صحافتی کردار‘غوروفکر کا متقاضی!

موجودہ صحافت کی بنیاد سترہویں صدی میں پڑی جب جرمنی اور بعض دیگر ممالک میں حالات و واقعات پر مبنی رپورٹس کی اشاعت باقاعدگی سے شروع ہوئی۔ گو رپورٹس لکھنے کا رجحان سترہویں صدی سے بھی قبل تھا لیکن وہ بہت رازدارانہ انداز میں ہوتا تھا اخبارات اور رسائل کی اشاعت عام اٹھارہویں صدی میں ہوئی جب جرمنی، برطانیہ اور فرانس سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے نکلنے والے اخبارات و رسائل کی تعداد ایک سے زائد ہوگئی اور اسی دور میں صحافت نے باقاعدہ ایک شعبہ کی شکل اختیار کر لی

Rao Ghulam Mustafa راؤ غلام مصطفی ہفتہ 4 مئی 2019

sahafti kirdaar,ghor-o-fikar ka mutaqazi !
اہل قلم دانشور اور ادیب قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں معاشرہ میں ان کا کردار بھٹکے ہوؤں کو درست سمت کے دھارے میں لانے کیلئے ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ موجودہ صحافت کی بنیاد سترہویں صدی میں پڑی جب جرمنی اور بعض دیگر ممالک میں حالات و واقعات پر مبنی رپورٹس کی اشاعت باقاعدگی سے شروع ہوئی۔ گو رپورٹس لکھنے کا رجحان سترہویں صدی سے بھی قبل تھا لیکن وہ بہت رازدارانہ انداز میں ہوتا تھا اخبارات اور رسائل کی اشاعت عام اٹھارہویں صدی میں ہوئی جب جرمنی، برطانیہ اور فرانس سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے نکلنے والے اخبارات و رسائل کی تعداد ایک سے زائد ہوگئی اور اسی دور میں صحافت نے باقاعدہ ایک شعبہ کی شکل اختیار کر لی۔


 1920ء میں جب ریڈیو نشریات کا آغاز ہوا تو اخبارات و رسائل کے مقابلہ میں حالات سے آگاہی بہت تیز اور وسیع تر علاقوں تک ممکن ہوئی اور پھر ریڈیو نشریات سے ہی الیکٹرانک میڈیاکی بنیاد پڑی۔

(جاری ہے)

1940ء تا 1960ء کے بعد صحافتی میدان میں ٹیلی ویژن کی ایجاد نے تبدیلی اور ترقی کے عمل کو تقویت دی 2000ء میں انٹرنیٹ کے آغاز سے حالات و واقعات تک رسائی میں مزید تیزی آ گئی۔

2002ء میں جب نیوز چینلز آنا شروع ہوئے تو جہاں خبریت کے مقابلہ کی فضا کو تقویت ملی وہیں سنسنی خیزی خبریت نے بریکنگ نیوز کی جگہ لے لی اور پھر یہیں سے زرد صحافت کی بنیاد پڑی زرد صحافت (Yellow Journalism) کی ایک پست ترین شکل ہے جس میں کسی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر زور دیتے ہوئے اس خبر کی شکل اتنی مسخ کر دی جاتی ہے کہ اس کا اہم پہلو قاری کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔

 یہ اصطلاح انیسویں صدی کی آخری دہائی میں وضع ہوئی جب نیویارک کے اخبارات کے رپورٹرز اپنے اخبارات کی اشاعت بڑھانے کیلئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر وحشت ناک اور ہیجان انگیز رپورٹنگ کرتے تھے ۔زرد صحافت کی اصطلاح دراصل اس سنسنی خیز ”کامک سیریل“ سے ماخوذ ہے جو (Yellow Kid) کے عنوان سے امریکی اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔ آپ اردو صحافت کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے بھلا اس کے کردار کو کون فراموش کر سکتا ہے۔

 صحافت جس کے راہبر کبھی مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان ہوا کرتے تھے۔ بدقسمتی کہہ لیجئے آج صحافت جیسے مقدس پیشے کی شہہ رگ پر ایسے افراد گرفت کر چکے ہیں جن کا مقصد صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ صحافت اور تجارت اس انداز میں گڈمڈ ہوئی کہ صحافت نے کاروبار کا منصب سنبھال لیا کبھی ایک وقت تھا کہ جب صحافت کے بے باک و نڈر علم کے خزینوں سے مخمورعمل کے شیدائی، فکر و فن کے سرتاج صحافیوں نے اپنے قلم کو بیرونی طاقت کیخلاف وقف کر رکھا تھا۔

ان کے نزدیک صحافت پیشہ نہ تھی انہوں نے قلم کی حرمت پر آنچ نہ آنے دے کر اس قلم سے وہ کام لیا جو کسی زمانے میں شمشیر و سناں اور تیر و تفنگ سے لیا جاتا تھا۔
 آپ 1857ء کی جنگ آزادی پر نظر دوڑا لیں ہندوستانیوں کے دل و دماغ میں قلم سے نکلے لفظوں نے جو آزادی کی روح پھونکی پھر ذہنوں اور دلوں میں اٹھنے والی یہی بغاوت آزادی کی بنیاد ٹھہری پس پردہ فوج میں کارتوسوں کی تقسیم کے جس منحوس واقعہ کا ذکر تاریخ کے اوراق میں آج بھی سر اٹھاتا نظر آتا ہے۔

اس واقعہ کو پر لگا کر ہوا کے دوش پر اڑا کر پورے ملک میں پھیلاکر جس طرح ضمیر کو جھنجھوڑا یہ روح پھونکنے کا عظیم کارنامہ صرف اُردو اخبارات کے ہی حصہ میں آیا ۔شیش محل کے بالا خانوں، سیاسی ایوانوں سے لے کر غربت کدوں کی بوسیدہ دیواروں تک اور کھیل کے میدانوں سے لے کر زنداں کے روشن دانوں تک اس کو جو اذن بازیابی حاصل ہے اس کی بنیاد ہم صحافت پر رکھ سکتے ہیں۔

 صحافت ملک وملت کا آئینہ دار اور صحافی کو تاریخ کا گواہ کہا گیا ہے صحافت نے نہ صرف سیاسی چیرہ دستیوں کے پردوں کو چاک کیا بلکہ عوام کے معاشی استحصال کی نقاب کشائی کا فریضہ بھی سر انجام دیا ۔سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا قلم سے ٹپکنے والی روشنائی اور شہیدکے بدن سے ٹپکنے والا لہو ان دونوں میں یہ خصوصیت اور انفرادیت ہے کہ ان میں سے جو ٹپکتا ہے جم جاتا ہے صحافت کا قد کاٹھ بلند کرنے میں ان ہزاروں صحافیوں کا خون بھی شامل ہیں جنہوں نے حالات کے جبر کے سامنے سینہ سپر ہو کر سچائی کا علم بلند رکھا ۔

مقام افسوس کہ آج پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ معتبر نام اشرافیہ حکمرانوں کی چوکیداری پر مامور نظر آتے ہیں حکمرانوں نے زر سے ان کی عقل سلیم تک چھین لی کوئی تخت لاہور کے ستونوں کو کندھا دے کر مضبوطی دیتا نظر آتا ہے تو کوئی جئے بھٹو کے کارڈ کو تقویت دینے میں اپنے فرائض منصبی سے غداری کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ ملت کے وہ کردار ہیں جو معاشرہ کے دل، کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں ملک کا چوتھا ستون عوام کی امیدوں کا مظہر ہے شعبہ صحافت سے جڑے یہ کردار اگر اس شعبے سے جڑے تقاضوں کو ہی مد نظر رکھ کر اپنا فریضہ ادا کریں تو یقین جانئے اناؤں سے گندھے بت عوام کے قدموں میں ڈھیر ہو کر پاش پاش ہو جائیں۔

 
جب یہی لوگ اپنے اپنے مفادات کو گرہ سے باندھ کر ریاست کی زبان بولنے لگ جائیں تو پھر اس قوم کو پستیوں میں دھکیلنے والے کرداروں کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ قلم کی تقدیس اسی میں ہے جب آپ اس شعبہ سے جڑے تقاضوں کے امین ٹھہریں۔ شعبہ صحافت سے منسلک وہ کردار جو لیڈنگ رول پلے کر سکتے ہیں اسی ڈگر پر چلتے رہے تو یہ قوم مسائل کے عفریتوں سے لڑتی لڑتی تھک ہار کر تاریخ کا حصہ بن جائیگی اور چوکیداری پر بیٹھا میڈیا انہی اشرافیہ خاندانوں کو مائل پرواز ہوتا دیکھے گا جب آنکھوں سے زر کی پٹی کھلے گی تو حالات بہت کچھ بدل چکے ہوں گے آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو سوائے پچھتاوے اور دھول کے کچھ نظر نہیں آئے گا ۔

آغا شورش کاشمیری ایک جگہ فرماتے ہیں یار لوگ کچھ بھی کہتے رہیں مجھے یقین ہے کہ محشر کے روز بارگاہ ایزدی میں اس عنوان سے سرخرو ہوں گا کہ میں اپنے آقا و مولا سرور کائنات ﷺ کے سامنے شرمندہ چہرے کے ساتھ پیش نہیں ہونا چاہتا قلم و زبان قدرت کا عطیہ ہے انہیں پیشہ بنانے کا وہی لوگ حوصلہ کر سکتے ہیں جن کی غیرت آوارہ مصرعوں کی طرح اڑتی پھرتی ہے قلم کو ہمیشہ ضمیر کی آواز پر اٹھاتا ہوں لہٰذا کسی لفظ پر اس لحاظ سے ندامت نہیں ہوئی کہ اس میں کوئی مخفی اشارہ ہے یا اس پر کسی اور کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔

ملک کے موجودہ حالات کا جائزہ لے لیں عوام آج بھی مسائل سے دوچار اور بنیادی ضروریات زندگی سے عاری مایوسی کے دوراہے پر کھڑی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مفادات کی گرہ سے بندھا میڈیا عوام کے لئے درست سمت کا تعین نہ کر سکا جس کے باعث گھمبیر مسائل عوام کے لئے قتل گاہیں بن چکے ہیں اکیسویں صدی کے میڈیا پلرز کے لئے یہ حالات غور و فکر کے متقاضی ہیں کہ یہ قوم آج ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں جگہ کیوں نہ بنا سکی۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

sahafti kirdaar,ghor-o-fikar ka mutaqazi ! is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 May 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.