Last Episode - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

آخری قسط - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر 
اِنسان کی زندگی خواہ کتنی ہی آزاد اور لا تعلق ہو‘ پابند اور متعلق رہتی ہے۔ اِنسان دوڑتا ہے‘ لیکن فاصلوں کی حدود میں۔ اِنسان اُڑتا ہے اور خلا کی پہنائیوں کے اندر وہ ارض وسماوات کے اندر ہی رہتا ہے۔ اِنسان جب کسی طاقت کو نہیں مانتا‘وہ اُس وقت بھی اپنے انکار کی طاقت کے ماتحت ہوتا ہے۔ اِنسان کی خوشیاں، تمام تر مسرتیں‘ کسی نہ کسی غم کی زَد میں ہوتی ہیں۔
ہر غم خوشی بن کر آتا ہے اور ہر خوشی غم بن کر رُخصت ہو جاتی ہے۔ بس خوشیوں نے رُخصت ضرور ہونا ہے۔پیاری پیاری‘ اپنی بیٹیوں کی طرح … کیا کِیا جائے! 
اِنسان شب و روز کے حِصار ہی میں جکڑا ہُوا سا ہے۔ وہ صدیوں سے اِس جال کو توڑنا چاہتا ہے۔ زمان و مکاں توڑ کر نکل جانا چاہتا ہے۔

(جاری ہے)

نکل کر کہاں جائے گا… ہم دُنیا سے بھاگ سکتے ہیں‘ لیکن اپنے آپ سے کون بھاگ سکتا ہے۔

اِنسان اپنے پنجے میں ہے۔ وہ خود گریز بھی، خود پرست و خود مست بھی ہے، خود گَرو خودسَر بھی ہے، خودبین و خود کلام ہے، خود نگر ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ خود شکن ہے۔ 
اُس کے اپنے وجود میں اُس کے لیے کچھ بھی تو موجود نہیں۔ سب کچھ ہے‘ لیکن کچھ بھی نہیں۔ 
اِنسان شاید سمجھتا نہیں کہ وہ اپنی صفات، حیات، اپنی عادات، لذّات، شہوات و حیوانیات، عبادات واعتقادات کا مرُقعّ ہے۔
اُس پر گردشِ زمان و مکاں کے علاوہ بھی کئی گردشیں گزر جاتی ہیں۔ اُس پر روزگارِ زمانہ کے علاوہ بھی کئی زمانے آتے ہیں… موسمِ بہار کے علاوہ بھی کئی بہاریں آتی ہیں۔ اُس کے اپنے اندر کبھی پھول کھِلتے ہیں، کبھی ببُول مُسکراتے ہیں۔ اُس کے ساتھ ساتھ روشنی و تِیرگی کے اَدوار سفر کرتے ہیں…اُس کا شعور‘ آزادی کا شعور‘ اُس کا اپنا نہیں…وہ اپنے ماضی سے کٹ نہیں سکتا، اپنے مستقبل سے ہٹ نہیں سکتا…اُس کا حافظہ، اُس کا تخیّل‘ اُسے آزادی کا شعور عطاکر کے اُسے پابند کر دیتے ہیں۔
 
اِنسان اپنے آپ پر غور کرتا ہے۔ اُسے اپنے اندر ایک جہاں نظر آتا ہے۔ وہ اپنی بینائی کو دیکھتا ہے۔ لُطف اندوز ہوتا ہے نظاروں سے… لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ بینائی دینے والی طاقت نے ہی نظارے پیدا کیے ہیں… اب یہی آزاد نگاہ اُنہی نظاروں کی پابندہو کر رہ جاتی ہے۔ اِنسان وہ چیز نہیں دیکھ سکتا ‘جو نہیں ہے… وہی مناظر جو صدیوں سے دیکھے جاتے رہے ہیں، وہی سیارے و ستارے، وہی شمس و قمر، وہی مشرق و مغرب اور وہی کوہ وصحرا، قلزم و دریا، وہی بادل، وہی فضائیں، وہی ہوائیں، وہی موسم، وہی پُرانے غم اور پُرانی خوشیاں…!
نیا اِنسان‘ نئی بینائی اور نئے عزائم کے ساتھ پُرانے مناظر دیکھتا ہے۔
اُس کے سامنے جو جلوہ موجود ہے ‘وہ اُس سے پہلے بھی موجود ہے اور اُس کے بعد بھی موجود رہے گا۔ آزاد اور جدید اِنسان نے بڑی پابندی سے پُرانے نظارے ہی دیکھنے ہیں۔ نگاہ کی آزادی اپنے اندر ایک حد تک آزاد ہے۔ دیکھنے والا ایک حد کے بعد نہیں دیکھ سکتا۔ یہ حد کبھی فاصلوں کی شکل میں ہے، کبھی عمر کے حساب سے ہے۔ آج کی بینائی شاید کل‘ آج ہی کی طرح نہ آسکے۔
جہاں گلاب کھلتے تھے ‘وہاں اِن آنکھوں میں موتیا کھِلے گا۔ آج کا لُطف شاید آئندہ نہ مل سکے… آج کا احساس شاید آج تک ہی ہو… محفل کی گرمیاں تنہائیوں میں یَخ ہو جاتی ہیں۔ 
آج کی حقیقت کل کا افسانہ ہو گی۔ اِنسان آزاد ہے کہ جو چہرہ چاہے ‘پسند کر لے لیکن اُس نے صرف ایک ہی چہرے سے محبت کرنا ہے اور یہاں آزادی‘آزاد نہیں رہتی۔ 
اِنسان کے سامنے پھیلی ہوئی کائنات اُس کو بہت ہی وسیع نظر آتی ہے اور اِس کائنات کے اندر اُسے اپنے لیے اِمکانات لامحدود نظر آتے ہیں… اِمکانات لا محدود ہی رہتے ہیں اور فیصلے بڑے مختصر اور محدود… شادی سے پہلے شادی کے امکانات لا محدود … لیکن فیصلے کے لمحے میں یہ سارے لا محدود امکانات ایک مختصر اور محدود فیصلے میں ختم سے ہو جاتے ہیں۔
اِنسان سمجھتا نہیں ہے۔ 
زندگی کی وسیع شاہراہیں‘ آہستہ آہستہ‘ چھوٹی چھوٹی سڑکوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور یہ سڑکیں نہ جانے کیسے بند گلیوں میں بدل جاتی ہیں اور اِمکانات کا طلِسم ٹُوٹ جاتا ہے اور پھر وہی اِنسان سمند ِطاغوت سے گِرتا ہُوا زمین پر آرہتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ یہ سب کیا تھا… کیا کچھ نہیں ہو سکتا تھا‘ لیکن بس یہی کچھ ہُوا۔
اگر یہی کچھ تھا‘ تو یہی کچھ ہی کیوں نہ تھا… وہ سب کچھ کیا تھا جو‘ اب نہیں ہے۔ 
اپنی قوّت پر گھمنڈ کرنے والا اپنے عجز پر شرمندہ تو ہوتا ہے‘ لیکن اپنی شرمندگی پر مزید عاجز ہوتا ہے۔ اُس کی قوّت اپنے اندر ہی دم توڑ جاتی ہے… قواء تو مضمحل ہو ہی جاتے ہیں۔ عناصر میں اعتدال تو غالب #کو بھی نہ مِلا… کسی کو نہیں… سب کے ساتھ ایسے ہوتا آیا ہے۔
اپنے آپ میں مگن رہنے والا‘ خوش باش، بے فکر نوجوان ایک دن اُداس ہو جاتا ہے… اُس سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی… صرف اُس کا کوئی بہت ہی قریبی عزیز فوت ہو گیا۔ وہ سوچتاہے‘ عجیب بات ہے۔ مرنے والا رُخصت کے وقت عجیب تحفہ دے گیا۔ غم دے گیا، خوشی لے گیا۔ اب یہ غم امانت ہے۔ مانگے بغیر ملتی ہے۔ ہماری آزادی کے چار تنکوں پر یہ برقِ آسمانی نازل ضرور ہوتی ہے …ایسے کیوں ہوتا ہے۔
بس یہی تو بے بسی ہے کہ وجوہات و نتائج سے باخبر اِنسان بھی اِس سے بے خبر رہتا ہے کہ آخر آنے والے جاتے کیوں ہیں اور اگر جانا ہی ہے‘ تو آنا کیوں ہے! 
اِنسان کا علم‘ جدید علم بھی آج کے اخبار کی طرح کل کی خبریں دیتا ہے۔اِنسان جسے تازہ سمجھ رہا ہے‘وہ کُہنہ ہے… یہ جواں سورج ‘بہت ہی بوڑھا ہے… یہ ماہتابی چہرہ صرف دُور سے دیکھنے والا ہے۔
یہ حسین و جمیل وجسیم ستارے ‘بس اپنی نظر کا دھوکا ہے… بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آگہی بھی فریبِ آگہی سے زیادہ نہیں… اِنسان ایک خاص وقت میں مقرر شُدہ لمحے میں پیدا ہوتا ہے اور پھر ایک اور مقرر شُدہ لمحے میں رُخصت ہو جاتا ہے۔ اِن دو نقطوں کے درمیان آزادی کا سفر ہے۔ اِمکانات اور حاصل کا سفر ہے… ساٹھ سال کی طویل عمر میں بیس سال نیند کی نذر ہو جاتے ہیں۔
مجبوری ہے… بچپن اور بڑھاپا اور بیماری کے ایّام نکال دیئے جائیں تو اِنسان کے پاس اپنا کیا رہتا ہے۔ اِس پر مستزادیہ کہ آدھی زندگی بیچ کر باقی کی زندگی کو پالنا ہے۔ دفتروں کی نذر ہونے والی زندگی بِک چُکی ہے …اِنسان کے پاس اپنے لیے چند سال رہ جاتے ہیں۔ اِسی مختصر عرصے میں اِنسان نے سب کچھ کرنا ہے۔ بس کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ سفر ختم ہو چلا ہے اور دامنِ مراد خالی ہے۔ وہ پھر دیکھتا ہے۔ اُسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اُس کا اپنا نہیں تھا۔ وہ خود بھی اپنا نہیں تھا۔ اُسے بھیجنے والے نے اُسے اِسی کام کو بھیجا کہ جاؤ اور پھر آجاؤ… وہ اپنے خالی دامن میں رضا کے پھول بھرتا ہے اور پھر پکار اُٹھتا ہے۔ 
ع اِسی سے فقیری میں ہُوں مَیں امیر 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif