بدعنوانی کا خاتمہ نیب کی اولین ترجیح ہے، نیب کی موثر انسداد بدعنوانی حکمت عملی کے مثبت فوائد حاصل ہونا شروع ہو گئے ہیں، نیب نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنانے اور اس کی نگرانی کیلئے چین کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر دیئے ہیں، چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کا اجلاس سے خطاب

اتوار 5 مارچ 2017 23:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ پیر مارچ ء)قومی احتساب بیورو کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے کہا ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ نیب کی اولین ترجیح ہے، نیب کی موثر انسداد بدعنوانی حکمت عملی کے مثبت فوائد حاصل ہونا شروع ہو گئے ہیں، نیب نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنانے اور اس کی نگرانی کیلئے چین کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر دیئے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیب ہیڈکوارٹرز میں آپریشن ڈویژن کی کارکردگی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب نے ملک سے بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے عدم برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر اپنے قومی فریضہ کی ادائیگی کی رفتار تیز کر دی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے نیب افسران پر زور دیا کہ بدعنوان عناصر کو پکڑنے اور ان سے معصوم شہریوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور قومی خزانہ میں جمع کرانے کیلئے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں۔

انہوں نے کہا کہ نیب کی موجودہ انتظامیہ نے اپنی مدت کے دوران صرف اڑھائی سال میں 54 ارب روپے کی لوٹی ہوئی رقوم برآمد کرائیں اور قومی خزانہ میں جمع کرائیں جو نیب کی ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 16 برس کے دوران نیب کو تقریباً 3 لاکھ 26 ہزار 694 شکایات انفرادی، نجی و سرکاری اداروں کے خلاف موصول ہوئیں، اسی عرصہ کے دوران نیب نے 10 ہزار 992 شکایات کی تصدیق، 7303 کی انکوائریوں، 3648 کی تفتیش کیلئے منظور کیا۔

اسی عرصہ میں 2667 بدعنوانی کے ریفرینسز متعلقہ احتساب عدالتوں کو بھجوائے اور مجموعی سزائوں کی شرح 76 فیصد رہی۔ نیب نے بدعنوان عناصر سے 285 ارب روپے برآمد کرائے اور قومی خزانہ میں جمع کرائے۔ قومی احتساب بیورو کی سب سے زیادہ توجہ بڑے پیمانے پر دھوکے باز کمپنیوں کی طرف سے عوامی دھوکہ دہی، بینک فراڈ، بینک قرضوں کی نادہندگیوں، اختیارات کے غلط استعمال اور سرکاری ملازمین کی طرف سے سرکاری فنڈز میں خورد برد وغیرہ پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ شکایات انکوائریوں اور تفتیش کی تعداد 2015ء کے مقابلہ میں 2016ء میں تقریباً دوگنا ہے۔ حالیہ تین برسوں کے تقابلی اعداد و شمار نیب کے تمام رینک کے افسران اور عملہ کی انتھک محنت کا نتیجہ ہیں جو انہوں نے نئی توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کی ہے اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کو قومی فرض کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ پلڈاٹ نے اپنی رپورٹ میں نیب کی پوزیشن کی حمایت کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 42 فیصد عوام نیب پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے برعکس 30 فیصد نے پولیس اور 29 فیصد نے سرکاری افسران پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں بدعنوانی کے حساس اشاریے (سی پی آئی) میں پاکستان کی درجہ بندی 126 سے کم ہوکر116 پر آ گئی ہے جو کہ چیئرمین نیب کی کوششوں کی بدولت پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم اور مشعل پاکستان کے مطابق ورلڈ اکنامک فورم نے عالمی مسابقتی اشاریے (جی سی آئی) میں پاکستان کی درجہ بندی 122 ظاہر کی ہے جو رواں سال 126 سے کم ہو کر 122 پر آئی ہے جو نیب کی کوششوں کی وجہ سے پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب میں فرانزک سائنس لیبارٹری کا قیام اور ورک لوڈ اور خدمت کے تعین کی درجہ بندی کا نظام سکینر کی موثر اور تیز رفتاری سے نمٹانے کیلئے نافذ العمل بنایا گیا ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت 10 ماہ مقرر کی گئی ہے۔ نیب نے مشترکہ تفتیشی ٹیم (سی آئی ٹی) کا نیا نظام بھی متعارف کرایا ہے تاکہ سینئر سپروائزری افسران کی اجتماعی دانشمندی اور تجربات سے استفادہ کیا جا سکے۔

اس نظام سے نہ صرف کام کا معیار بہتر ہو گا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا کہ کوئی فرد واحد کارروائی پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ سی آئی ٹی کا نظریہ بہت کامیاب ثابت ہوا ہے جس سے انکوائری اور تفتیش کے معیار میں بہتری آئی ہے اور افسران کی اجتماعی دانشمندی اور تجربات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ پاکستان سارک انسداد بدعنوانی فو رم کا پہلا چیئرمین بن گیا ہے تاکہ بہترین عوامل کی بنیاد پر بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے باہمی تعاون کے ساتھ کوششیں کی جا سکیں۔

قومی احتساب بیورو سارک ممالک کیلئے ایک رول ماڈل ہے کیونکہ نیب کو سارک ممالک کے انسداد بدعنوانی فورم کا پہلا چیئرمین بنایا گیا ہے۔ قومی احتساب بیورو نے بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت پاکستان اور چین دونوں پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنائیں گے۔

متعلقہ عنوان :