مشرق وسطیٰ استعماری قوتوں کے نشانے پر

مغربی ممالک بھی ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے سخت خائف ہیں

جمعرات 17 دسمبر 2020

Mashriq e Wusta Istemari Quwatoon K Nishane Per
محمد عبداللہ حمید گل
مشرق وسطیٰ میں استعماری قوتوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا گھناوٴنا سلسلہ جاری ہے اور اس وقت ایران کی ایٹمی و جوہری صلاحیت اسلامی دشمنوں کے نشانے پر ہے۔ایران کے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کا قتل بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے جس نے مشرق وسطیٰ میں صورتحال کو مزید گھمبیر کرتے ہوئے خطے کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل سے ایک روز قبل خلیج فارس میں بحری بیڑے کی تعیناتی نے بھی کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔دوسری جانب مغربی ممالک بھی ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے سخت خائف ہیں۔جبکہ اقوام متحدہ نے ایرانی سائنسدان کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے تہران سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

(جاری ہے)

محسن فخری زادہ ایران کی وزارت دفاع کی ریسرچ اور انوویشن تنظیم کے سربراہ تھے اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے روح رواں تھے۔

ایرانی عظیم جوہری سائنسدان و محقق کرونا کی ویکسین بنانے پر مامور تھے۔محسن فخری زادہ اسلامی پاسداران انقلاب میں سینیئر عہدیدار تھے انہوں نے پاسداران انقلاب دستے میں 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد شمولیت اختیار کی تھی۔
شاہد بہشتی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی،پی ایچ ڈی کی ڈگری اصفہان یونیورسٹی سے لی ۔اپنے کیریئر کے آغاز پر 1991ء میں جامعہ امام حسین میں بطور فزکس پروفیسر درس و تدریس خدمات انجام دیں۔

فخری زادہ نے گرین سالٹ پروجیکٹ تنظیم کی قیادت بھی کی۔فخری زادہ کی جوہری پروگرام سے وابستگی کی بدولت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور امریکہ دونوں نے 2000ء کی دہائی کے وسط میں ان کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔کونسل کے مطابق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے جب فخری زادے کا انٹرویو لینا چاہا تو ایران نے ان کی عدم دستیابی کا بہانہ بنایا۔

2007ء میں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی ایک قرار داد میں فخری زادہ کی شناخت وزارت دفاع اور مسلح افواج الاجسٹک میں ایک سینیئر سائنسدان اور لاویزن شیان میں فزکس ریسرچ سینٹر (پی ایچ آر سی) کے سابق سربراہ کے طور پر ہوئی۔2010ء کی دہائی کے اوائل میں دفاعی انوویشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن قائم کی اور اس کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروں پر تحقیق میں رہنمائی بھی فراہم کی۔


اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایرانی سائنس دان کو نیو کلیئر ہتھیاروں کی تیاری کے شبے میں قتل کیا گیا۔ایران کے دعویٰ کے مطابق انہیں سیٹلائیٹ گن آپریشن کے ذریعے مارا گیا اور اس منظم حملے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا شبہ پایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو نے دو سال پہلے محسن فخری زادہ کا نام لیا تھا اور موساد نے اس سے پہلے بھی ان کے قتل کی ناکام کوشش کی تھی۔

اسرائیل کی ایک ویب سائٹ نے انکشاف کیا کہ فخری زادہ،ایران کے ان سائنس دانوں میں شامل ہیں جن کا نام موساد کی ہٹ لسٹ میں ہے۔ امریکہ نے الزام عائد کیا کہ تحقیق و ترقی جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔فخری زادہ 2008ء سے 2011ء تک ایس پی این ڈی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے۔تب مذکورہ ادارے کا الحاق مالیک اشتر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے کیا گیا تھا۔

2007ء میں ایرانی دستاویزات لیک ہونے پر ’سنڈے ٹائمز‘ نے انکشاف کیا کہ فخری زادے ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی شعبے کے چیئرمین ہیں جو جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو چلا رہی ہے۔مذکورہ دستاویزات کو آؤٹ لک برائے نیوٹران سے متعلق سرگرمیوں کے عنوان سے شائع کیا گیا کہ جس میں یورینیم ڈیوٹرائڈ نیوٹران کا چار سالہ منصوبہ کا ذکر ہے۔
فخری زادہ کو طبیعیاتی تحقیقی مرکز میں کلیدی حیثیت کے طور پر انہیں ایران کے پہلے یورینیم افزدو گی پلانٹ کا منصوبہ ساز مانا جاتا ہے۔

2010ء میں ’دی گارڈن‘ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ فخری زادہ ایرانی جوہری پروگرام کے انچارج ہیں۔2012ء میں’وال سٹریٹ جرنل‘ نے انہیں”جوہری ہتھیاروں کا گرو“ کہا۔فخری زادہ کے قتل کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں ملک کا ممتاز ایٹمی و دفاعی سائنسدان کہا۔مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت امریکہ نے پروپیگنڈہ کیا کہ فخری ایرانی جوہری پروگرام کے انچارج تھے اور ایران کے لئے جوہری بم بنا رہے تھے۔

جبکہ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن معاہدہ ہے دوسرے لفظوں میں ایران نیو کلیئر ڈیل میں شمولیت کے ایک سال بعد 2016ء میں ایران انٹرنیشنل کانفرنس سنٹر میں حسن روحانی نے فخری زادہ کو اعلیٰ اعزازات سے بھی نوازا تھا۔قبل ازیں 2010ء سے 2012ء کے درمیان چار نیو کلیئر سائنسدان مسعود علی محمدی‘ماجد‘شریری‘دریش رضا نژاد اور مصطفی احمدی روشن یکے بعد دیگرے قتل کر دئیے گئے تھے جبکہ ایک سائنس دان فریدون عباسی قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔

دو سائنسدانوں کو ان کی گاڑیوں میں ہی مقناطیسی بموں کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔دریش رضا نژاد کو گولی ماری گئی تھی اور مسعود علی محمدی کو موٹر سائیکل بم دھماکے میں ہلاک ہوئے۔ایران کے مطابق ایرانی سائنسدانوں کے قتل میں اسرائیل ملوث ہے۔مغربی و امریکی خفیہ ایجنسیوں نے بھی اسرائیل کے ملوث ہونے کی تصدیق کی تھی۔ جون 2012ء میں ایرانی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ سائنسدانوں کے قتل میں ملوث تمام ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

اسرائیل نے ان الزامات کی نہ تو تردید کی اور نہ ہی تصدیق۔تاہم اسرائیلی وزیر دفاع موشے یا الون نے کہا ہم ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کیلئے ہر طرح کے اقدامات کریں گے،ہمیں ایران کی ایٹمی صلاحیت برداشت نہیں اور ہم ایران پر پابندیوں کے حامی ہیں۔بعد ازاں 2013ء میں ایرانی جوہری ماہرین کے قتل کی مذموم مہم کو امریکی دباؤ پر ختم کر دیا گیا تھا۔


ایک پرائیوٹ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی ”سٹارٹ فور“ کے مطابق 2007ء میں بھی پانچ ایرانی سائنسدانوں کو موساد نے زہر دے کر مارا تھا ۔ایرانی حکومت کے مطابق 2015ء میں بھی موساد کی طرف سے ایک اور ایرانی جوہری سائنسدان کے قتل کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ ایرانی افواج کے سربراہ قاسم سلیمانی کو بھی رواں سال 3 جنوری کو بغداد میں ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔

جس کے جواب میں ایران نے بغداد میں امریکی بیس پر میزائل حملہ کیا تھا لیکن امریکہ کا کہنا تھا کہ ایرانی حملے سے قبل ہی بیس سے امریکی افواج کو نکال لیا گیا تھا۔لیکن محسن فخری زادہ کو ایران کی سر زمین پر شہید کیا گیا ۔یکے بعد دیگرے ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کی ہلاکتوں نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے ۔دراصل ایران کا میزائل پروگرام ہی مسلم دشمنوں کو کٹھک رہا ہے۔

جس کی اصل وجہ مشرق وسطیٰ میں صرف ایران کی علمی توانائی ہے جو امر استعماری طاقتوں کی بوکھلاہٹ کے شکار ہونے کا سبب ہے۔دوسری جانب اسرائیل براہ راست ایرانی میزائلوں کی زد میں ہے اس لئے یہ ایران کی ایٹمی صلاحیت کے درپے ہیں۔اس وقت اگر گریٹر اسرائیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو وہ ایران ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹرمپ جاتے جاتے بھی ایران کو مشتعل کرکے خانہ جنگی میں دھکیلنے کیلئے سرگرم ہے،مگر ایران کی جانب سے ”ہم بدلہ لیں گے مگر تحمل کے ساتھ“ کہہ کرکے امریکی عزائم خاک میں ملا دیئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mashriq e Wusta Istemari Quwatoon K Nishane Per is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.