بدمعاشوں کی اس دنیا میں

جب سچ کا ساتھ دینے والے خاموشی اوڑھ لیں تو جھوٹ بولنے والے ننگا ناچ ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔یہی مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے۔ کشمیر کو اپنی ریاست کہنے والے بھارتی حکمران کیا کشمیر میں اپنی باقی ریاستوں جیسا سلوک روا رکھے ہو ئے ہیں ؟

روبینہ فیصل جمعہ 1 مارچ 2019

badmashon ki is duniya mein
ایک رواج فروغ پا گیا ہے پہلے بھی ہوتا ہو گا، مگر پہلے لوگ ذاتی مفادات کے پیچھے ضمیر کے سودے کرتے تھے تو اپنی اور لوگوں کی نظروں میں ایک مجرم ہی کی حیثیت رکھتے تھے مگر اب زمانے نے سائنسی ترقی کے ساتھ اخلاقی تنزلی کا جو سفر شروع کیا ہے اس وجہ سے کسی بھی سطح پر خاندان ہوں یا معاشرے یا ملک، سچ کا ساتھ نہ دینا اور کبھی مصلحت ، کبھی مفاد اور کبھی بس ایسے ہی فیشن کے طور پر طاقتور انسان یا ملک کی ہر اچھی بری بات پر خاموشی اختیار کرلینا یا ان کا ساتھ دینا ، آج کے جدید زمانے کا تقاضا ہے۔

مظلوم یا کم حیثیت لوگوں کی لڑائی لڑنے والے لوگ اس دنیا میں ناپید ہیں۔
جب میں بنک میں تھی تو خود سر اور بدتہذیب مینجر کی شادی پر جانے کی بجائے جب میں نے غریب ٹی بوائے کی شادی ، جو اتفاق سے ایک ہی دن ہو رہی تھیں،پر جانے کا فیصلہ کیا، کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس بارسوخ مینجر کی شادی پر تو سارا بنک آئے گا ، اس غریب کی شادی پر کون جائے گا ؟اس کے علاوہ مجھے پتہ تھا کہ مینجر ایک کینہ پرور اور بدتمیز انسان ہے جب کہ ٹی بوائے ہمارے ساتھ خلوص کے رشتے میں بندھا ہوا تھا۔

(جاری ہے)

۔ اس بات پر مجھے ابنارمل کہا گیا اور میں اسے واقعی ایک ذہنی بیماری سمجھ کر تمام عمر اس کرب میں مبتلا رہی کہ کسی بھی مسکین اورضرورت مند کے ساتھ جا کھڑے ہونا یاکمزور اوربے آواز کے لئے آواز اٹھانا، ایک مینٹل ڈس آرڈر ہے۔ اور وہ سچ جوکم ہمتی یا مصلحت یا فیشن کی وجہ سے کوئی بھی نہیں بول رہا ، ایسے سچ کو بولنا بھی ،ذہنی مرض ہے۔
مجھے کہا گیا یہ زمانے کا چلن نہیں جس پر تم چل رہی ہو۔

میں نے مان لیا کیونکہ اگر میں نارمل ہو تی تو کوئی ایک آدھ اور بھی تو میرے جیسا ہوتا۔۔ خاموش سی ہو گئی کیونکہ اپنا اصل دفن کر دیا اور خاموشی ، مصلحت اور برداشت کی پریکٹس کرنے لگی۔۔مگر خدا اپنی تخلیق کو شائد مسخ نہیں ہونے دیتا تو مجھ سے بھی ایک انسان آملا ، اس نے کندھے سے کندھا ملایا اور میرا اصل مجھے لوٹایا۔۔ اس کو کمزور کے لئے لڑتے دیکھا تو یہ یقین تو نہ آیا کہ میں نارمل ہوں مگر یہ تسلی ضرور ہو ئی کہ ایک سے دو بھلے۔

۔ وہ عرصہ مختصر رہا کیونکہ اس دنیا میں کچھ بھی مستقل نہیں۔۔ وہ منظر بھی تبدیل ہوا اور میں پھر سے اپنے اندر دفن ہو گئی۔
کبھی کوئی انسان تو کبھی کوئی ایک لفظ ،ایک جملہ، ایک کہانی ، ایک واقعہ یا کوئی فلم ،آپ کو جھنجوڑ دیتی ہے۔کچھ دن پہلے میرے ساتھ یہی ہوا ایک فلم نے میرے اندر بیٹھے اصلی انسان کو پھر سے بیدار کیا۔۔ اور مصلحت پسندی والی اپنی خاموشی کو میں نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور اس انسان کو یاد کیا جس نے مجھے کمزور اور بے آواز کی آواز بننے پر تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے غلط بات نظر انداز کئے بغیر آگے بڑھنے سے منع کیا تھا۔

غلط کو غلط نہ کہا گیا تو دنیا میں غلاظت ہی غلاظت رہ جا ئے گی۔۔
روح میں یہ انگڑائی شیسکپیئرئن ٹریجڈی "ہیملٹ" کو بنیاد بنا کر انڈین ڈائریکٹراور پروڈیسر وشال بھردواج کی 2014 میں بنائی گئی فلم "حیدر "کو دیکھ کر پیدا ہوئی۔کو رائٹر بشارت پیر کا اس فلم کے سکرپٹ میں زیادہ ہاتھ لگتا ہے کیونکہ جس طرح انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو دکھایا ہے یہ انڈیا کے کسی خوبصورت ترقی یافتہ شہر میں بیٹھ کر نہیں لکھا جا سکتا ،اس کے لئے ان گلیوں میں پیدا ہونا ، وہاں ہونے والی انڈین آرمی کے ہاتھوں روزمرہ ہونے والی ذلت کو سہنا ، مرتے ہو ئے رشتے داروں اور جلتے ہو ئے گھروں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور خود پر بیتا نہ ہو۔

۔ بشارت پیر کشمیر میں پیدا ہونے والا امریکن رائٹر ہے اور اس کے قلم سے لکھے گئے کشمیر میں ہو نے والے ظلم کو فلمانا کسی انڈین ڈائریکٹر کے لئے بھی جان جوکھم کا کام ہوگا اور اس میں کام کرنے والے فنکاروں کو بھی اپنی محب وطنی ثابت کرنے کو کیا کیا نہ جتن کرنے پڑے ہو نگے۔ مگر ان لوگوں نے خاموش رہنے کی بجائے ، مصلحت پسندی کا گلہ گھونٹ کر آزادی اظہار اور جمہوریت کی علمبردار دوغلی قوم کو انسانیت کے منہ پر طمانچہ مارتے دکھایا ہے۔

ایک بات تو طے ہے کہ انٹرنیٹ کے تیز رفتار دور میں خبر کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو چند لمحوں بعد ہی دماغ سے نکل جاتی ہے۔ وہ اور زمانے تھے جب انڈین آرمی کو ایک نہتے کشمیری کو دھکا مارتے دیکھ کر ہی لوگ کئی کئی دن تک انسانیت کی اس ذلت کا ماتم مناتے رہتے تھے۔ اب چار بچے یہاں مر گئے آٹھ کی آنکھیں چلی گئیں ،دس معذور ہو گئے ، دو گاوں جل گئے اور ان میں انسان نامی مخلوق بھی تھی ، فلاں جگہ بم گرا اور ساٹھ لوگ مر گئے۔

۔۔ بے تحاشا موتوں کا پڑھ کر بھی ماتم منانے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ بے حسی کے اڑدھے نے انسانیت کو نگل لیا ہے۔مگر جب خبر کی صورت نہیں بلکہ کہانی کی شکل یا فلم کی صورت ایسے دل خراش انسانی تذلیل اور ظلم کے مناظر پڑھے یا دیکھے جاتے ہیں تو دل و دماغ کو متاثر کرنے کی ذیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔۔
جب سچ کا ساتھ دینے والے خاموشی اوڑھ لیں تو جھوٹ بولنے والے ننگا ناچ ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہی مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے۔ کشمیر کو اپنی ریاست کہنے والے بھارتی حکمران کیا کشمیر میں اپنی باقی ریاستوں جیسا سلوک روا رکھے ہو ئے ہیں ؟ ان کے سروں پر زبردستی سوار ہو کر انہیں اپنا اکھنڈ حصہ کہنے والوں کو یہ احساس ہے کہ یہ انٹرنیشنلی متنا زعہ علاقہ ہے ؟پنڈت جواہر لال نہرو نے جب یو این اومیں کشمیریوں کی رائے شماری کا وعدہ کیا تھا توآج اس کی بات کی یاد دہانی کروانے کو" ماضی کے گھڑے مردے نہ اکھاڑے جائیں" کہہ کر بات ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کیا جھوٹے ماضی کی بنیاد پر سچ کا حال تعمیر ہو سکتا ہے ؟ کیاوعدہ خلافیوں ، ہٹ دھرمیوں اور بدمعاشیوں کی تاریخ پر روشن مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے ؟۔
جب مکتی باہنی والے سرحد پار کر کے انڈین کے ہاتھوں ٹرینڈ کئے جاتے تھے تو کیا وہ دہشت گرد نہیں تھے ؟ ریاستِ وقت کے ظلم اور نا انصافی کے خلاف اٹھنے والے چاہے وہ بنگالی ہو ں یا کشمیری ، خالصتانی ہوں یا بلوچی یا تو سب دہشت گرد ہیں یا پھر یہ سب اپنے حقوق کی لڑائی لڑتے آزادی کے مجاہد ہیں۔

سرحد پار ان کو سپورٹ کرتی حکومتیں یا تو دونوں مجرم ہیں یا دونوں مظلوم کی طاقت۔۔آپ کا کتا ٹومی اور میرا کتا کتا نہیں ہو سکتا۔۔ میرا کتا انہی خواص کے ساتھ ٹومی ہی کہلائے گا۔۔ مگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔جو طاقتور ہے ،دنیا کو جس کی معیشت اور سہارے کی ضرورت ہے ، اس کے کئے گئے ظلم اور زیادتی کو نظر انداز کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ اور جو اپنے اندرونی مسائل میں گھرا چھوٹا ملک پاکستان ہے اسے ہر چیز کے لئے قصور وار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔

 
پاکستان ، کی غیرت و حمیت ہی ہے جو اتنے سالوں سے اپنے موقف پر قائم ہے اور جو ریاست انڈیا نے اپنی بدمعاشی کی وجہ سے قبضے میں کر رکھی ہے اور جہاں دھڑلے سے کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت استعمال نہیں کرنے دیا جا رہا ، دنیا میں کسی کو جرات نہیں کہ ان کی اس کھلم کھلا ہٹ دھرمی پر کچھ کہہ سکے۔۔ ان کے اپنے ملک میں بیٹھے باضمیر لوگ جب ہلکی سی آوازاس ظلم کے خلاف اٹھاتے ہیں تو ان کی جان کو لالے پڑ جاتے ہیں یا جان سے ہی جاتے ہیں۔

۔ یہ ہے سیکولر اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت۔تقسیم ہندوستان کے وقت حیدر آباد کی ریاست میں ہندو اکثریت میں تھے اور راجہ مسلمان تھا مگر اسے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا ہ عوام کی اکثریت کی خواہش یہ تھی اس کے برعکس کشمیر میں راجہ ہندو تھا اور عوام مسلمان اکثریت میں تھے،مگر اسے پاکستان میں نہیں شامل کیا گیا ، بلکہ پنڈت صاحب نے اس معاملے میں ایسی ہٹ دھرمی اور بدمعاشی دکھائی جو آج تک بھارت کی سیاست اور ثقافت کا مستقل چہرہ بن گیا ہے۔ اور شائد پو ری دنیا میں جو جتنی بدمعاشی کرے گا اتنا ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گا۔۔ کسی بھی سطح پر ظلم اور زیادتی کے خلاف خاموش رہنا ظالم کو مضبوط کرنا ہے۔ بدمعاشوں کی اس دنیا میں بدمعاشی دکھائے بغیر جینا حرام ہی لگتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

badmashon ki is duniya mein is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.