
ملک بھر کی نگاہیں جے آئی ٹی پر مرکوز
پانامہ پیپرز لیکس پر قائم کردہ جے آئی ٹی نے اپنی تیسری کارکردگی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے اور سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو 10 جولائی 2017ء تک حتمی رپورٹ جمع کرانے کا حکم جاری کر دیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے سپریم کورٹ موسم گرما کی تعطیلات کرنے کی بجائے پانامہ پیپرز لیکس پر جے آئی ٹی کی موصول ہونے والی رپورٹ کی روشنی میں کیس کی مزید سماعت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی
جمعہ 30 جون 2017

پانامہ پیپرز لیکس پر قائم کردہ جے آئی ٹی نے اپنی تیسری کارکردگی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے اور سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو 10 جولائی 2017ء تک حتمی رپورٹ جمع کرانے کا حکم جاری کر دیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے سپریم کورٹ موسم گرما کی تعطیلات کرنے کی بجائے پانامہ پیپرز لیکس پر جے آئی ٹی کی موصول ہونے والی رپورٹ کی روشنی میں کیس کی مزید سماعت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی اگر جے آئی ٹی نے شریف خاندان کے خلاف رپورٹ دی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ سپریم کورٹ جولائی یا اگست 2017ء میں سماعت مکمل کرنے کی کوشش کرے گی پورے ملک کی نظریں جے آئی ٹی پر لگی ہوئی ہیں اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہ ہو گی کہ ملکی سیاست جے آئی ٹی کے گرد گھوم رہی ہے اب تک جے آئی ٹی پر حکومت کی طرف سے عدم اعتماد کا تو اظہار نہیں کیا گیا لیکن اس کے طرز عمل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے سر دست وزیر اعظم محمد نواز شریف ، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وزیر اعظم کے صاحبزادے حسن و حسین جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔
(جاری ہے)
وزیر اعظم محمد نواز شریف نے شروع دن سے جے آئی ٹی پر سوالات اٹھائے ہیں ان کے سوالات کا کہیں سے جواب نہیں آیا انہوں نے کہا ہے پانامہ پیپرز کیس ایک تماشا ہے احتساب نہیں۔جے آئی ٹی تفتیش سے ملکی معیشت تیزی سے گر رہی ہے انہوں نے کہا کہ ”میں نے جے آئی ٹی ارکان سے پوچھا ہے کہ ” وہ کیا چیز ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا یہ کوئی کرپشن کا کیس ہے کوئی کمیشن لیا گیاہے یا پھر یہ سرکاری خزانے کی کسی لوٹ کھسوٹ کا معاملہ ہے؟ جے آئی ٹی کے ارکان کے سامنے میرے سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی میرے خاندان کے کاروبار کے گردگھوم رہی ہے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے انکشاف کیا ہے کہ ”جے آئی ٹی ہمارے خلاف 1972ء سے احتساب کر رہی ہے اور مجھ سے یہ پوچھا جا رہا ہے جب آپ دوبئی گئے تو وہاں پیسہ کہاں سے آیا ہے؟ جب کہ میں اس وقت سیاست میں تھا اور نہ ہی وزیر اعظم و وزیر اعلیٰ۔ ذولفقار علی بھٹو نے اتفاق فاؤنڈری قومیا لی اور ڈھاکہ والی فیکٹری بنگلہ دیش حکومت کو مل گئی اس پر میرا سوال بنتا ہے لوٹا تو ہمیں گیا اربوں روپے کی فیکٹری ہم سے چھین لی گئی اس کا ایک پیسہ معاوضہ نہیں دیا گیا “۔
موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جب سے نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ بنے ہیں ایک سال بھی گذرنے نہ پا یا تھا کہ انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے لئے ”نادیدہ قوتیں“ متحرک ہو گئی تھیں۔ جن قوتوں نے دھرنا ون کا ”سکرپٹ“ لکھا وہ سامنے آنے کی جرات کر سکے اور نہ ہی اپنے ا?لہ کاروں سے ان کی نالائقیوں کی وجہ سے سکرپٹ پرعمل درآمد کراسکے۔مطوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر نواز شریف مخالف عناصر آرام سے گھر نہیں بیٹھ گئے بلکہ انہیں پانامہ پیپرز لیکس کی شکل میں ایک اور ایشو مل گیا۔ جس کی آڑ میں دھرنا 2 دینے کی ناکام کوشش کی گئی۔اب نواز شریف مخالف قوتوں کو نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکامی کے بعد عدالتی فیصلے کے ذریعے نا اہل قرار دلوانے کی سوجھی ہے۔ ابھی تک انہیں اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ جے آئی ٹی“ شریف خاندان کو کسی نہ کسی کیس میں پھنسانے کے لئے کوشش کر رہی ہے اس کے بعد شریف خاندان تو جے آئی ٹی سے مایوس ہی ہو گیا ہے اس مایوسی کا اظہار وزیر اعظم محمد نواز شریف سے لے کر کیپٹن (ر) محمد صفدر تک کر چکے ہیں۔ کیپٹن (ر) محمد صفدر نے جے آئی ٹی کے سامنے 5گھنٹے کی پیشی بھگتنے کے بعد کہا ہے کہ ”جے آئی ٹی کو سوال باہر سے آرہے تھے“ ان سے ان کے ذرائع آمدن اور مریم نواز کے اثاثہ جات کے بارے میں استفسار کیا جاتا رہا انہوں نے الزام عائد کیا ہے ”ہنود و یہود نے پاکستان کے خلاف سازش کے لئے عمران خان کو ”پانامہ“ کی شکل میں دے دیا ہے جے آئی ٹی نے حسن و حسین نواز کو ایک بار پھر طلب کر لیا ہے جب کہ مریم نواز کو 5جولائی 2017ء کو پیش ہونے کا سمن جاری کر دیا گیا ہے۔ عام تاثر یہ تھا کہ پانامہ پیپرز لیکس کیس کے فیصلے میں مریم نواز کا کوئی ذکر ہی نہیں لہذا ان کو جے ا?ئی ٹی نہیں بلوائے گی لیکن جے آئی ٹی نے ان کو بھی بلوا لیا ہے۔ وہ اس وقت برطانیہ میں موجود ہیں اورجہاں انہیں اپنے صاحبزادے جنید صفدر کی گریجویشن کی تقریب میں شرکت کرنی ہے۔ مریم نواز کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا تاحال فیصلہ نہیں ہوا مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت ہی ان کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کے بدترین سیاسی مخالفین کو بلایا جا رہا ہے ان کا اشارہ سینیٹر رحمان کی طرف تھا، جنہیں حالیہ دنوں میں کمیٹی کے سامنے گواہ کے طور پیش کیا گیا۔ رحمٰن ملک نے شریف خاندان کی مبینہ منی لانڈرنگ سے متعلق اپنی تحقیقاتی رپورٹ جے آئی ٹی کے سامنے پیش کی ہے۔ سینیٹررحمان ملک نے کہاہے کہ آصف زرادری اور بلاول بھٹو نے ریکارڈ میں تبدیلی کی کوئی ہدایت نہیں کی۔ انہوں نے پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے خط کے جواب میں تین خط لکھے ہیں اور یہ تمام خط و کتابت انہوں نے سابق ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے کی حیثیت سے کی اور اسی حیثیت سے پیش ہوئے ہیں، انہیں ڈرایا دھمکایا گیا ہے لیکن وہ پھربھی جے آئی ٹی میں پیش ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کی تحقیقات سے متعلق وہ سب جانتے ہیں۔ رپورٹ میں جو لکھا ہے وہ اس پر قائم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”میثاق جمہوریت اسی دن ختم ہو گیا تھا جس دن نواز شریف کالی ٹائی لگا کر سپریم کورٹ گئے تھے“۔وزیر اعظم محمد نواز شریف جو اپنی سیاسی زندگی کی مشکل ترین انگز کھیل رہے ہیں نے حوصلہ نہیں ہارا اس مشکل وقت میں بھی سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کھل کر ان کی مدد کو آئے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ” ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ نے قتل کیا۔ مجھے عدالت میں بلائیں پھر پوچھوں گا، سپریم کورٹ کو سیسیلین مافیا نہیں کہنا چاہیے یہ حق اسے کس نے دیا؟ وزیراعظم اور ان کے صاحبزدے آئین سے بالاتر نہیں، سپریم کورٹ سب کو طلب کرے تاکہ حقائق معلوم ہوں، سپریم کورٹ ہمارے لیے قابل احترام ہے۔ پانامہ کا احتساب لازمی ہے منی ٹریل لازمی دینا چاہیے ۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہو کر جہاں عدلیہ کی بالادستی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے وہاں انہوں نے کھل کر ان سازشوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے پس پردہ کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے جمہوریت کے خلاف سازش کی بو آ رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے برملا کہا ہے کہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم پانامہ پیپرز لیکس کی تحقیقات کے مینڈیٹ سے تجاوز کر رہی ہے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے ان کی ”گورنس“ کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جا رہا بلکہ ان سے ان کے خاندان کے کاروبار کے بارے میں سوالات کئے جا رہے ہیں۔ لامحالہ مسلم لیگ کی جانب سے بھی شدید رد عمل آیا ہے اور مسلم لیگی رہنماؤں کی جانب جے آئی ٹی کے طرز عمل پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے 2018ء میں 20 کروڑ عوام کی بڑی عدالت اور بڑی جے آئی ٹی لگنے کے بارے میں کہا ہے وزیر اعظم کو ” ”عدالتی“ فیصلہ سے سیاست سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو وزیر اعظم ایک بار پھر ”مظلوم“ سیاست دان کے طور پر قومی افق پر نمودار ہوں گے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف شیڈول سے قبل پاکستان واپس آگئے ہیں انہوں نے جولائی کے مہینے میں ملک بھر کے طوفانی دورے کا پروگرام بنایا ہے اور اس سلسلے میں پارٹی قائد سے اظہار یک جہتی کیلئے کال دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) اپنی سیاسی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرے گی اور ان قوتوں کو جو انہیں گھر بھجوانے کا خواب دیکھ رہی ہیں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرے گی کہ اس کے الٹے نتائج نکلیں گے نواز شریف کو کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
Mulk Bhar Ki Nigahain JIT Per Markooz is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 June 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.