کردئیے جائیں گے۔

من پسند افراد کو اس عہدے پر لگایا جائے گاتو ملک میں کرپشن کیسے ختم ہوگی۔ جس ادارے نے عوامی پیسے کی حفاظت کرنی ہے اور جسے احتساب کیلئے بنایا گیا ہے تو اس کا اس طرح حشر کیا جائے گا اس طرح تو چالیس سال میں بھی کرپشن ختم نہیں ہوگی۔ سماعت کے دوران فاضل جج نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ درخواست گزار کی جانب سے سنجیدہ الزامات لگائے گئے ہیں وفاق کا اس سلسلے میں کیا موقف ہے۔

وفاق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کی جانب سے الزامات میں کوئی سچائی نہیں۔ الزامات حقائق کے برعکس ہیں جن کی ہم تردید کرتے ہیں۔ جسٹس نورالحق این قریشی نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ درخواست گزار کے الزامات میں سچائی ثابت ہوتی ہے۔ حکومت انہیں سکیورٹی کیوں مہیاء نہیں کرسکتی۔ آئین کے تحت سکیورٹی مہیاء کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو سکیورٹی مہیاء کرنے اور ان کے انتظامی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے روکنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ‘ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ‘ سیکرٹری خزانہ‘ مشیر خزانہ‘ کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس وغیرہ تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پندرہ دنوں میں جواب طلب کرلیا اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :