8 مارچ اور خواتین کا کردار

8مارچ کے حوالہ سے ایلیٹ کلاس خواتین سے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ لکھنے جارہا ہوں کہ من پسند ساتھیوں کے ساتھ فوٹو سیشن، واک، ستائشی پروگرام، سیمینارز، بیانات، ٹاک شوز میں شرکت اور 8مارچ کی تمام رسمیں پوری کر لینے سے مسائل حل ہونے والے نہیں

Salman Ahmad Qureshi سلمان احمد قریشی ہفتہ 7 مارچ 2020

8 march aur khawateen ka kirdar
8مارچ کو عالمی یوم خواتین منانے کا سفر 1857ء میں امریکہ کی ٹیکسٹائل ملوں میں کام کرنے والی خواتین کے جلوس سے ہواجن کا مطالبہ تھا کہ ان کے کام کے اوقات 16گھنٹوں سے کم کرکے 10گھنٹے کیے جائیں۔جبکہ 1910ء میں خواتین کی عالمی کانفرنس نے 8مارچ کو عالمی یوم خواتین طے کیا جسے 1979میں اقوام متحدہ نے ''عالمی یوم خواتین '' قرار دیا۔اس سے قبل 8مارچ 1915ء میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں خواتین نے پہلی عالمی جنگ کے خلاف بھر پور مظاہرہ کیا پھر 8مارچ 1917ء میں روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں خواتین نے رازشاہی کے خلاف علم بغاوت بلند کیااور سب کے لیے روٹی کے نعرے کے ساتھ مظاہرہ کیا۔

یہ سوویٹ انقلاب کا آغاز تھا۔ 8مرچ 1937ء سپین میں جنرل فرانکو کی آمریت کے خلاف منظم مظاہرہ کیا گیا۔

(جاری ہے)

8مارچ 1947ء میں ویت نام میں خواتین نے امریکہ اور اسکے مقامی حمایتیوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔اس طرح 8مارچ ایک روایتی دن سے دنیا پھر میں عورتوں کی آزادی، مساوات اور حقوق کے لیے جدوجہد کی علامت بن گیا۔دینا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 8مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے۔

جس کا مقصد خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کو تیز اور با مقصد بنا نا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے 8 مارچ کو عورت مارچ کا اعلان ہوا، جسے رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست مسترد کردی۔مگر اس سے قبل عورت مارچ کے حوالہ سے بحث شدت اختیار کر گئی۔نجی ٹیلی وژن پر خلیل الرحمن اور ماروی سرمد کے درمیان تکرار سے سوشل میڈیا پر ہر طبقہ اور مکتب فکر کے درمیان لفظی جنگ شروع ہوگئی۔

ماضی کے برعکس اس دفعہ 8مارچ کے دن عالمی یوم خواتین کے اغراض ومقاصد پس منظر میں چلے گے۔ سلوگن کو لے کر سخت ردعمل سامنے آیا۔نعروں اور بیانات کی بنیاد پر نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ قطع نظر کس کا موقف درست ہے۔۔؟یہ قابل افسوس رویہ سامنے آیا کہ خلیل الرحمن کے ٹیلی وژن پر گالی دینے کو درست قرار دینے والے سوشل میڈیا پر اس سے بھی آگے چلے گے۔

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو کھل کر خواتین کے حقوق کے حوالہ سے میدان میں آگے۔پیپلز پارٹی نے تو اس معاملہ میں مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے ایک صفحہ پر ہونے کی بات بھی کر کے واضح لائن لی۔اس میں کوئی شک نہیں خواتین کے حقوق کے لیے پی پی پی کی خدمات سب سے بہتر ہیں۔عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے سیاسی جدوجہد کا آغاز اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد موجودہ پی پی پی کو دو خواتین نے ہی آگے بڑھایا۔ اس کے بعد فرسٹ وومن بنک کا قیام، خاتون جج کی تقرری، پہلی خاتون سپیکر قومی اسمبلی، وزیر خارجہ جیسے سیاسی عہدوں پر نامزدگی اور خواتین کے لیے قانون سازی سب پی پی پی کے کریڈٹ پر ہے۔
حقوق خواتین ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ سڑکوں پر متنازعہ نعروں اور مارچ کے زریعے بحثیت نوع عورت کے حالات میں کچھ فرق نہیں لایا جا سکتا۔

عورت مارچ کو متنازعہ بنا دیا گیا۔مگر اسکا مطلب یہ نہیں پاکستان کی خواتین اپنی جدوجہد ہی روک دیں ایسا ممکن نہیں۔
ہمارے ملک میں خواتین کے حقوق اور آزادی ہنوز ایک مسئلہ ہے۔ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو خواتین کی حقیقی آزادی کا موجب بن سکیں۔خواتین کی زبوں حالی کی بڑی وجہ جہالت ہے۔پاکستان ہی نہیں دنیا میں خواتین کو کم تر ماننے اور تعصبات پر مبنی سماجی رویے موجود ہیں۔

قارئین کرام! 8مارچ عالمی یوم خواتین کے بعد23مارچ کا دن ایک ایسی خاتون کا یوم پیدائش ہے۔جسے خاتون ملت بھی کہا گیا۔آئرن لیڈی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔راقم الحروف سیاسی نظریات بالا طاق رکھتے ہوئے عزم، حوصلہ، ہمت اور جدوجہد کی علامت اس خاتون سے بے حد متاثر ہے۔
تاریخ میں ایسی مثال نہیں ایک خاتون نے اپنی زندگی میں خاتون اول ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

پھر اقتدار کے بعد شوہر کی موت کی سزا برداشت کی۔ مگراپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی شوہر کے ورکروں کو تنہا نہیں چھوڑا۔بیٹی کو سیاسی جدوجہد کے نتیجہ کے ذریعے اقتدار تک پہنچا دیا۔اس سیاسی جدوجہد میں دو جوان بیٹوں کی لاشیں بھی دیکھنا پڑیں۔ریاستی تشدد برداشت کیا۔اس خاتون کے بغیر پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کی جدوجہد کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔

پاکستان کی سیاست میں ممتاز حثیت پر سرفراز خاتون بیگم نصرت بھٹو ہی وہ شخصیت ہیں جن کا ذکر سطروں بالا میں کیا گیا۔پاکستان میں خواتین کی جدوجہد کی تاریخ ضبط تحریر کی جائے تو بیگم نصرت بھٹو کو فراموش کرنا ممکن نہیں۔اس لیے میں8مارچ کے حوالہ سے ایلیٹ کلاس خواتین سے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ لکھنے جارہا ہوں کہ من پسند ساتھیوں کے ساتھ فوٹو سیشن، واک، ستائشی پروگرام، سیمینارز، بیانات، ٹاک شوز میں شرکت اور 8مارچ کی تمام رسمیں پوری کر لینے سے مسائل حل ہونے والے نہیں، اس کے لیے بیگم نصرت بھٹو کے طرز عمل کو اپنانا ہوگا۔خواتین کو حقوق دینے کے لیے قانون سازی کا ہی سہارا لینا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

8 march aur khawateen ka kirdar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.