داعش جہاد کے نام پر فساد پھیلا رہی ہے: علماء،دنیا کے 126 ممتاز علماء نے داعش کی خلافت مسترد کر دی

ہفتہ 27 ستمبر 2014 07:48

ریاض(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27ستمبر۔2014ء)اسلامی دْنیا میں خلافت علی منہاج النبوہ کی دعویدار تنظیم دولت اسلامی“داعش” کو جہاں عالمی برادری کی جانب سے جنگ کا سامنا ہے وہیں اسے اعتدال پسند اسلامی دنیا کے جید علمائے کرام کی جانب سے بھی کسی قسم کی حمایت نہیں مل سکی ہے۔ اہل سنت والجماعت مسلک کے 126 جید علمائے کرام نے اپنے ایک متفقہ اور مشترکہ پیغام میں داعش کا فلسفہ جہاد وخلافت مستر کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعش جہاد کے نام پر دنیا میں فتنہ وفساد پھیلا رہی ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق سعودی عرب اور اسلامی دنیا کے سوا سو ممتاز علمائے کرام کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں داعش کے سربراہ ابراہیم عواد البدری المعروف ابوبکر البغدادی کے نام پیغام میں کہا ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے اپنے مخصوص خیالات اور نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کا راستہ ترک کریں کیونکہ تلوار کے ذریعے غصے اور رحمت وشفقت میں مساوات قائم نہیں کی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے رحمت کو لازم کیا ہے اور آپ تلوار کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صرف طاقت کے ذریعے اسلام غالب کیا جاسکتا ہے۔ طاقت کے استعمال کا فلسفہ امن وآشتی کے پیغام دینے والے اسلام کی پہچان ہر گز نہیں ہے۔علمائے کرام نے داعش کی طریقہ جہاد کی کھلی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعش کے جنگجو ایک جانب اہل سنت والجماعت کی پیروی کے دعوے دار ہیں اور دوسری جانب اسی مسلک کی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

علماء نے اپنے پیغام میں قرآن سنت کی روشنی میں داعش کا فلسفہ جہاد اور خلافت مسترد کیا اور کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا جواز کسی کے خلاف اعلان جنگ کرنے اور تلوار اٹھانے کا حکم نہیں دیا۔ داعش کے جنگجو جسے مقدس جہاد قرار دے رہے ہیں وہ جہاد نہیں بلکہ جرم ہے۔

علماء نے اسلام کے تصور جہاد اور اس کے شرعی طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ اسلامی طریقہ جنگ میں کون کون سی قیود اور شرائط ہیں جن کی پابندی ناگزیر ہے۔

اسلام جنگ میں سفیروں، عورتوں، بچوں، اہل کتاب کے قتل کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ لاشوں کا مثلہ کرنے کو حرام قرار دیتا ہے۔ تکفیری فتووں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ انبیاء کرام اور صحابہ جیسی بزرگ ہستیوں کے مزارات کو مسمار کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔ یہ کونسا سا جہاد اور اسلامی خلافت ہے جس میں ان تمام ممانعتوں کی کھلی اجازت دی گئی ہے۔اسلام دنیا میں تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ دعوت وتبلیغ کے ذریعے پھیلا۔

اس کی زندہ مثالیں انڈونیشیا۔ ملائیشیا اور مغربی اور مشرقی افریقا کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ نیز جہاد کی اصطلاح کسی ایسے اسلام دشمن کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس سے مسلمانوں کو خطرہ لاحق ہو۔ مسلمانوں کے خلاف جنگ کونسا جہاد ہے۔علماء نے داعش کا تکفیری فلسفہ بھی غیر اسلامی قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جس شخص نے کلمہ طیبہ پڑھا ہے وہ صاحب ایمان ہے اور فقہی اعتبار سے اسے کافر نہیں قرار دیاجاسکتا ہے۔

داعش اور اس سے وابستہ لوگوں نے اسلام کی مرضی کی تفسیر کر رکھی ہے۔ مسلمان صرف وہی ہے جسے وہ مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کریں اور باقی تمام دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے کہ جس نے ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ کہہ دیا اس کی تکفیر جائز نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :