
مہنگائی اور غیر معیاری اشیاء کا مسئلہ برقرار
حکومت پنجاب نے گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی انتظامیہ کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی ہے لیکن بعض خود غرض تاجر ہیں کہ اس کے باوجود لوٹ مار میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے
جمعہ 4 جولائی 2014

رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے ہاں ہر سال مہنگائی اور اشیائے صرف کی بلا تعطل فراہمی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ا گرچہ اس مہینے کو لوگوں میں رزق کی فراوانی کا وسیلہ ہونا چاہیئے لیکن کیا بڑے شہر اور کیا چھوٹے قصبات، چند شیطان صفت منافع خوروں کی وجہ سے پورا مہینہ عام لوگوں کیلئے مہنگائی کی پریشانی لے کر آتا ہے۔حکومت پنجاب نے گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی انتظامیہ کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی ہے لیکن بعض خود غرض تاجر ہیں کہ اس کے باوجود لوٹ مار میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ معاملے کی سنگینی کا اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خود وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف اس لعنت کے خلاف کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔ تین روز قبل انہوں نے اوکاڑہ میں رمضان بازار کا معائنہ کیا۔
(جاری ہے)
پنجاب کے سابق وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں نے مستعفی ہونے کے بعد سانحہ ماڈل ٹاوٴن کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل ٹربیونل کے روبرو بیان دے دیا ہے۔جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے گولی چلانے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔ اب جبکہ رانا ثنا اللہ اپنی پارٹی قیادت کی ہدایت پر وزارت سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ بلا شبہ پارٹی میں ان کے قد میں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیرعلی کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاوٴن کو جواز بنا کر چند تانگہ سوار پارٹیاں ملک میں انتشار پھیلانے کے لئے غیرملکی ایجنڈا پر کام کر رہی ہیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی کانفرنس چند خودساختہ لیڈروں کی انتشار کانفرنس تھی جو پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ مختلف سانحات سے بھری پڑی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاوٴن اور سانحہ کراچی ایئرپورٹ یقینی طور پر ایک ناقابل تلافی نقصانات ہیں۔ اگر عدالت عظمیٰ ان سانحات کا ازخود نوٹس لے لیتی تو چند حکومت مخالف جماعتوں کو اے پی سی بلانے کی جرات ہی نہ ہوتی۔ اب سانحہ ماڈل ٹاوٴن کو جواز بنا کر عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری جس سمت کی طرف پرواز کر رہے ہیں وہ سمت نہ انقلاب کی طرف جاتی ہے اور نہ نظام کی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی بلائی ہوئی اے پی سی جو سیاسی جماعتیں شریک ہوئیں ان میں پاکستان کی سیاست میں مذہبی نقطہ سے اپنا کردار ادا کرنے والی ایک جماعت بھی شامل نہیں تھی۔ جمعیت علماء اسلام کے دونوں دھڑوں یعنی مولانا فصل الرحمن اور مولانا سمیع الحق نے طاہرالقادری کی اے پی سی میں نہ صرف شامل ہونے سے انکار کر دیا بلکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی کے ایجنڈے کو تقویت فراہم کرنے کے لئے اپنا کاندھا پیش نہیں کریں گے۔ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے نمائندوں کی شرکت حب علی نہیں بغض معاویہ ہے۔ علامہ طاہرالقادری اور عمران خان خودپرستی کی رو میں اکیلے اکیلے پرواز کے لئے پر تول رہے ہیں اور یہ ہی طرز عمل ان کی ناکامی کی دلیل ہے۔ ورنہ صاحبزادہ احمد رضا قصوری جو مقدمات میں جنرل(ر) پرویزمشرف کے وکیل ہونے ناطے ان کی آل پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھتے ہیں، مولانا حامد سعید کاظمی جوحج سکینڈل میں سبکدوش ہونے والے سابق وزیر ہیں اور غلام مصطفی کھر جو محض پنجاب کے شیر کہلوانا پسند کرتے ہیں ان کا جماعتی سطح پر کوئی قد کاٹھ نہیں۔
اب طاہرالقادری اے پی سی نے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل کمیشن کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) اور غیرجانبدار سیاسی مبصرین اس مطالبہ پر سوال کر رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والے اس وقت کہاں تھے جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا سانحہ ہوا اور جنرل جمشید کیانی کے بقول فاسفورس بم تک استعمال کئے گئے اور کراچی میں چیف جسٹس کی آمد پر47 افراد شہید کر دیئے گئے اور اسلام آباد میں جنرل پرویزمشرف بازو اور مکے دکھا کر یہ فرما رہے تھے اسے کہتے ہیں عوامی طاقت کا مظاہرہ۔ اس وقت چوہدری شجاعت حسین، پرویزالٰہی اور ایم کیو ایم والے ڈکٹیٹر کے قدموں میں بیٹھے تالیاں بجا رہے تھے اور یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ سانحہ کراچی کی پرویزمشرف نے تحقیقات کرانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والے شیخ الاسلام خود اس سانحہ کے براہ راست ذمہ دار ہیں اور خواجہ سعد رفیق 16جون سے تیس جون تک کے بیانات کا حوالہ بھی دیتے ہیں جو ہر دوسرے یوم تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس وقت اگر طاہرالقادری عوامی حمایت سے محروم سیاست دانوں کو ایک چھتری تلے جمع کر کے انقلاب انقلاب کی صدائیں بلند کر رہے ہیں تو انقلاب برپا کرنے والے فوج کو نہیں پکارا کرتے۔ طاہرالقادری ہو، عمران خان ہو جنہیں وزیراعظم بننے کی بڑی جلدی ہے۔ شاید دونوں موصوف حقیقی انقلاب کی بنیادی شرط سے ہی آگاہ نہیں ہیں۔ اس وقت جب ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمیں قوم اتحاد و یگانگت کی ضرورت ہے ،حصول اقتدار کا ذریعہ انقلاب ہو یا سونامی کوئی بھی ذی شعور اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
مزید عنوان
Mehengai Or Gair Mayari Ashiya Ka Masla Barqrar is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 July 2014 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.