پاکستان کے حصول کا سفر

شدھی اور شنگھٹن سے بچنے کیلئے مسلم لیگ بنائی گئی جیسے آگ اور پانی اکھٹے نہیں ہو سکتے ،ایسے ہی ہندو اور مسلمان ایک نہیں ہوسکتے

پیر 13 اگست 2018

Pakistan ke hasol ka safar
 زبیر یافاروق
پاکستان ایک ایسے گھنے درخت کی مانند ہے جس کی ٹھنڈی چھاؤں تلے نہ صرف مسلمان بلکہ اس میں رہنے والی تمام اقلتیں اس ٹھنڈی چھاؤں سے مستفید ہو رہی ہیں لیکن اس ٹھنڈی چھاؤں کو حاصل کرنے اور اس گھنے درخت کو پروان چڑھانے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے خون سے اس کی جڑوں کو مضبوط کیا ۔اور ابھی تک ہمارے ملک کے محا فظ اس گھنے درخت اور اس کی پرا من چھاؤں میں رہنے والے تمام پاکستانیوں کی اپنی جان پیش کرکے احفاظت کرتے ہیں پاکستان بر صغیر کے مسلمانوں کی بے پناہ قر با نیوں اور قائد اعظم کی دن رات کی کوششوں اور محنت کے بعد 14اگست 1947ء دنیا کے نقشے پرا بھرا ۔

پاکستا ن کی شکل میں جب مسلمانوں نے اپنے لئے ایک ایسی جگہ تلاش کرلی جس کی ہوا اور مٹی ان کے لیے قابل مسرت اور فرحت تھی ،جہاں انہوں نے سکھ کا سا نس لیا لیکن اسی حصول کا سفر اتنا ہی مشکل اور گھٹن تھا اور سفر کے دوران مسلمانوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو قربان ہوتے دیکھا اور ایسی قربانیاں جو کہ دل ہلادینے والے واقعات پر مبنی ہوں ۔

(جاری ہے)

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کو مسلمانوں سے بغاوت کی بو آنے لگی جس پر مسلمانوں پر ڈال کر ان کو باغی قرار دے دیا گیا اور مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھ کر ان کے خلاف انتقامی کا رروائیاں شروع کردی گئیں مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے ان کی املاک اوجائیدادوں کو ضبط کر لیا جاتا ۔انہیں ملازمتوں سے نکال دیا جاتا اور کسی بھی مسلمان کو یہ حق حاصل نہ ہوتا کہ وہ سر کاری ادارے میں نوکری کر سکے سیاست سے مسلمانوں کو محروم کر دیا گیا اُن کے پاس یہ حق نہ تھا کہ وہ چناؤ کے وقت اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں۔

انگریزوں کی ان سازشی کا رر وائیوں نے مسلمانوں کو تباہ کر دیا اس حالت میں سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کا سوچا اور اعلی گڑھ تحریک کا آغاز کیا جس کا مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ،معاشی ،سماجی صورت حال کو بہتر بنانا تھااور وہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ۔شاہ ولی اللہ ایسے شخص تھے جنہوں نے دو قومی نظریے کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا ان کا کہنا تھا ۔

” اس وقت حکومت میں تمام عمل دخل ہندوؤں کے ہاتھ کا تھا ،کوئی ا ہل کار اورکارکن اس طائفہ سے باہر نہیں تمام دولت انہیں کے گھروں میں جمع ہے اورہر تکلیف اور مصیبت مسلمانوں پر آتی ہے اگر کفا ر کا غلبہ اس طرح بھاری رہا تو گمان تھا مسلمان اسلام سے بیگانہ ہوجائیں گے اورزیادہ زمانہ گزرے گا اور وہ ایسی قوم بن کر رہ جائیں گے جو نہ اسلام کو جانتے ہوں گے نہ کفر کو ۔

یہ بہت بڑی مصیبت ہوگی “شاہ ولی اللہ کے بعد سرسید احمد خان وہ ایسے شخص تھے جنہوں نے مسلمانوں کے لیے قوم کا لفظ استعمال کیا وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو قومیں سمجھتے تھے انھوں نے کہا ”ہندواور مسلمانوں کو اکٹھا کرنا اس طرح ناممکن ہے جس طرح آگ اور
پانی اکھٹے نہیں ہو سکتے “وہ ہندوؤں کو دو قومیں سمجھتے تھے بعد میں علامہ اقبال  اور قائداعظم محمد علی جناح  نے اس نظریے پر اپنے سیاسی نظریہ کی بنیاد رکھی جب 1885ء میں انڈین نیشنل کانگرس کا قیام عمل میں آیا تو اس کی پالیسیوں کے مسلمان پر برے اثرات مرتب ہوئے اس کی تمام تر پالیسیاں ہندوؤں کے مفاد میں تھیں اور وہ انہیں کے حقوق کے لیے آزاد بلند کرتے تھے ۔

اس صورت حال میں مسلمانوں کو اپنے حقوق اور مطالبات کو ہندوؤں اور برطانوی حکومت کے سامنے رکھنے کے لیے ایک الگ جماعت کی ضرورت تھی 1852ء انڈین کونسل کے ایکٹ کے تحت 1906ء تک انڈین کونسل میں ایک بھی مسلمان نہیں خپاجاسکا اس کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کا جذبہ ختم ہوگیا ۔پھر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے 30دسمبر 1960ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے بعد 1909ء میں مسلمان علیحدہ انتخابات کا حق مل گیا مسلمانوں اور ہندوؤں کے اتحاد کی کوششوں کو ہندو انتہا پسند تنظیموں نے بڑا نقصان پہنچا یا اور ان تنظیموں کے مسلمانوں کے اندر الگ جماعت کا جذبہ پیدا کیا بھی یہ تنظیمیں کبھی
India for indiansalone کا نعرہ لگاتیں تو کبھی مسلمانوں کوختم کرنے کی کوشش میں مسلمانوں کو بھی ہندو بنا یا چا ہتیں تو مسلمانوں نے شدھی اور سنگ شنگھٹن جیسی تنظیموں سے بچنے کے لیے اوراپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی ایک علیحدہ جماعت بنائی 1913ء میں قائداعظم نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ۔

ایک دفعہ قائداعظم سکول او ر کالج کے طلباء سے خطاب کر رہے تھے کہ ان میں سے کسی ایک ہندو لڑکے نے پوچھا کہ آپ ہندوستان کو تقسیم کیوں کرنا چاہتے ہیں ہم میں اور آپ میں کیا فر ق ہے ؟قائداعظم سن کر تھوڑی دیر کے لیے خاموش رہے پھر ایک پانی کا گلاس منگوایا آپ نے اس میں سے تھوڑا پانی پی کر گلاس میز پر رکھ دیا پھر اس ہندو لڑکے کو بلایا اور اس باقی بچا ہو ا پانی پینے کو کہا تو اس نے پانی کو پینے سے انکار کر دیا پھر آپ نے وہی پانی ایک مسلمان لڑکے کو پینے کو کہا تواس نے اُس پانی کو پی لیا تو آپ دوبارہ طلباء سے مخاطب ہوکر کہا ہم میں اور آپ میں یہ فرق ہے ۔

1928ء میں نہرو رپورٹ پیش کی گئی جس پر عمل کے نتیجے میں مسلمانوں کے حقوق متا ثر ہونے کا ڈر تھا تو قائداعظم نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفط کے لیے نہرو رپورٹ کے جواب میں 1929ء کو چودہ نکات پیش کئے۔ اور اس کے بعد 1930ء میں ڈاکٹر علامہ اقبال کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنا تا ریخی خطبہ پڑھا اور مسلم ریاست کے قیام کا نظریہ پیش کیا اس دوران انہوں نے کہا ”میری خواہش ہے کہ پنجاب ،سندھ،سرحد اور بلوچستان کوملا کر ایک ریاست بنادیا جائے خواہ یہ ریاست سلطنت بر طانیہ کے اندر ہو یاں باہرمجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شمال مغرب میں مسلم ریاست کا قیام مسلمانوں کا مقدر بن چکا ہے “ کانگرسی وزارتوں کے بعد 1939ء مسلم لیگ کی مجلس عا ملہ میں پہلی مرتبہ واضح انداز میں دو قومیں دو قومی نظریہ پیش کیاگیا 23مارچ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں قرار داد پاکستان منظور کی گئی مسلمان اس کو قرار دادِلاہور کہتے تھے لیکن اس منظوری کے بعد ہندوؤں کی جانب جو ردِعمل سامنے آیا وہ اس کو قرارداد ِپاکستان کہتے جس کی وجہ سے بعد میں قراردادِ لاہور کو قرارداد ِپاکستان کہا جانے لگا ۔

اور یہ پاکستان کے قیام میں بہت مفید ثابت ہوئی ۔3جون کے پلان کے تحت برصغیر کو دو ممالک پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کیا جانا تھا 14اور15اگست کی درمیانی شب برطانیہ نے برصغیر کی آزادی اور تقسیم کا اعلان کردیا یوں جدوجہد کے تسلسل سے اور برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد 14اگست 1947ء کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک خود مختار مسلم مملکت کے طور پر ابھرا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan ke hasol ka safar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.