میں کراچی فتح کرنے نہیں بلکہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے آیا ہوں ، سراج الحق ،ہم کراچی کو ایسا پُر امن شہر بنانا چاہتے ہیں جہاں الطاف حسین بھی بلا خوف و خطر واپس آئیں ، الیکشن میں بائیو میٹرک سسٹم کے استعمال سے دود ھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا ، 24سالوں میں ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کو کچھ نہیں دیا یہاں سیاسی اور معاشی دہشت گردی بھی جا ری ہے، کراچی بار سے خطاب

اتوار 19 اپریل 2015 08:17

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19 اپریل۔2015ء)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ میں کراچی فتح کرنے نہیں بلکہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے آیا ہوں ،9اپریل کو کراچی میں وکلا کو زندہ جلایا گیا ،ہم کراچی کو ایسا پُر امن شہر بنانا چاہتے ہیں جہاں الطاف حسین بھی بلا خوف و خطر واپس آئیں ،ہم اجمل پہاڑی کو اجمل صدیقی اور فیصل موٹا کو فیصل بنائیں گے۔

الیکشن میں بائیو میٹرک سسٹم کے استعمال سے دود ھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا ،وکلا نے ہمیشہ جمہوریت اور جمہوری سیاست کا ساتھ دیا ہے اور ہمیشہ ڈکٹیٹر کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں جماعت اسلامی نے بھی ہمیشہ وکلا تحریک کا ساتھ دیا ہے اور ہم آج بھی وکلا برادری کے ساتھ کھڑے ہیں 24سالوں میں ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کو کچھ نہیں دیا یہاں سیاسی اور معاشی دہشت گردی بھی جا ری ہے ۔

(جاری ہے)

کراچی ملک کی نظریاتی شہ رگ ہے ،کراچی بار سے خطاب میرے لیے اعزا ز کی بات ہے ،کراچی میں نفرتوں کے بجائے امن و محبت کی شمع روشن کرنے کی ضرورت ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز کراچی بار کی دعوت پر کراچی بار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر کراچی بار کے صدر نعیم قریشی ایڈوکیٹ نے بھی خطاب کیا جب کہ نظامت کے فرائض جنرل سیکریٹری منظور حمید ایڈوکیٹ نے ادا کیے ۔

سر اج الحق کی بار آمد پر بار کے عہدیداران اور سینئر وکلا سمیت وکلا برادری نے شاندار استقبال کیا اور پھولوں کی پتیاں نچھا ور کیں ۔اس موقع پراسلامک لائرز موومنٹ کے صدر عبد الصمد خٹک ایڈوکیٹ ،جنرل سیکریٹری شاہد علی ایڈوکیٹ ،اقبال عقیل ایڈوکیٹ ،غلام قادر جتوئی ایڈوکیٹ ،شعا ع النبی ایڈوکیٹ ،عبد الوحید ایڈوکیٹ ،روبینہ جتوئی ایڈوکیٹ ،فائزہ خلیل ایڈوکیٹ ،کراچی بار کے عہدایداران سمیت خواتین وکلا بھی بڑی تعداد میں موجود تھیں۔

سراج الحق کے ہمراہ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ،سیکریٹری عبد الوہاب ،نائب امیر مسلم پرویز ،سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے ۔ سراج الحق نے کہا کہ جب مارشل لاء ہو اور عوام اور سیاست دانوں کا بولنا مشکل ہو تو بار ایسوسی ایشن ہی وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں سیاست دانوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے انسانی حقوق کی مہم بھی یہیں سے چلائی جاتی ہیں۔

میں آج ان لوگوں کے درمیان ہوں جنہوں نے ایٹم بم تو نہیں بنایالیکن اس سے بڑھ کر کام کیا اور پاکستان بنایا ۔بابائے قوم بھی پاک وہند ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایماندار اور بہترین وکیل تھے ۔ اٹھارہ کروڑ عوام پر وکلا کا بہت بڑا احسان ہے ۔جب پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے آگے سب نے سرجھکادیا تھا اس وقت ایک وکیل نے ہی نعرہ مستانہ بلند کیا تھا ۔

وکلا تحریک شروع ہوئی تو تاثر تھا کہ یہ جلد ہی بیٹھ جائیں گے لیکن یہ کو ہ ہمالیہ ثابت ہوئے ۔جماعت اسلامی نے بھی اس تحریک میں وکلا کا ساتھہ دیا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ میں یہاں سینیٹر ،سینئر وزیر یا کسی اور حیثیت میں نہیں بلکہ میں ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے یہاں بات کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ میں جب تربت گیا تو وہان خواتین نے میری گاڑی کو روک لیا ان میں وہ خواتین تھیں جن کے بیٹے ،بچے شوہر لاپتہ تھے ۔

انہوں نے مجھے ان کے بارے میں بتایا میں نے ان سے کہا کہ اللہ نے ایک نظام بنایا ہے اور وہ نظام اسلام ہے اگر یہ نظام نافذ ہوتو کسی کو یہ حق حاصل نہیں کسی کے ساتھہ زیادتی کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مسئلہ قومیتوں کا نہیں، لسانی نہیں بلکہ بنیادی مسئلہ ظالم اور مظلوم کا ہے یہ ظالم بلوچوں میں بھی موجود ہیں، سندھیوں ،پنجابیوں اور پٹھانوں میں بھی موجود ہیں اور یہ متحد بھی ہیں لیکن مظلوم منتشر ہیں ان کا کوئی پلیٹ فارم نہیں ظالم طبقہ لسانیت اور مسلک کے نام پر عوام کوتقسیم کرکے مظلوموں کو لڑواتا ہے ۔

مارشل لا ء ہویا جمہوریت ان کے وارے نیارے ہوتے ہیں ہم ظالم اور ظلم کا خاتمہ چاہتے ہیں مظلوم عوام کو اکھٹا ہونا پڑے گا ۔اسلامی نظام لانا ہوگا ہمیں اس پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ میرا کام ہے کہ معاشرے میں انصاف کا بول بالا کروں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان قومیتوں اور صوبوں کا نام نہیں یہ ایک فلسفہ اور نظریہ کا نام ہے۔ مدینہ جیسی فلاحی ریاست کی جدوجہد کا نام ہے۔

ہندوستان سے جائیداد اور کاروبار چھوڑ کر آنے والے یہ سوچ کر ہی آئے تھے کہ ان کی ہجرت ایک اسلامی ریاست کی جانب ہے ۔اس لیے اس ہجرت میں انہوں نے تکالیف برداشت کیں، اڑسٹھ برسوں میں ایک دن کے لیے بھی اسلامی نظام نافذ نہیں کیا گیا۔انیس سو سینتالیس سے ہی مغلیہ خاندان حکمران نظر آرہے ہیں ۔ مٹھی بھر اشرافیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ سیاست اور ہر ادارے پر قابض رہیں ۔

میڈیا آزاد تھا لیکن اس پر بھی سرمایہ داروں نے قبضہ کرلیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم جسے چاہیں ہیرو اور جسے چاہیں زیرو بنادیں ۔اٹھارہ کروڑ عوام ان کے غلام ہیں پاکستان کے موجودہ نظام میں میرے جیسے غریب لوگوں کے لیے جگہ نہیں ۔موجودہ جمہوریت جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا کھیل ہے ٹیکس اور ووٹ دینے والے عوام کے لیے کوئی جگہ نہیں پاکستان کو خطرہ بیرونی سے زیادہ اندرونی دشمنوں سے ہے ۔

سراج الحق نے کہا کہ کراچی کا مسئلہ پورے ملک کا مسئلہ ہے ملک میں قانون کی بالادستی نہیں حکمران بھی آئین میں وہ دفعات دیکھتے ہیں جہاں ان کا مفاد ہو۔ عوام کے مفاد پر وہ اندھے ہوجاتے ہیں آئین کے تحت اردوکو ملک بھرکی سرکاری زبان بنایا جانا تھا لیکن ایسا اب تک نہیں ہوا انگریزی ہی رائج ہے ۔ہم نے خیبر پختون خواہ میں اپنی حکومت میں تمام دفاتر میں اردو زبان رائج کردی تھی لیکن اب پھر اس کی جگہ انگریزی رائج کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ طاہر پلازہ میں وکلا کوزندہ جلایا گیا لیکن ان کے ورثاء کو اب تک انصاف نہیں مل سکا۔انہوں نے کہا کہ مجرم مجرم ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی زبان یا کسی بھی مسلک سے ہو ،ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا کمیشن بنایا جائے جس کے ذریعے سے ان لوگوں کی مدد کی جائے جو دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں دہشت گردی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلط کی گئی ہے۔

میں کراچی آتا ہوں تو کہا جاتاہے کہ کیا کراچی فتح کرنے آئے ہو؟ لیکن میں کراچی فتح کرنے نہیں آتا بلکہ زخم خوردہ کراچی پر مرہم رکھنے آتا ہوں۔ کراچی نظریاتی شہہ رگ ہے دہشت گردی سے اس کا چہرہ مسخ کیا گیا ہے ہم کسی سے بھی دشمنی کی نہیں ،محبت کی بات کرتے ہیں عوام نے ایم کیو ایم پر دس مرتبہ اعتماد کیا ان کو ایوانوں میں پہنچایالیکن انہوں نے اس عرصہ میں عوام کو کیا دیا۔

سوائے بدامنی کے اور اسی بدامنی کی وجہ سے الطاف حسین کراچی نہیں آنا چاہتے ،ہم ایسا کراچی بنائیں گے جہاں الطاف حسین کسی خوف و خطرے کے بغیر گھوم سکیں ۔فیصل کو فیصل موٹاکیوں بنایا گیا۔ اجمل پہاڑی کو اجمل پہاڑی کیوں بنایا گیا ہم فیصل موٹاکو فیصل اور اجمل پہاڑی کو اجمل صدیقی بنائیں گے کیونکہ معاشرہ درست ہو تو لوگ بھی صحیح ہونے لگتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایک حلقہ میں بھی بائیو میٹرک سسٹم کیوں نافذنہیں کیا جاسکتا ؟ کیا حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ؟انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کے لیے ایک ہی تعلیمی نصاب ہونا چاہیے اورا س کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے ہم پانچ بیماریوں کا مفت علاج کرائیں گے اور تیس ہزار سے کم آمدنی والوں کو پانچ بنیادی چیزوں پر سبسڈی دیں گے اور اسٹیس کو ختم کریں گے۔ سیاسی جرگہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس جرگے میں مختلف لوگوں نے مل کرکام کیا اور ہم سب کی کوششوں سے پی ٹی آئی ایوان میں آئی، اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر کوئی ڈکٹیٹر مسلط ہوتا ۔سب نے مل کر مارشل لاء کا راستہ روکا۔