وزیراعظم نے اقوا م متحدہ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور گستاخانہ خاکوں کا معاملہ بھرپور انداز میں اٹھا دیا

پاکستان فلسطین کے مسئلے پر فلسطینوں کی حمایت کرتا رہے گا: عمرا ن خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس میں آن لائن خطاب

جمعہ 25 ستمبر 2020 23:33

وزیراعظم نے اقوا م متحدہ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور گستاخانہ خاکوں کا معاملہ بھرپور انداز میں اٹھا دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 ستمبر2020ء) وزیراعظم عمران خان نے اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور گستاخانہ خاکوں کا معاملہ بھرپور انداز میں اٹھاتے ہوئے کہاہے کہ بین الاقوامی معاہدوں کی دھجیاں اڑائیں جا رہی ہیں ، فوجی قبضے اور غیر قانونی توسیعی پسندانہ اقدامات سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کودبایاجا رہاہے،بھارت کی سرحدوں پر جارحیت کے باوجود پاکستان ضبط کا مظاہرہ کررہا ہے ،اگر بھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی تو قوم اس کا بھرپور جواب دے گی،اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ انتہائی اہم سنگ میل ہے، ہم اس موقع پر امن، استحکام اور پر امن ہمسائیگی کے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں،ہماری خارجہ پالیسی کامقصد ہمسایوں کیساتھ اچھے تعلقات، مسائل کابات چیت سے حل ہے، امیر ملک منی لانڈرنگ کرنیوالوں کو تحفظ دیکر انصاف کی بات نہیں کرسکتے،جنرل اسمبلی کوغیرقانونی مالیاتی منتقلی،لوٹی گئی رقم کی واپسی کیلئے موثر قانونی فریم ورک تشکیل دینا چاہیے،کرونا نے غریب ممالک کی معاشی حالت کو مزید ابتر کردیا ہے،دنیا میں کوئی محفوظ نہیں ہے ،لاک ڈاؤن سے دنیا میں کساد بازاری ہوئی اور تمام ممالک غریب ہوئے،وبا انسانیت کو متحد کرنے کیلئے ایک موقع تھا ، بدقسمتی سے قوم پرستی، بین الاقوامی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور مذہبی سطح پر نفرت میں اضافہ ہوا اور اسلاموفوبیا بھی سر چڑھ کر بولنے لگا،ہمارے پیغمبرؐ کی گستاخی کی گئی، قرآن کو جلایاگیا ، یہ سب کچھ اظہار آزادی کے نام پر کیا گیا، دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جہاں ریاست کی معاونت سے اسلاموفوبیا ہے اس کی وجہ آر ایس ایس کے نظریات ہیں جو بدقسمتی سے بھارت میں حکمران ہے،اسلاموفوبیا کا خاتمہ کرنے کے لیے عالمی یوم منانے کا اعلان کیا جائے،پاکستان فلسطین میں دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے،پاکستان فلسطین کے مسئلے پر فلسطینوں کی حمایت کرتا رہے گا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس میں آن لائن خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمرا ن خان نے کہا کہ جب سے میری حکومت آئی ہے پاکستان کو نیا پاکستان بنارہے ہیں جو ریاست مدینہ کی طرز پر قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں امن و استحکام کی ضرورت ہے جومذاکرات سے ممکن ہے۔انہوںنے کہاکہ جنرل اسمبلی دنیا میں واحد ادارہ ہے جو امن حاصل کرنے میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ انتہائی اہم سنگ میل ہے، ہم اس موقع پر امن، استحکام اور پر امن ہمسائیگی کے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا جو وعدے بطور اقوام متحدہ ہم نے اقوام سے کیے تھے وہ پورے کرسکی آج طاقت کے یکطرفہ استعمال سے لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبایا جارہا ہے، اقوام کی خود مختاری پر حملے کیے جارہے ہیں، داخلی معاملات میں مداخلت کی جارہی ہے اور منظم طریقے سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بین الاقوامی معادوں کو پس پشت ڈالا جارہا ہے، سپر پاور بننے کے خواہاں ممالک کے درمیان اسلحہ کی نئی دوڑ شروع ہوچکی ہے، تنازعات شدت اختیار کررہے ہیں، فوجی مداخلت اور غیر قانونی انضمام کے ذریعے لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبایا جارہا ہے۔انہوں نے نوم چومسکی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا ہے کہ انسانیت کو اس وقت پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ جوہری تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلی عروج پر ہے اور آمرانہ حکومتیں اقتدار میں آرہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ خطرات سے نمٹنے کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، بین الاقوامی تعلقات میں باہمی تعاون کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے جو کہ بین الاقوامی قوانین سے مطابقت رکھتا ہو۔۔وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمگیر وبا نے غریب ممالک کی معاشی حالت کو مزید ابتر کردیا ہے،انہوں کہا کہ دنیا میں کوئی محفوظ نہیں ہے ،لاک ڈاؤن سے دنیا میں کساد بازاری ہوئی اور تمام ممالک غریب ہوئے۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان میں لاک ڈاؤن سے قبل ہم نے لاک ڈاؤن کے باعث بھوک سے زیادہ ہلاکتوں کے خدشے پر ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی اور ہم نے زراعت کے شعبے کو فوری کھول دیا جس کے بعد تعمیراتی شعبے کو بھی کھول دیا۔وزیراعظم نے کہا کہ میری حکومت نے 8 ارب ڈالر صحت کے شعبے اور احساس پروگرام کے ذریعے غریبوں کی مدد کے لیے مختص کیا، اس سے ہم نے نہ صرف وائرس کو پھیلنے سے روکا بلکہ معیشت کو بھی بحال رکھا۔

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کے اقدامات کورونا کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ایک کامیاب کہانی بن چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم کثیر جہتی اشتراک سے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں، جب سے ہماری حکومت آئی ہم نے عوام کی بہتری کیلئے کوششیں کیں،حکومت کی تمام پالیسیوں کامقصد شہریوں کے معیار زندگی میں اضافہ ہے ۔وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستان وبا پر کامیابی سے قابوپانیوالے ممالک کی فہرست میں ہے۔

انہوںنے کہاکہ ترقی پذیر ممالک کوکورونابحران سے نمٹنے کیلئے مالی وسائل درکار تھے،آئی ایم ایف نے ترقی پذیرملکوں کو بحران سے نمٹنے کیلئی2.5 کھرب ڈالرکا تخمینہ لگایا ہے۔انہوں نے کہا کہ غریب ممالک کیلئے قرضوں کی ادائیگی کو موخر کیا جانا چاہیے،قرضوں میں ریلیف کیلئے اضافی اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا وبا انسانیت کو متحد کرنے کے لیے ایک موقع تھا لیکن بدقسمتی سے قوم پرستی، بین الاقوامی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور مذہبی سطح پر نفرت میں اضافہ ہوا اور اسلاموفوبیا بھی سر چڑھ کر بولنے لگا۔

انہوںنے کہاکہ ہمارے مقدس مزارات کو نشانہ بنایا گیا ہمارے پیغمبرؐ کی گستاخی کی گئی، قرآن کو جلایاگیا اور یہ سب کچھ اظہار آزادی کے نام پر کیا گیا، چارلی ہیبڈو نے گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کرنے کی بات کی جو حالیہ مثال ہے۔عمران خان نے کہا کہ دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جہاں ریاست کی معاونت سے اسلاموفوبیا ہے اس کی وجہ آر ایس ایس کے نظریات ہیں جو بدقسمتی سے بھارت میں حکمران ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس انتہا پسند نظریے کی تشکیل 1920 کی دہائی میں کی گئی اور اس کے بانی اراکین نازی نظریات سے متاثر تھے، نازی یہودیوں کو نشانہ بناتے تھے اور آر ایس ایس مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں انہوںنے کہاکہ نازی یہودیوں کو نشانہ بناتے تھے، آر ایس ایس مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور عیسائیوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ان کا ماننا ہے بھارت صرف ہندوؤں کیلئے ہے اور دیگر برابر کے شہری نہیں ہیں۔

وزیراعظم نے کہاکہ گاندھی اور نہرو کے سیکولرزم کی جگہ ہندو راشٹریہ بنانے کے خواب نے لی ہے اور یہاں تک کہ 20 کروڑ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ختم کرکے ہندو ریاست بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت اپنے غیر قانونی اقدام سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر کی خلاف ورزی کرتا ہے، ہم نے عالمی برادری کو بھارت کی طرف سے جھوٹے آپریشن سمیت دیگر اشتعال انگیزی کارروائیوں سے آگاہ رکھا ہے، پاکستان کنٹرول لائن اور ورکنگ باونڈری پر بھارتی اشتعال انگیزی اور خلاف ورزیوں کے باوجود ضبط کا مظاہرہ کررہا ہے۔

انہوںنے واضح کیا کہ اگر بھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی تو پاکستانی قوم اس کا بھر پور جواب دے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ کشمیریوں نے بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے نسل درنسل اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں، مقبوضہ علاقے کا آبادی کا تناسب تبدیل کرنا جنگی جرم ہے، اس ظالمانہ مہم کا مقصد آر ایس ایس ، بی جے پی کے جموں و کشمیر کے خود ساختہ حمتی حل کو عملی جامہ پہنانا ہے۔

عمران خان نے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی برادری لازمی طور پر ان سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیق کرے، ان مظالم کی اقوام متحدہ کے انسانی کمشنر، انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندوں کی رپورٹ گواہ ہیں، بھارت کا مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ۔ گزشتہ سال 5 اگست کو یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت کو بھارت نے تبدیل کیا گیا، 80 لاکھ کشمیریوں کو محصور کرنے کیلئے فوج کو تعینات کیا گیا، کشمیری میڈیا اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے کشمیریوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے،پرامن مظاہرین پر بھارتی افواج نے پیلٹ گن سے حملے کیے،افسوس ہے کہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں ایسی کارروائیاں بلا خوف وخطر جاری ہیں۔

وزیر اعظم نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جنیوا کنونشن کے تحت آبادی کا تناسب تبدیل کرنا جرم ہے۔ انہوںنے کہاکہ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کیلئے اقوام متحدہ یہاں بھی کردار ادا کرے۔ وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کا خواہاں رہا ہے۔ بھارت سب سے پہلے کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرے۔

کشمیر کا مسئلہ کشمیر کے عوام کی خواہش اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔وزیراعظم نے کہاکہ بھارت میں آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کو حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں، 2002ء میں بھارتی شہر گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس میں مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ تمام کارروائیاں اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندرا مودی کی نگرانی میں ہوئیں، آر ایس ایس نے 1992ء میں بابری مسجد شہید کی،آسام میں 20 لاکھ مسلمانوں کو امتیازی قوانین کے ذریعے شہریت جیسے مسائل سے دوچار کیا، پیرس 2015ء کے معاہدے پر مکمل عمل ہونا چاہیے۔

بھارت میں اقلیتوں کو درپیش مظالم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ بھارت کے مسلمان شہریوں کی بڑی تعداد کو حراستی کیمپوں میں بھیجا جارہا ہے، مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے جھوٹے الزام کے تحت بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو بعض اوقات طبی امداد سے بھی محروم رکھا جاتا اور ان کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اس تقسیم کے نتیجے میں عالمی سطح پر ایک نیا بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کامقصد ہمسایوں کیساتھ اچھے تعلقات، مسائل کابات چیت سے حل ہے۔غریب ممالک سے غیر قانونی طور پر اربوں ڈالرز منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر لے جانے والے سیاسیتدانوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امیر ملک منی لانڈرنگ کرنیوالوں کو تحفظ دیکر انصاف کی بات نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ وہ پیسہ جو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوسکتا ہے وہ کرپٹ سیاستدان ملک سے باہر لے جاتے ہیں اور زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی سے کرنسی کی قدر گر جاتی ہے اور پھر مہنگائی اور غربت بڑھتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ چوری ہونے والے اس پیسے کو واپس لانا قریب قریب ناممکن ہے کیوں کہ اس عمل میں کافی پیچیدگیاں ہیں اور طاقت ور منی لانڈررز ایسا ہونے نہیں دیتے کیوں کہ انہیں بہترین وکلاء کی خدمات حاصل ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے چونکہ امیر ملک کو غریب ملک سے آنے والے پیسے سے فائدہ ہوتا ہے لہذا وہ امیر ملک بھی اسے روکنے کی زیادہ کوشش نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق مزید بڑھ جائے گا اور بالآخر ہمیں بہت بڑے عالمی بحران کا سامنا ہوگا جو حالیہ مہاجرین بحران سے بھی بڑا ہوگا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں اس اسمبلی پر زور دیتا ہوں کہ وہ ممالک سے غیر قانونی طریقے سے رقوم کی ترسیل کو روکنے کیلئے ایک عالمی فریم ورک تشکیل دے اور چوری شدہ رقم کی متعلقہ ملک کو واپسی یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عالمی امداد کے نام پر غریب ممالک کو ملنے والی رقم اس رقم کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہوتی ہے جو اس ملک کے کرپٹ لوگ غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر لے جاتے ہیں۔۔وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کیلئے پاکستان نے اگلے تین برسوں میں 10 ارب درخت لگانے کا پروگرام شروع کیا۔ عمران خان نے کہا کہ ہمیں دنیاکوماحولیاتی تبدیلیوں سیدرپیش خطرات کوبھی دیکھنا ہے،ماحولیاتی تبدیلی سے ہماری آنیوالی نسلوں کو خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے کہاکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسم شدید ہوگئے ہیں، آسٹریلیا، امریکا کی جنگلوں میں آگ لگ رہی ہے، دنیا بھر میں بارشوں اور سیلاب میں اضافہ ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطین کے مسئلہ کا حل خطے اور دنیا کیلئے انتہائی ضروری ہے،پاکستان فلسطین میں دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی قیام جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو، اس مسئلے کا حل ہے، پاکستان فلسطین کے مسئلے پر فلسطینوں کی حمایت کرتا رہے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ موجودہ صدر کی ماہرانہ قیادت کابھی معترف ہوں جنھوں نے کورونا کیخلاف بہترین خدمات انجام دیں۔انہوں نے کہا کہ وولکن اوسکرکوجنرل اسمبلی کا75واں صدرمنتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتاہوں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں