ہم پَہ جو گزری اسے کس طرح افسانہ کہیں!

بابری مسجد کی شہادت نے پورے ملک کے مسلمانوں کو جھنجھوڑ ہی کر نہیں رکھ دِیا تھا بلکہ اس خاک و خون سے آلودہ واقعے نے واضح کر دِیا کہ اس ملک میں مسلمان حشرات الارض کی طرح ہیں کہ کسی بھی وقت ان کو مسلا جاسکتا ہے۔

Nadeem Siddiqui ندیم صدیقی ہفتہ 23 فروری 2019

hum pe jo guzri usay kis terhan afsana kahin
گاندھی جی کے سینے میں سب کے سامنے(30جنوری1948ء) کو ناتھورام گوڈسے گولی اْتار دِی تھی،روایت ہے کہ مہاتما گاندھی کے لب پر جوآخری کلمہ تھا وہ۔۔ہے رام۔۔ تھا، جس سے یہ بالکل واضح ہوا کہ گاندھی جی ہندو عقائد کے پَیرو تھے اور وہ ہندو کہ جس نے اپنی زندگی کے سنہرے روز و شب ملک و قوم کے لئے وقف کر دِیے تھے، ا ور وہ ہندو شخص ایک ہندو(گوڈسے) ہی کے ہاتھوں جان سے مار دِیا گیا۔

اس کی وجہ محض یہ تھی کہ اس نے پاکستان کے حصے کی رقم دینے پر شدت کا مظاہرہ کیا تھا۔ حادثے کے بعد مقدمے کے دوران اور کئی عینی شاہدوں اور متعلقہ موضوع پر مطبوعہ کتابوں کی روشنی میں گاندھی جی کے قتل کے پسِ پردہ حسب ذیل مقاصد کار فرما تھے:
”گوڈسے کا خیال تھا کہ گاندھی کیبرت( بھوک ہڑتال) نے (جو اعلان کے مطابق جنوری کے دوسرے ہفتے میں ہونے والا تھا)، مرکزی کابینہ کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ 550 ملین روپے نقد 13 جنوری 1948ء کو پاکستان کے حوالے کردے، (اور نو آزاد بھارت کی حکومت 200 ملین روپے کی پہلی قسط پاکستان کے حوالے کر بھی چکی تھی، تاہم آزادی کے فوراً بعد جب پاکستان کی سرحد سے جنگجوؤں نے کشمیر پر حملہ کیا، جس کے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان لوگوں کو پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے، تب دوسری قسط کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

گوڈسے، آپٹے اور ان کے ہم نوا یہ محسوس کرنے لگے کہ ان اقدام کے ذریعے بھارت کے ہندوؤں کی قیمت پر پاکستانی مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کی جا رہی ہے۔ ( ایک روایت کے مطابق)گاندھی اور جواہر لعل نہرو کے اس فیصلے سے ولبھ بھائی پٹیل کو استعفٰی بھی دینا پڑا تھا۔ ایک دِلچسپ بات یہ بھی تھی کہ گاندھی کا ہندو مسلم امن کے واسطے اْپواس(برت) پاکستان کو پیسے دینے کے کابینی فیصلے کے بعد بھی تین دِن تک جاری رہا۔

“۔۔۔۔ 
گاندھی جی کے قتل کا کتناعجب اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ جس کا ایک(بنیادی) مشن عدم تشدد تھا وہی شخص جان لیوا تشدد کاشکار ہوگیا۔ شدت اور تشدد ایک ہی خاندان کے لفظ ہیں۔ ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ہندتوا جیسے مشن کی پہلی کامیابی گاندھی جی کا قتل ہی تھا۔ وہ نہرو کی دانش مندی کہیے یا کوئی اور نام دِیجیے کہ انہوں نے ریڈیو پر قاتل کی(مذہبی) شناخت ظاہر کر دِی تھی ورنہ چند ماہ قبل ملک کی تقسیم کے نتیجے میں انسانی جانوں کا جو ضیاع ہوا تھا ، ممکن تھا کہ وہ خونیں عمل پھر شروع ہو جاتا اور ظاہر ہے کہ اس فساد کے شکار ہندوستانی مسلمان ہی بنتے۔

خیر اْس وقت تو ایسا نہیں ہوا مگر آزاد ہندوستان میں پہلا فرقہ وارانہ اور منصوبہ بند جوفساد ہوا1961 میں جس کا نشانہ مدھیہ پردیش کا شہر جبل پور تھا۔1961 سیتاحال ملک بھر میں چھوٹے بڑے بیشمار فسادات ہوئے اور اس کا اصل نشانہ مسلمان ہی بنے اور بن رہے ہیں۔ معلوم اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں مسلمان ہی سب سے بڑی اقلیت ہیں اور آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمان کس کس سطح پر نشانہ بنتے رہے ہیں یہ ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے۔

جس کی ایک مصدقہ دستا ویز’جسٹس سچر کمیٹی رپورٹ‘ ہے۔۔۔ جبل پور سے جس مسلم کش فساد کا آغاز ہوا تھا اس میں ایک تاریخ 6دسمبر1992 کی بھی ہے جو خاک و خون سے عبارت ہے ، بابری مسجد کی شہادت نے پورے ملک کے مسلمانوں کو جھنجھوڑ ہی کر نہیں رکھ دِیا تھا بلکہ اس خاک و خون سے آلودہ واقعے نے واضح کر دِیا کہ اس ملک میں مسلمان حشرات الارض کی طرح ہیں کہ کسی بھی وقت ان کو مسلا جاسکتا ہے۔

6دسمبر1992 سے 1993 تک ہندوستانی مسلمانوں پر جو کچھ گزری، اسے کیسے بھلا سکتے ہیں جو نشانہ بنے تھے اور وہ لوگ جو بظاہر نشانہ نہیں بنے مگر تھے وہ بھی نشانہ۔۔۔۔۔ پورا ملک اس خاک و خون کی آندھی کی زد میں تھا اور بالخصوص ممبئی میں جو کچھ ہوا وہ ہم جیسے زندگی بھر نہیں بھولیں گے۔ اسی آگ و خون کے دور کا ایک واقعہ تغیرِ زمانہ کے باوجود ذہن میں چپکا ہوا ہے۔

انسانی ذہن فراموش طبع بھی ہے اور یہی انسان ہے کہ جس کے ذہن میں بعض یادیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں بھولے سے بھی وہ نہیں بھولتا۔ اس فساد میں مہاراشٹر بھرمیں اور خاص طور پر ممبئی میں شیو سینا کا جو کردار رہا ہے وہ ہماری ہندستانی تاریخ کا بد ترین غمازہے، وہ روداد یہاں بیان کرنا ،نہ مقصود ہے اور نہ ہی ممکن ہے کیونکہ ہماری عمر اور ہم سے بیش عمر کے سنجیدہ لوگوں کے دل و دماغ میں وہ سب کچھ ریکارڈ ہے۔

وہ جو اِس خون و خاک کا اصل واقعہ ہے اور جس سے ہم جیسوں نے یہ سمجھا کہ ہم ہندستانیوں کو کیا جتلایا گیا ہے۔ مارنے والا جب اپنی انتہا سے گزر چکا ہو، یا یوں کہیے کہ اس کے ہاں ہمیں مار نے کے بعد تھکن کا جو احساس پیدا ہوا ہوتب اس نے کیا کِیا۔ ممبئی کے بڑے اخبارات میں بہت ہی نمایاں طور پر سینکوں کے چیف کی یہ اپیل چھپی تھی( مفہوم)۔۔۔ اب بس کرو۔

۔۔ اس جملے میں کس قدر رحم ہے یا نہیں اس سے قطع نظراس سے پہلے جو کچھ ہمارے ساتھ کیا گیا وہ تو ذہن میں نقش ہے اس کا تصورآج بھی ذہن و قلب کو ماؤف کر دیتا ہے۔ برادرانِ وطن میں ہمارے ایک دوست کا یہ جملہ بھی نہیں بھولتا کہ ” سینکوں کے اس فساد نے تو ہندوستانی مسلمانوں کی اوقات بتا دِی ہے۔“
مولانا ابو الکلام آزاد کا ایک جملہ کسی سے سْن رکھا ہے کہ۔

۔۔(مفہوم)” سِکھ چونکہ لڑنے بھڑنے والی قوم ہے یہ تو اس ملک میں کسی طورزِندگی کر لے گی مگر مسلمانوں کا اللہ حافظ ہے۔“۔۔۔
اس قول کی صداقت مولانا آزاد کی نسبت سے کتنی ہے اس سے قطع نظر مگر اس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، ہر چند اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک میں اور بالخصوص دہلی میں سِکھوں پر جو کچھ گزری وہ بھی ایک بدترین واقعہ تھا مگر مسلمانوں کے مقابل اس ملک میں سِکھوں کی حالت ہم مسلمانوں سے کہیں بہتر ہے جس کی شہادت ’جسٹس سچر کمیٹی رپورٹ‘ ہے جسے کون ہے جو جھٹلا دے۔

۔۔۔ سکھوں کے ہاں بھی بیشمار کانگریسی ہیں مگر اس کے باوجود اْن کے ہاں اپنی سیاسی قوت کسی طور بہر حال زندہ اور توانا ہے ، البتہ سِکھوں کے مقابلے میں ہندوستانی مسلمانوں کو دیکھا جائے تو وہ کہیں پچھڑے ہوئے نظرآتے ہیں۔
جب کہ آزادی سے لے کر حا لیہ حکومت تک مسلمان ہر جگہ بلکہ ایک تعداد میں موجود رہا ہے مولانا ابوالکلام آزاد سے لے کر بیشمار مسلم قائدین ہیں مگر اْن کی قیادت کا اگر کوئی فائدہ کسی کو ہوا ہے جس کا بغورتجزیہ کیا جائے تو وہ فائدہ اْن کی ذات تک محدود ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں میں ایک بڑا طبقہ ایسا تھا اور ہے کہ جس کو اپنے مسلمان ہونے پر اصرار تھا یا نہیں مگر وہ اپنے آپ کو پیدائشی کانگریسی کہلانے میں فخر محسوس کرتا تھا اور ہے۔ ہمیں تو اس شہر کے ایک مولانا یاد آتے ہیں کہ جن کے بارے میں روایت ہے کہ ان کے مراسم مہاراشٹر کے ایک بڑے لیڈر اور وزیر اعلیٰ سے ایسے تھے کہ وہ اکثر اس کے گھر مسلمانوں کے کھانے کی دیگ پہنچایا کرتے تھے ان مولانا کے نام کے ساتھ اگر کوئی کارِ نیک مسلمانوں کے ذہن میں باقی ہے تو وہ یہ ہے کہ انہوں نے بعض فساد زدہ علاقوں سے مسلمانوں کو نکالنے میں ایک کردار ادا کیا تھا مگر انہی کے قرطاس ِکردار پر ایک دو نہیں کئی مسلمانوں کے ساتھ بد عنوانی کے الزام بھی درج ہیں۔

ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اللہ سب کچھ معاف کردیتا ہے مگر کسی نے اس کے کسی بندے کا حق مارا ہے تو اللہ کے نزدیک اپنی تمام تر نیکیوں کے باوجود وہ حق اور حق دار کا مجرم بنا رہے گا۔ اس ضمن میں(اللہ کی طرف سے)سزا و جزا کا اصول بھی سب کو معلوم ہے۔۔۔۔قدرت کا نظام عجب ہے وہ کبھی کبھی کسی کے منہ سے ایساکچھ کہلا دیتی ہے کہ جس میں حقیقت سورج کی طرح روشن ہوجاتی ہے۔

مہاراشٹر کے مسلم سیاسی منظر نامے میں رفیق زکریا کا نام نہایت نمایاں ہے وہ ریاست مہارشٹر میں کئی بار وزیر بھی رہے اور پارلیمان کے رْکن بھی، ان کی پوری زندگی ایک مسلم لیڈر کے طور پرمشخص ہے۔ مسلمانوں کے تئیں ان کے کارنامے بھی ،ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے ذہن میں ہوں مگر ہمارے ذہن میں کچھ باتیں ایسی ہیں جس سے ہماری ’اوقات‘ واضح ہوتی ہے۔

ایک تو یہ کہ جب 1992 میں1993 ممبئی کا مسلمان مارا جارہا تھا تو انہوں نے سینکوں کو جزیہ دینے کی بات کی تھی اور سب سے اہم بات جس میں ہماری اوقات کی کہانی چھپی ہوئی ہے وہ یہ تھی کہ(مفہوم)” میں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ ریاستی اور ملکی سیاست میں گزارا ہے۔ لہذٰا عمر کے آخری حصے میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ۔۔۔ہمارا ( برادرانِ وطن میں بالخصوص کانگریسیوں میں) کوئی دوست کوئی ہمدرد نہیں۔

رفیق زکریا کی اس بات نے ہمارے ذہن میں ایک سوال پیدا کیا کہ اس ملک میں ہم پیدا ہوئے اورمدت سے رہ رہے ہیں اور رہیں گے بھی مگر ایسا کیوں ہے کہ ہم نے برادرانِ وطن میں کوئی دوست کوئی ہمدرد نہیں بنایا؟؟ اور یہ معاملہ بھی غور طلب ہے کہ دشمن تو ہم نے اپنوں میں بھی خوب بنائے۔ کیا ہمیں اس سوال پر کچھ سوچنے کی ضرورت ہے یا صرف وہن ہی میں مبتلا رہیں گے۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

hum pe jo guzri usay kis terhan afsana kahin is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 February 2019 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.