یورپ میں اسلامو فوبیا کا طوفان بدتمیزی

اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کیخلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے

ہفتہ 7 نومبر 2020

europe main islamophobia ka tofan e badtameezi
رابعہ عظمت
ایک بار پھر اہل مغرب نے اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے،ایک بار پھر مسلمانوں کے دل چھلنی کر دیے گئے،ایک بار پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے نشر کیے گئے اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر آئندہ کے لئے بھی سند جواز فراہم کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی۔ اس نازیبا حرکت پر پوری اسلامی دنیا سراپا احتجاج ہے،دینی غیرت اور ایمانی حمیت رکھنے والے محبان رسول سڑکوں پر نکل چکے ہیں،مسلم ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔کئی عرب کمپنیوں اور تاجر تنظیموں نے فرانسیسی اشیا کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔فرانس یورپ کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں اور وہاں ان کی آبادی پچاس لاکھ ہے جو کسی بھی یورپی ملک سے زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

یہ تعداد فرانس کی آبادی کا دس فیصد بنتی ہے۔یاد رہے کہ 2005ء میں بھی پیرس میں عوامی مقامات پر مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر اعتراض کیا گیا اور اس معاملہ پر تصادم کی نوبت آئی۔

یہ معاملہ اتنا آگے بڑھا کہ 2010ء میں فرانس میں حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اس کے بعد 2011ء میں فرانسیسی میگزین’چارلی ہیبڈو‘نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کارٹون بنانے کی جرات کی،جس سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی اور اس گھناونی حرکت کے خلاف مسلمانوں نے عالمگیر سطح پر احتجاج درج کرایا۔تقاضا تو یہی تھا کہ فرانس اہانت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کوئی موٴثر قانون وضع کرکے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتا جو جان بوجھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کر رہے تھے۔

لیکن فرانس نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا اور اب تو حد یہ ہوئی کہ موجودہ صدر میکرون نے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اور اس واقعہ کا الزام اسلام اور مسلمانوں کے سر پر ڈال دیا۔فرانس میں ایک اسکول ٹیچر کا قتل اور اس کے بعد چرچ میں تین بے گناہوں کی ہلاکت دراصل فرانسیسی حکومت اور صدر میکرون کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ ہے۔انھوں نے اس انتہائی سنگین معاملے کو اظہار رائے کی آزادی سے جوڑ کر اپنی بندوق کا رخ الٹے ان مسلمانوں کی طرف موڑ دیا جن کے جذبات کو چھلنی کیا گیا تھا۔

یورپ نے بھی ان کے اس اقدام کی تائید کرکے آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا۔در حقیقت فرانسیسی حکومت اور صدر میکرون کا طرز عمل فرانسیسی باشندوں میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔
اسلام اس وقت پورے یورپ میں تیزی سے پھیلنے والا واحد مذہب ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم شباب پر ہے اور نت نئے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔

اس سے قبل ہولینڈ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت سے متعلق کارٹون بنانے کا مقابلہ منعقد کرنا چاہتا تھا لیکن مسلمانوں کے پر امن احتجاج کے بعد اسے اپنے فیصلے سے رجوع کرنا پڑا۔عالمی برادری کو بھی چاہئے کہ توہین رسالت کے مرتکبین کی سزا کے لئے سخت قانون بنائے تاکہ اظہار رائے کے نام پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا سلسلہ بند ہو۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلامو فوبیا کا وائرس مغربی معاشرے میں ناصرف پھر سر گرم ہو چکا ہے،بلکہ بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے،اہل مغرب کا نسل پرستی اور اسلام دشمنی کو نظریاتی آزادی کے دائرے میں شامل کرنا ایک انتہائی غلط فعل ہے۔اس کے سدباب کے لئے اب مزید وقت ضایع کیے بغیر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،ورنہ عالمی امن کو بچانے کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہو سکے گی۔

ہمارے پیارے نبی اور مقدس دین کے خلاف اس قسم کی غیر اخلاقی حرکتیں،خاص طور پر ڈیمو کریسی،انسانی حقوق اور قوانین کی بالادستی کا واویلا مچانے والے ممالک اور ان کے سربراہوں کی پیشانیوں پر بدنما داغ ہیں۔
فرانس کے ایک اسکول ٹیچر نے آزادی اظہار رائے کا درس دیتے ہوئے اپنے طلبہ کے درمیان متنازعہ فرانسیسی میگزین (چارلی ہیبڈو) میں شائع شدہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے دکھائے۔

جس کے چند ہی روز بعد ایک غیرت مند محبت رسول نے اس ٹیچر کا سر قلم کر دیا،اور پولیس نے جائے وقوع پر ہی حملہ آور کو گولی مار کر قتل کر دیا بعد ازاں اس معاملے کو اسلامی دہشت گردی سے تعبیر کر دیا گیا۔ مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے ٹیچر کو ہیرو اور فرانسیسی جمہوریہ کے اقدار کا ترجمان قرار دیا نیز اسے فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا۔

اور اپنے ایک ٹویٹ میں زہر افشانی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس طرح کے خاکے شائع کرنے کی حمایت جاری رکھے گی۔دشمنان اسلام کو یاد رکھنا چاہیے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اہل اسلام کی عقیدت و محبت،نری جذباتیت پر منحصر نہیں ہے بلکہ یہ ان کے ایمان کا جز اور دین کا حصہ ہے،حضور ہی ان کی محبتوں کا مرکز اور ان کی تمناؤں کا محور ہیں،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی اتباع و پیروی میں ان کی ابدی سعادت کا راز مضمر ہے،
قرآن کریم نے جگہ جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے،ارشاد ہے:
”آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں او ر تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تم کو اندیشہ ہو،اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو،اگر تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ(سزا دینے کے لئے)اپنا حکم بھیج دے اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا“۔

(التوبہ:24)
ہندو یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ پر مبنی الحادی قوتوں اور شاتمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے تو رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔کبھی گستاخانہ خاکوں اور کلمات کے ذریعے امسلم امہ کے مذہبی جذبات مجروح کئے جاتے ہیں۔اقوام متحدہ کے اتحاد برائے تہذیب کے نمائندہ اعلیٰ مگیل آنجل موراتینو نے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بے چینی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذاہب اور مقدس شخصیات کی توہین سے سوسائٹی میں منافرت اور شدت پسندی کو ہوا ملتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار کا استعمال اس انداز میں ہونا چاہیے جس میں مذاہب،ان کی تعلیمات اور اصولوں کا احترام بھی ملحوظ رکھا گیا ہو۔فرانس اور یورپ میں عیسائی مذہب یا ان کی مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کو اکثریت کی دل آزاری قرار دیکر قابل گرفت تصور کیا جاتا ہے۔

مگر اقلیتوں کے جذبات کی کوئی قدر نہیں۔دراصل مغربی و فرانسیسی معاشرہ ایک منافقانہ معاشرہ ہے۔حالانکہ کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین کرنا یا ان کی شان میں گستاخی کرنا مجرمانہ فعل ہے اور جب بات رسول کائنات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ کی ہوتی ہے تو معاملہ کہیں زیادہ نازک ہو جاتا ہے۔مسلم ممالک میں ملعون فرانسیسی صدر میکرون کے اسلام مخالف بیانات پر غم و غصہ کا سلسلہ جاری ہے۔

سراپا احتجاج مسلم برادری کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔اسی تناظر میں ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ بھی مملکت خداداد کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہے کیونکہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھ کر اسے توڑنے کے درپے ہیں۔مودی کے یار ٹرمپ کی ہرزہ سرائیاں بھی اسی طرح جاری ہیں جنہوں نے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرکے مسلم دنیا پر دہشت گردی کا لیبل لگوانے کی سازش کی۔

موجودہ حالات کے پیش نظر ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر بھی ملکی اور قومی مفادات کی روشنی میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اسلامو فوبیا نامی اس بیماری کا آغاز کسی نہ کسی شکل میں خود اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی ہو چکا تھا،کفار و مشرکین نے خدا کی وحدانیت،غلاموں کی آزادی،طبقہ بندی کا خاتمہ اور عدل و مساوات کا مطالبہ کرنے والے ایک نئے مذہب کو ظہور پذیر ہوتے ہوئے دیکھا تو انہیں اپنے قدیم مذہب کو لے کر خوف ہونے لگا اور یہ اندیشہ دامن گیر ہو گیا کہ کہیں ہم اپنے آباء واجداد کے رسوم و رواج سے محروم نہ کر دیے جائیں۔

یہی خوف رفتہ رفتہ بڑھتا گیا،جب خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تو کفارو مشرکین کے دلوں کا خوف نکل کر باہر آگیا۔صحیح بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اس وقت کی بڑی سپر پاور(روم)کے بادشاہ کو اسلام کی دعوت کا خط بھیجا۔حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے امیر بصریٰ کے توسط سے وہ والا نامہ قیصر(ہرقل) کے دربار میں پہنچایا۔


قیصر نے حکم دیا کہ عرب کے لوگ ملک میں آئے ہوں تو ان کو حاضر کیا جائے۔اتفاق سے ابو سفیان قریش کے قافلہ کے ساتھ تجارت کے لئے ملک شام گئے ہوئے تھے اور مقام غزہ میں مقیم تھے۔ابو سفیان اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے،قیصر کے آدمیوں نے پورے قافلہ کو دربار میں حاضر کیا۔ہر قل نے ابو سفیان سے چند سوالات کے جوابات حاصل کیے،جس کی وجہ سے ہرقل کا اسلام کی طرف میلان پیدا ہوا۔

ہرقل نے ابو سفیان سے کہا کہ اگر آپ نے میرے سوالات کے صحیح جوابات دیے ہیں تو وہ(نبی)میرے پیروں کے نیچے زمین(بیت المقدس)کے مالک ہو جائیں گے۔مزیدکہا اگر میں اس نبی آخر الزامان تک پہنچ سکتا تو ہر قسم کی مشقت برداشت کرکے خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں دھوتا،چنانچہ ہرقل نے دروازے بند کرکے اپنے دربار میں روم کے چوہدریوں کو جمع کرکے خطاب کیا،اے رومیو!کیا تمہیں کامیابی ،ہدایت اور اپنی حکومت کی بقا چاہیے،پس اس نبی کے ہاتھ پر بیعت کرلو۔

ہرقل کی بات سن کر لوگ نیل گایوں کے بھاگنے کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے۔یہ تھی ان کفار کی اسلام سے وحشت اور نفرت،ابو سفیان نے بھی اسلام کے غلبہ کے خوف کا اظہار اس وقت کیا تھا،صحیح بخاری میں ہے کہ جب ہم دربار سے نکال دیئے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا بخدا ابو کبثہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم)کے لڑکے کا معاملہ تو سنگین اور عظیم ہو گیا۔اس سے تو رومیوں کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔پس مجھے برابر یقین رہا کہ عنقریب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غالب آجائیں گے،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی توفیق دی۔ابو سفیان نے اس وقت اسلام کے غلبہ اور اس سے خوف کا اظہار کیا تھا:لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل فرمایا اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

europe main islamophobia ka tofan e badtameezi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 November 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.