چین کیخلاف امریکہ کے خفیہ عزائم بے نقاب

چاہ بہار بندرگاہ سے بے دخل ہونے پر بھارت کو شدید معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا

بدھ 10 فروری 2021

China Ke Khilaf America K Khufiya Azaim Benaqab
راؤ محمد شاہد اقبال
جس طرح راز کی بات کسی پر افشاء ہونے کے بعد راز نہیں رہتی بعینہ اسی طرح اگر ایک خفیہ رپورٹ کی مندرجات کسی بھی ذریعے سے دنیا بھر پر افشاء ہو جائیں تو ایسی دستاویز کے خفیہ ہونے پر اصرار کرنا بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک ”ابلاغی بے وقوفی“ امریکی ویب سائٹ ایکسیوس کی جانب سے اس وقت دیکھنے میں آئی،جب ویب سائٹ کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ ”ان کی باریک بین نگاہوں سے وائٹ ہاؤس انتظامیہ کی ایک ایسی خفیہ رپورٹ گزری ہے جس میں چین سے نمٹنے کے لئے بھارت کو چین کے سامنے کھڑا کرنے کے لئے ممکنہ عالمی حکمت عملیوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے“۔

ویب سائٹ منتظمین کے مطابق یہ خفیہ رپورٹ 10 صفحات پر مشتمل ہے جسے 2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ نے خصوصی طور پر تیار کیا تھا اور اس دستاویز میں اس امریکی پالیسی کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ جس پر عمل پیرا ہو کر بھارت کو اگلے 3 برس میں چین کے خلاف سیاسی،معاشی،دفاعی اور عسکری محاذ پر کس طرح سے کھڑا کرنا ہے۔

(جاری ہے)


یاد رہے کہ اب تک خفیہ کہلائی جانے والی مبینہ دستاویز کے بارے میں ایکسیوس ویب سائٹ کا دعویٰ مکمل طور پر درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ اگر امریکی دستاویز میں درج عالمی حکمت عملیوں پر درست معنوں عمل ہوا ہو تو پھر 2021ء ہی وہ سال بنتا ہے جس میں بھارت کو چین کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑا ہو جانا چاہئے بظاہر 21 ویں ایک مستند امریکی تھنک ٹینک کی قابل بھروسہ ویب سائٹ ہے نیز جو خبر ویب سائٹ کے منتظمین نے پیش کی ہے اس طرح کی ملتی جلتی خبریں پہلے بھی عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہیں اس لئے یہ خبر اتنی بھی خفیہ نہیں ہے جتنی کہ اس کی بار بار گردان کی جا رہی ہے لیکن یہ خبر دنیا بھر میں زیادہ ہلچل کا باعث کچھ اس لئے بھی بنی ہوئی ہے کہ بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کی خبر کے ساتھ پہلی بار وائٹ ہاؤس کو براہ راست منسلک کیا گیا ہے۔


عالمی ذرائع ابلاغ میں پورے شدومد کے ساتھ زیر بحث ہے کہ گزشتہ 3 برس میں اس خفیہ امریکی دستاویز پر کتنا عمل ہو چکا ہے؟یا بھارت چین کے خلاف کھڑا ہونے کی کس قدر طاقت ور حیثیت میں آچکا ہے؟لیکن ہمارے خیال میں اس طرح کے دیگر سوالات کے جوابات حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ کیوں نہ پہلے یہ معلوم کر لیا جائے کہ آخر وائٹ ہاؤس کی خفیہ قرار دی جانے والی دستاویز الیکٹرانک میڈیا عالمی پرنٹ میڈیا پر افشاء ہونے کے بجائے ایک چھوٹی سی غیر معروف ویب سائٹ کے ہاتھ کس طرح لگ گئی؟،واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس کی اس خفیہ رپورٹ پر کئی عالمی تجزیہ کاروں کو شدید تحفظات ہیں اور وہ امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ ”چونکہ ایک ویب سائٹ سے منسلک افراد میں ”اہم خبر“ تلاش کرنے کی وہ صلاحیت نہیں ہوتی ،جو کہ ایک پیشہ ور صحافتی ادارے یا صحافی میں پائی جاتی ہے اس لئے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ خفیہ دستاویز ٹرمپ انتظامیہ نے خود ہی ویب سائٹ کو فراہم کر دی ہو۔

تاکہ امریکہ میں جاری داخلی بحران میں انتظامی بحران کا تڑکا لگا کر نئے امریکی صدر جوبائیڈن کے لئے وائٹ ہاؤس میں مشکلات کھڑی کی جا سکیں کیونکہ اس خفیہ دستاویز کے منظر عام پر آنے چین نے جس طرح کے جارحانہ ردعمل کا اظہار کیا ہے یقینا اس سے جوبائیڈن کی نئی انتظامیہ کی سفارتی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے “جبکہ بعض ماہرین سیاسیات یہ بھی سوالات کر رہے ہیں کہ چین کے خلاف وائٹ ہاؤس میں تیار ہونے والی ایک اہم ترین دستاویز کے عالمی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے کے بعد مستقبل میں امریکہ کو فائدہ ہو گا؟یا چین کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا؟یا پھر بھارت کو سفارتی محاذ پر شرمساری اور سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا؟۔


دراصل ان تینوں سوالات کا ایک ہی جواب دیا جا سکتا ہے کہ اس خبر کی بے وقت اشاعت نے چین کے دیرینہ موقف کی مکمل طور پر تائید کر دی ہے کہ امریکہ،بھارت اور اپنے دیگر اتحادیوں کی مدد سے اس کی ملکی بقا اور سلامتی کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے لہٰذا،اس خبر سے چین کو زبردست فائدہ ہی ہوا ہے جبکہ بھارت کے سفارتی حلقوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری ہے کیونکہ بھارتی قیادت کے منافقانہ موقف کے برعکس یہ خبر ثابت کرتی ہے کہ بھارت مکمل جانبداری کے ساتھ ہر محاذ پر چین کی مخالفت کرنے کی کوشش کر رہا ہے پس!جیسی خبر،ویسا جواب کے مصداق چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”چین کے ہاتھوں سفارتی محاذ پر پے درپے شکستوں کے باوجود بھی کچھ امریکی رہنماء چاہتے ہیں کہ وہ اپنی وراثت خفیہ دستاویزات کے ذریعے چھوڑ کر جائیں لیکن ان دستاویزات سے امریکہ کے برے ارادے ہی واضح ہو کر سامنے آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے علاقے کے امن اور استحکام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں یہ آمرانہ حکمت عملی ہے جسے ہم کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے جبکہ خفیہ دستاویز میں پیش کی گئی حکمت عملی سے سرد جنگ والی ذہنیت اور اپنے مخالف ممالک کو فوجی تصادم پر اکسانے والی بدنیتی کی عکاسی ہوتی ہے مگر ہم امریکہ اور اس کے تمام اتحادیوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی یہ حکمت عملی اب کی بار بری طرح سے ناکامی سے دو چار ہو گی۔


چین اپنے علاقے میں ہر خطرے سے نمٹنے کے لئے پوری طرح سے چوکس اور تیار ہے“۔چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے واضح،بے باک اور جارحانہ ردعمل سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین اپنی ریاستی سلامتی کے خلاف کھڑا ہونے والوں کے مقابل کس طرح کی مضبوط سفارتی حکمت عملی اور دفاعی تیاری رکھتا ہے،ویسے یہ خفیہ رپورٹ بھلے کتنی بھی مصدقہ یا غیر مصدقہ کیوں نہ ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکہ کی لاکھ خواہش اور کوشش کے باوجود بھی بھارت تین برسوں میں خفیہ دستاویز کے مندرجات کے مطابق حسب منشا نتائج دینے سے قاصر رہا ہے بلکہ کہنا تو یہ چاہئے کہ جس بھارت نے خطے میں چین کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں کھڑا ہونا تھا۔

بد قسمتی سے آج کل وہ ہی بھارت وادی لداخ میں چین کے سامنے لم لیٹ یعنی عسکری محاذ پر پوری طرح سے ملیا میٹ ہو چکا ہے۔ہمارا تو خیال ہے کہ وائٹ ہاؤس انتظامیہ نے بھارت قیادت کو دنیا بھر میں تماشا بنانے کے لئے جان بوجھ کر رپورٹ کو افشا کروایا ہے۔تاکہ بھارت کو احساس شرمندگی میں مبتلا کیا جا سکے کہ انہوں نے چین کے خلاف کھڑا ہونے کے لئے اسے کتنی معاشی و عسکری مدد بہم پہنچائی لیکن بھارتی قیادت پھر بھی چین کے خلاف امریکی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب نہ ہو سکی،حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک امریکی وزارت خارجہ نے ایکسیوس ویب سائٹ کی جانب سے دی جانے والی خبر کی واشگاف الفاظ تردید نہیں کی ہے جبکہ بھارت بھی ابھی تک اس خبر کی تردید کرنے کے لئے مناسب سفارتی الفاظ کا ذخیرہ مجتمع نہیں کر سکا ہے بہرکیف اب بھارت کے لئے چین کے ساتھ جاری تصفیہ طلب تنازعات کا کوئی پرامن اور دیرپا حل نکال پانا مزید مشکل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ وائٹ ہاؤس کی اس رپورٹ کے منظر عام آنے کے بعد چین بھی یقینا بھارت کو امریکہ ایما پر اپنے سامنے کھڑا ہونے کے ناقابل معافی جرم کی کوئی نہ کوئی سزا تو ضرور دینا ہی چاہے گا۔


چین کی جانب سے مستقبل قریب میں بھارت کو دی جانے والی سزا معاشی میدان میں ہو سکتی ہے اور عسکری میدان میں بھی اور اس سمت پیشرفت شروع بھی کر دی گئی ہے اور ایران کے اندر کثیر سرمایہ کاری کرکے بھارت کو چاہ بہار بندرگاہ سے بے دخل کرنا بھارت کے معاشی مفادات کو زک پہنچانے کی ایک کوشش ہی تو ہے جبکہ عسکری میدان میں چین پہلے ہی بھارت سے وادی گلوان کا ہزاروں کلو میٹر کا علاقہ اپنے قبضے میں لے چکا ہے علاوہ ازیں بھوٹان،نیپال اور سری لنکا کا اپنے سرحدی علاقوں میں بھارت کو آنکھیں دکھانا، چینی آشیرباد کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا،یوں سمجھ لیجئے کہ جنوبی ایشیاء میں بھارت کی بڑھتی ہوئی سیاسی و سفارتی تنہائی کے سارے تانے بانے چین ہی بن رہا ہے۔

بلاشبہ تین سال قبل 2018ء میں ضرور بھارت کے بارے میں یہ موہوم سا گمان رکھا جا سکتا تھا کہ اسے چین کے خلاف کھڑا کیا جا سکتا ہے لیکن 2021ء میں بھارت کے بیرونی و داخلی بحرانوں کو دیکھتے ہوئے اتنی سی امید بھی نہیں رکھی جا سکتی کہ بھارت آنے والے ایام میں چین جیسی نئی عالمی طاقت کے خلاف گھٹنوں کے بل بھی کھڑا ہونے کی ہمت کر سکتا ہے ویسے بھی چین کو بخوبی ادراک ہے کہ اس کی عالمی بالادستی کے قیام کے لئے ازحد ضروری ہے کہ اس کے پڑوس میں بھارت جیسا بڑا ملک ایک مستقل معاشی و عسکری خطرہ کی صورت میں باقی نہ رہے اس لئے ہمیں یقین کامل ہے کہ بھارت کے ٹکڑے چین کی ہاتھوں ہی ہوں گے جبکہ پاکستان تو اس نیک کام میں فقط دامے،ورمے،سخنے معاونت فراہم کرے گا دراصل چین اپنے سپر پاور ہونے کا باقاعدہ اعلان اس وقت ہی کرے گا جس وقت اس کے پڑوس میں بھارت کے حصے بخرے ہو رہے ہوں گے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

China Ke Khilaf America K Khufiya Azaim Benaqab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 February 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.