پاکستان کا معاشی ہب کراچی بے رحم موجوں کی نذر

پیپلز پارٹی کے ”سیاسی وعدے“ ”سیاسی بخارات“بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئے

منگل 22 دسمبر 2020

Pakistan Ka Muashi Hub Karachi Berehem Mojoon Ki Nazar
راوٴ محمد شاہد اقبال
مثال مشہور ہے کہ”ایک انسان کے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں کبھی بھی برابر نہیں ہوتیں“لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ کھاتے وقت یہ پانچوں انگلیاں ایک برابر ہو جاتی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ بالکل ایسے ہی کراچی شہر کے مستقبل کو بنانے،سنوارنے اور چمکانے کے لئے سندھ کی سیاسی جماعتیں کبھی بھی نہ تو ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ ”سیاسی اتفاق“قائم کر سکی ہیں اور غالب امکان یہ ہی ہے کہ نہ ہی آئندہ کبھی قائم کر پائیں گی لیکن جب بات آجائے کراچی کے وسائل کو لوٹنے کی،کراچی کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی ،کراچی کے تاجروں سے بھتہ لینے یا کراچی کے عوام کا معاشی و سیاسی استحصال کرنے کی تو کم از کم اس طرح کے نفع بخش معاملات پر کراچی کی تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی صف میں برابر،برابر کھڑی نظر آتی ہیں زیادہ دور کیوں جائیں چند ماہ قبل کی ہی تو بات ہے کہ کراچی میں ابر رحمت اتنا برسا کہ سارا شہر کئی ہفتوں تک کے لئے بارش کے پانی میں ڈوب گیا مگر اس وقت کراچی پر گزشتہ چالیس برسوں سے یکے بعد دیگرے حکمرانی کرنے والی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی ڈوبتے شہر کی ذرہ برابر بھی”انتظامی ذمہ داری“ اپنے کاندھوں پر لینے کو تیار نہ ہوئیں۔

(جاری ہے)


ایم کیو ایم پاکستان کا اصرار تھا کہ ”ہمیں تو کبھی شہر کا مکمل حکومتی انتظام ملا ہی نہیں،اس لئے ہماری پالیسیاں شہر کو کیسے اور کیونکر ڈبو سکتی ہیں؟“ جبکہ گزشتہ 12 برسوں سے سندھ پر مسلسل راج پاٹ کا فقید المثال حکومتی ریکارڈ قائم کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ کہہ کر اپنا دامن عوام کے ہاتھوں سے صاف چھڑا لیا کہ ”ہم نے تو شہر میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے تھے لیکن افسوس!کم بخت،بارش ہی اتنی زیادہ تھی کہ ہمارے کروائے گئے سارے ہی ترقیاتی کام خس و خاشاک کی مانند بارش کے پانی میں بہہ گئے“،دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے کراچی شہر کے ساتھ مکمل”اعلان لاتعلقی“کی اطلاع عام ہو جانے کے بعد اہلیان کراچی کی دل جوئی کے لئے پاکستانی افواج کو مداخلت کرنا پڑی اور بالآخر شبانہ روز کی کڑی محنت کے بعد افواج پاکستان نے شہر کراچی کو بارش کے پانی میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ڈوبنے سے بچا لیا۔

اچھی بات ہوئی کہ کراچی ڈوبنے سے بال بال بچ گیا لیکن اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہوئی کہ شہر پر حکومت کرنے والوں کی”بدحال حکومت“بھی ایک بار پھر سے بچ گئی۔
کراچی کے باسیوں نے جہاں شہر بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کیا،وہیں سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی حکومت بچ جانے پر غیر سیاسی اشاروں کنایوں میں افسوس کا اظہار بھی خوب کیا۔بہرحال جس حکومت کو ڈوبتے شہری نظر آئے تھے،اسے دھوپ سینکتے شہری کیا خاک نظر آتے،گویا رات گئی،بات گئی اور حالیہ بارشوں سے پہلے اور بعد میں شہر کی تعمیر نو کرنے کے لئے سندھ حکومت نے جتنے بھی بلند بانگ”سیاسی وعدے“ کیئے تھے،وہ سب کے سب ”سیاسی بخارات“بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئے کیونکہ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ”اب سندھ حکومت کراچی کے جزیرے آباد کرنے میں بھرپور سیاسی و انتظامی دلچسپی رکھتی ہے“حالانکہ جس طرح سندھ حکومت نے شہر کراچی کو اپنے ”حسن انتظام “سے فیض یاب فرمایا ہے اگر یہ ہی انتظامی و سیاسی وارداتیں کراچی کے جزیروں پر بھی کرنے کی کوشش کی گئی تو خاطر جمع رکھیئے کہ کراچی کے جزیرے آباد ہوں یا نا ہوں بہرکیف کچھ طاقت وار جیالوں کے عالیشان آشیا نے ضرور آباد ہو جائیں گے۔


لطیفہ ملاحظہ ہو کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے عوام الناس کو باوریہ کرایا جا رہا ہے کہ”کراچی کے جزیرے سندھ کی ملکیت ہیں اور ان پر وفاق کو ڈاکا نہیں ڈالنے دیا جائے گا“اس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ سندھ کی ملکیت پر ڈاکا ڈالنے کا تمام تر اختیار یا کاپی رائٹ فقط سندھ کی سیاسی جماعتوں کو ہے،کتنا اچھا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی جاتی کہ ”کراچی کے جزیرے جو کہ سندھ کی ملکیت ہیں، اس پر کسی بھی شخص یا سیاسی جماعت کو کرپشن کا ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی“دیکھیں بات وہی ہے،بس”سیاسی نیت“کے فرق سے بات کا مطلب کچھ جدا ہو گیا ہے اور شاید موٴخرالذکر مطلب سندھ حکومت کے وارے میں نہیں ہے،ویسے بھی اہلیان کراچی کو سمندر کے درمیان موجود اپنے سنسان جزیروں کے ماضی،حال اور مستقبل سے کوئی خاص غرض ہے بھی نہیں کہ انہیں وفاق آباد کرے گا یا پھر سندھ حکومت برباد کرے گی۔

جلیسان کراچی تو بس!کراچی کو آباد اور شاد دیکھنا چاہتے ہیں،مگر کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ کراچی شہر جس میں زندہ جاوید کروڑوں افراد بستے ہیں۔
سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اتنے بڑے شہر کی خاک برابر پرواہ کرنے کے بجائے چند بے آب و گیاہ،سنسان جزیروں کے جنگل میں منگل منانے کے لئے وفاق پاکستان کے خلاف صف آرا ہونے کے لئے اپنی تمام تر ”سیاسی تیاریاں“ مکمل کر چکی ہیں۔

طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ سندھ کی ساری جماعتیں ہی کراچی کے جزیروں کا حال بدل کر شہر کراچی کا مستقبل بدلنا چاہتی ہیں، یوں سمجھ لیجیے کہ سندھ کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا یہ متفقہ اور آخری”سیاسی فیصلہ“ ہے کہ جب کراچی کے جزیرے آباد ہوں گے تو تب ہی جا کر شہر کراچی بھی آباد ہو گا اور جزیروں کی محفوظ آباد کاری کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ ”وفاق پاکستان،کراچی کے جزیروں سے کوسوں دور رہے“۔

سندھ کی سیاسی جماعتوں اور وفاقی حکومت کی سیاسی آپا دھاپی کا شرمناک نظارہ کرتے ہوئے کراچی کے عوام تو بس اتنا سوچ رہے ہیں کہ”یہ سب مل جل کر،کراچی کوبدل رہے ہیں یا کراچی سے بدلہ لے رہے ہیں؟“مجھ نا سمجھ کے پاس تو اس سوال کا کوئی جواب موجود نہیں ہے اگر آپ کے پاس ہو تو ضرور بتائیے گا،اہلیان کراچی پر آپ کی عنایت ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan Ka Muashi Hub Karachi Berehem Mojoon Ki Nazar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.