سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس، سندھ و اٹر سیکٹر کی بہتری کیلئے اکتوبر2007 میں ورلڈ بنک کے تعاون سے منصوبوں کی منظوری،175 ملین ڈالر قرضہ کے حصول اور عملی طور پر کچھ خاص کام نہ ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار

ہفتہ 19 جولائی 2014 07:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19جولائی۔2014ء )سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و شماریات و معاشی امور کے اراکین نے سندھ میں و اٹر سیکٹر کی بہتری کیلئے اکتوبر2007 میں ورلڈ بنک کی مدد سے منصوبوں کی منظوری، منصوبوں کیلئے 175 ملین ڈالر قرضہ کے حصول اور عملی طور پر کچھ خاص کام نہ ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی سے اصرار کیا ہے کہ ان منصوبوں پر عملدرآمد کی عملی رپورٹ طلب کی جائے کیونکہ عملی طور پر صوبہ سندھ میں چھوٹے نالے ،کھالے ،اور ٹینک کچھ بھی نہیں بنایا گیا ، منصوبے صرف کاغذات کی حد تک محدود ہیں ، اراکین کمیٹی نے بیرون ممالک قرضوں سے شروع کیے جانے منصوبوں کی بہتر مانیٹرنگ سسٹم قائم کرنے کی سفارش کر دی۔

اراکین نے زور دیا کہ کمیٹی ملک کے چاروں صوبوں سے بیرون ممالک سے حاصل کیے جانے والے قرضوں کی مدد سے جاری و مکمل منصوبوں کی رپورٹ اور پی سی ۔

(جاری ہے)

4 طلب کرے تاکہ حقیقت میں پتہ چلے کہ کتنے منصوبوں پر کام ہوا او رکتنے باقی ہیں اور آئندہ اجلاس میں پلاننگ ڈویژن کو بھی بلایا جائے تاکہ تمام مسائل حل کیے جا سکیں۔ سیکریٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے آپریشن ضرب عضب کے متاثرین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی کیلئے اب تک6ارب روپے وزارت سیفران کو فراہم کر دیے ہیں 3 ارب روپے نقد اور 3ارب روپے کی گندم فراہم کر دی گئی ہے تاکہ متاثرین کو مشکلات کا سامنا نہ کرنے پڑ ے ۔

جمعہ کے روز قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا جس میں سینیٹرا سلام الدین شیخ ، کلثوم پروین اور سردار فتح محمد محمد حسنی کے علاوہ سیکریٹری خزانہ وقار مسعود ،سیکریٹری اکنامک افیئرز ڈویژن سلیم سیٹھی اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں زرعی شعبے کے فروغ کیلئے ورلڈ بنک سے منظور شدہ مختلف سکیموں کیلئے قرضوں کی تفصیلات کا جائزہ لیا گیا ۔

سیکرٹر ی اقتصادی امور سلیم سیٹھی نے کمیٹی کو بتایا کہ ورلڈ بنک سے زرعی شعبے کے فروغ کیلئے چار منصوبوں کیلئے قرضہ حاصل کیے گئے ہیں تین منصوبوں پر کام جاری ہے اور چوتھا ابھی پائیپ لائن میں ہے پنجاب میں آبپاشی کے نظام میں بہتری کیلئے 423 ملین ڈالر کا منصوبہ اگست 2012 سے شروع ہو ا جو دسمبر 2018 کو مکمل ہو گا اور اس منصوبے پر اب تک 87.2ملین ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں ۔

بلوچستان میں آبپاشی کے بہتر نظام کیلئے چھوٹے منصوبوں کیلئے 15 سوملین روپے کے منصوبے ایکنک نے اکتوبر 2007 میں شروع کیے تھے جو دسمبر 2014 میں مکمل ہو نگے بند خوشدل خان ڈیم میں پانی جمع کرنے کی گنجائش کو بڑھانے ،چھوٹے پیمانے پر آبپاشی کی سیکموں اور اداروں کی استطاعت میں بہتری لانے کے منصوبے شامل ہیں اور ابھی تک ان پر 22 ملین ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں ۔

سندھ میں و اٹر سیکٹر کی بہتری کیلئے اکتوبر2007 میں ورلڈ بنک کی مدد سے منصوبے منظور ہوئے اور دسمبر 2007 میں کام شروع ہوا ان منصوبوں کیلئے 175 ملین ڈالر کا قرضہ حا صل کیا گیا منصوبوں کا مقصد گھو ٹکی اور نارا کنال سسٹم میں بہتری لا کر صوبہ سندھ میں پانی کی تقسیم کو زیادہ موثر اور آبپاشی کے بہتر نظام کیلئے چھوٹے نالے ٹینک اور نہریں بناناشامل ہیں جس پرارکین کمیٹی نے ان منصوبوں پر عمل درآمد کے حوالے سے تحفظات کا اظہارکیا رکن کمیٹی سینیٹر اسلام االدین شیخ نے کہا کہ صوبہ سندھ میں نہ ہی چھوٹے نالے ،کھالے ،اور ٹینک بنائے گئے ہیں انہوں نے تجویز دی کہ کمیٹی متعلقہ ادروں سے ان منصوبوں پر عمل درآمد کی رپورٹ طلب کرے اور ان منصوبوں کی جگہوں کا دورہ بھی کرے ۔

سینیٹر ز کلثوم پروین اور سردار فتح محمد محمد حسنی نے کہا کہ بلوچستان کے علاقہ پشین میں بہت زیادہ برف پڑتی ہے اور برف پگھلنے سے جو پانی حاصل ہوتا ا سے جمع کر لیا جائے تو بہت سے علاقوں کے پانی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔اور بند خوشدل خان ڈیم تو مٹی سے بھر چکا ہے اور اس کیلئے جو فنڈ حاصل کیے گئے ہیں وہ صرف مٹی نکالنے پر خرچ ہو جائیں گے گنجائش نہیں بڑھائی جاسکتی ۔

انہوں نے تجویز دی کہ یہ کمیٹی ملک کے چاروں صوبوں سے بیرون ممالک سے حاصل کیے جانے والے قرضوں کی مدد سے جاری و مکمل منصوبوں کی رپورٹ اور پی سی ۔4 طلب کرے تاکہ حقیقت میں پتہ چلے کہ کتنے منصوبوں پر کام ہوا او رکتنے باقی ہیں اور آئندہ اجلاس میں پلاننگ ڈویژن کو بھی بلایا جائے تاکہ تمام مسائل حل کیے جا سکیں ۔ چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر وقارمسعود نے کمیٹی کو بتایا کہ آئین کے مطابق صوبوں کو اپنے وسائل خود استعمال کرنے کا حق حاصل ہے مقامی وسائل میں وفاقی حکومت مداخلت نہیں کر تی ۔

بیرون ممالک قرضے حاصل کرنے کیلئے صوبے ڈائریکٹ قرضہ حاصل نہیں کر سکتے وفاقی حکومت سے این او سی حاصل کرنے کے بعد قرضہ حاصل کیا جاسکتا ہے وفاقی حکومت صرف پل کا کردار ادا کر تی ہے بیرون ممالک سے حاصل ہونے والا صوبوں کا قرضہ صوبوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور قرضے کے واپسی بھی وفاقی حکومت کے ذریعے ہی ہوتی ہے قرضہ وفاقی حکومت کی گارنٹی پر ملتا ہے انہوں نے کہا کہ بیرونی قرضوں سے شروع ہونے والے منصوبوں کی مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے اور مزید بہتر نگرانی کاسسٹم قائم کر کے عمل دارآمد میں بہتری لا ئی جا سکتی ہے اراکین کمیٹی نے بیرون ممالک قرضوں سے شروع کیے جانے منصوبوں کی بہتر مانیٹرنگ سسٹم قائم کرنے کی سفارش کر دی ۔

رکن کمیٹی اسلام الدین شیخ کے سوال پر سیکرٹری خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ وزیراعظم پاکستان نے خصوصی ہدایت جاری کی ہے کہ متاثرین اپریشن کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں اوراس مقصد کیلئے وفاقی حکومت نے چھ ارب روپے جن میں سے تین ارب روپے نقد اور تین ارب روپے کی گندم شامل ہے وزارت سفیران کے حوالے کر دی گئی ہے تاکہ متاثرین اپریشن کی مشکلات کو کم سے کم کیا جاسکے ۔

اجلاس کے دوران وفاقی سیکریٹری خزانہ وقار مسعود نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و شماریات و معاشی امور کو بتایا کہ حکومت آپریشن ضرب عضب کے متاثرین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات کر رہی ہے اور اس مقصد کیلئے اب تک6ارب روپے وزارت سیفران کو فراہم کر دیے ہیں 3 ارب روپے نقد اور 3ارب روپے کی گندم فراہم کر دی گئی ہے تاکہ متاثرین کو مشکلات کا سامنا نہ کرنے پڑ ے ۔

آئین کے مطابق صوبوں کو اپنے وسائل خود استعمال کرنے کا حق حاصل ہے مقامی وسائل میں وفاقی حکومت مداخلت نہیں کر تی ۔بیرون ممالک قرضے حاصل کرنے کیلئے صوبے ڈائریکٹ قرضہ حاصل نہیں کر سکتے وفاقی حکومت سے این او سی حاصل کرنے کے بعد قرضہ حاصل کیا جاسکتا ہے وفاقی حکومت صرف پل کا کردار ادا کر تی ہے بیرون ممالک سے حاصل ہونے والا صوبوں کا قرضہ صوبوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور قرضے کے واپسی بھی وفاقی حکومت کے ذریعے ہی ہوتی ہے قرضہ وفاقی حکومت کی گارنٹی پر ملتا ہے ۔

متعلقہ عنوان :