ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں

ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی اور ترت جواب دیا اپنی غلط بات پر اصرارکرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ہم دیکھیں غورکریں تو احساس ہوگا اس معاشرے میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ روزانہ جاہلوں سے پڑتا رہتاہے اورجاہل بھی اس قدر جاہل کہ حیرت ہوتی ہے

M Sarwar Siddiqui ایم سرورصدیقی جمعرات 28 مارچ 2019

aik dhoondho hazar milte hain
درویش کے گرد آج بھی لوگوں کا ہجوم تھا کتنے ہی عقیدت سے بھلائی اور دانائی کی باتیں سن کر سرہلارہے تھے درویش کے چہرے پر عجب نور تھا۔ کشش بھی انوکھی بعض اوقات وہ اپنی گفتگو میں ذہنوں میں امڈتے سوال خود بیان کردیتا تو کئی حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگتے جب انہی سوالوں کے جواب ملتے تو گویا تسلی و تشفی ہو جاتی۔ اس روز کسی نے سوال کرڈالا بابا جی!جہالت کیاہے؟۔

درویش نے چونک کر سوال کرنے والے کی طرف دیکھا۔ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی اور ترت جواب دیا اپنی غلط بات پر اصرارکرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ہم دیکھیں غورکریں تو احساس ہوگا اس معاشرے میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ روزانہ جاہلوں سے پڑتا رہتاہے اورجاہل بھی اس قدر جاہل کہ حیرت ہوتی ہے ۔دنیا کی قیامت خیزترقی، نت نئی ایجادات،شعو رو آگہی ،فہم و فراست کا بڑھتاہوارحجان، حالات اور ذہنوں میں آنے والی تبدیلی کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا یعنی لوگ اپنی غلط بات پر اصرارکرتے نظرآتے ہیں اس صورت ِ حا ل میں کبھی کبھی دل چاہتاہے غالب کے شعرکومستقل ایسے لکھا اور پڑھا جائے
”جاہلوں“کی کمی نہیں غالب 
ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں 
عالم ِ اسلام کوجس خوفناک عفریت کا سامناہے اسے جہالت کے نام سے ہی تعبیر کیا جا سکتاہے اسی وجہ سے مسلمان علمی میدان میں تنہاہوتے جارہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں ؟جنہیں مومن کی گمشدہ میراث ۔

(جاری ہے)

تلاش کرنے کاہی ادراک نہیں ہے پاکستان میں خود کش حملے، بم دھماکے،دہشت گردی اور انتہا پسندی سب کا سب جہالت کا شاخسانہ ہے۔ قرآن مجیدکی آیات کے مطالب اپنے مقصدکیلئے استعمال کرنا، اسلام کو دکانداری بنا لینا،غلط تشریح کرنا یہ جہالت کی علامت ہے اور اسی جہالت نے اسلام کو ناقابل ِ تلافی نقصان ہورہاہے دنیا میں آدھے مسائل کی بنیادجہالت ہے۔

 پاکستان میں تو ان نام نہاد سیاستدانوں،ان پڑھ فتویٰ فروشوں اورجاہل دانشوروں نے اندھیر مچارکھاہے ۔رہی سہی کثر اسلام کا نام لے کر اسلام کا استحصال کرنے والوں نے پوری کردی ہے جو صرف اپنے مفادات کے غلام ہیں یہ اندھوں میں کانے راجہ بن کر جو دل چاہے کرتے پھرتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔سومئی تقدیرسے کوئی پوچھ ہی بیٹھے تو کفرکے فتوے اورتبرے لحدتک پیچھا نہیں چھوڑتے۔

درویش تو سچ ہی کہتے ہیں انہیں کسی کی ناراضگی کا ڈرجونہیں ہوتااس درویش نے بھی سچ ہی کہا تھااپنی غلط بات پر اصرارکرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔اپنے ادھرادھر نظر دوڑائیے۔من کو ٹٹول کردیکھیں یانام نہاد بڑے بڑے دانشوروں کو دیکھئے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوگی کہ وہ اپنی غلط بات پر اصرارکریں گے اور اس کے حق میں بے سروپا دلیلیں ،عجیب و غریب باتیں کریں گے۔

 ان کا مقصد شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری ہے شاید سچ انہیں اچھاہی لگتا فقط حکمرانوں پر ہی موقوف نہیں ہم میں سے اکثرو بیشتر سچ کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے سچ سننا ،سچ بولنا اور سچ کہنے کا یارا کسی کسی کو ہے۔ ایسی باتیں سن کر درویش کے دل پر کیا گذرتی یہ سوچنا بھی محال ہے لیکن حکمرانوں کے وزیروں،مشیروں،معاونین،ارکان ِ اسمبلی اور ان کے سینکڑوں ہزاروں کوارڈی نیٹروں کاکیا بنے گاجن کی کل کمائی کا انحصارہی حکومت کی ہر غلط بات کادفاع اورمرے پہ سو درے کے مصداق ا پنے جناتی طرز ِ عمل اوراس کا دفاع پر اصرارکرنا ہی ہے۔

صرف ایک اسی طرزِ عمل کی وجہ سے حکومتی صفوں میں جاہل قطار اندرقطار تن کر کھڑے ہیں اورسچ پوچھئے یہی مسائل کا اصل سبب ہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کبھی سچی بات نہیں کرتے کہ اللہ انہیں ایسا کرنے کی توفیق ہی نہیں بخشتا۔
ہم دیکھیں غورکریں تو احساس ہوگا اس معاشرے میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ روزانہ ان گنت جاہلوں سے پڑتا رہتاہے اورجاہل بھی اس قدر جاہل کہ حیرت ہوتی ہے دنیا کی قیامت خیزترقی، نت نئی ایجادات،شعو رو آگہی ،فہم و فراست کا بڑھتاہوارحجان، حالات اور ذہنوں میں آنے والی تبدیلی کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہواوہ بھی جانتے ہیں یہ سلسلہ زیادہ دیرتک نہیں چل سکتا اندھیرا محض اتنی دیرہی کا مہمان ہوتاہے جب تک سورج طلوع نہیں ہوتا اور پہلی کرن ہی اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی ماحول کو منور کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے اندھیراذہنوں میں ہو یا دل میں۔

ماحول میں ہو یاحالات میں۔ ہمارے لئے یہ جاننا کافی نہیں جہالت سب سے بڑا اندھیراہے اس کے خلاف جہاد کرنے سے روشن خیالی فروغ پا سکتی ہے۔
 کچھ لوگ روشن خیالی کو بے حیائی سے تعبیرکرتے ہیں حالانکہ ایسا سمجھنابھی جہالت کی علامت ہے۔جہالت دل میں ہو یا دماغ میں۔ سوچ میں ہویا فکرمیں یا پھر انداز ِ فکرمیں اس کوعلم ہی جگمگا سکتاہے ان پڑھ مولوی ،جاہل دانشور اورسبزباغ دکھانے والے سیاستدان جہالت کے دلدادہ ہیں ان کا کاروبار جہالت کے زور چلتاہے کیونکہ جھوٹ ،منافقت ،ریاکاری،خوشامد ۔

جہالت کے نیٹ ورک کی بنیادی اکائیاں ہیں جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک اکائی بھی پائی جاتی ہو اس کے جاہل ہونے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ جہالت ذہنی رویے بدل کررکھ دیتی ہے جب درویش نے کہا اپنی غلط بات پر اصرارکرنا سب سے بڑی جہالت ہے تو فوراً دل میں خیال آیا کہ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جاہل کبھی اپنی اصلاح کرنا نہیں چاہتا جھوٹے ،مکار،دروغ گو اورانتہا پسندوں کا بھی تو جاہلوں کے خاندان سے تعلق گہراہے سچی بات یہ ہے ۔

حسب نسب پر موقوف نہیں ایسے لوگ معاشرہ میں افراط سے پائے جاتے ہیں جنہیں کچھ کچھ نشانیوں کا ادراک ہو جائے انہیں ایک چھوڑ ہزار جاہل مل سکتے ہیں۔ دل و دماغ کے دریچے کھول کر غور کریں تو کسی کی بات سن کر دل گواہی دے دیتاہے کون جاہل ہے کون نہیں؟ جاہلوں کی سب سے بڑی کھیپ پہلے بادشاہوں کے درباروں میں ہوتی تھی۔ مسخرے اور ہاں میں ہاں ملانے والے اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار یا پھر حکمرانوں کے مصاحب جو بات بے بات پر اتراتے پھرتے ہیں ۔

آج کی مہذب دنیا میں اس قسم کے لوگ سیاستدانوں اور انکے حواریوں میں پائے جاتے ہیں۔
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگزنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟
اس معاشرے میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ روزانہ جاہلوں سے پڑتا رہتاہے اورجاہل بھی اس قدر جاہل کہ حیرت ہوتی ہے ۔دنیا کی قیامت خیزترقی، نت نئی ایجادات،شعو رو آگہی ،فہم و فراست کا بڑھتاہوارحجان، حالات اور ذہنوں میں آنے والی تبدیلی کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اس سے زیادہ جہالت کا اور کیا ثبوت ہو سکتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

aik dhoondho hazar milte hain is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 March 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.