سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں این آئی اے کا شرمناک رول

یہ واقعہ18 فروری 2007ء کی شب میں ہریانہ میں پانی پت کے نزدیک پیش آیا تھا اور اس میں 68 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں43 پاکستانی، 10 ہندوستانی اور15 نا معلوم افراد تھے

سہیل انجم پیر 1 اپریل 2019

samjhauta express case mein N.i.A ka sharamnak rule
رفتہ رفتہ وہ سارے ملزم چھوٹتے جا رہے ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنا کر بم دھماکے کیے تھے اور جن میں بے شمار مسلمانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ ایسے ہی معاملات میں ایک معاملہ سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ معاملہ بھی ہے۔ یہ واقعہ18 فروری 2007ء کی شب میں ہریانہ میں پانی پت کے نزدیک پیش آیا تھا اور اس میں 68 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں43 پاکستانی، 10 ہندوستانی اور15 نا معلوم افراد تھے۔

دھماکہ کرنے کے لیے انتہائی طاقتور بموں کا استعمال کیا گیا تھا اور اس میں دو بوگیاں خاکستر ہو گئی تھیں۔ جبکہ ایک سوٹ کیس ایسا ملا تھا جس کے بم پھٹے نہیں تھے۔
 اس کیس میں آر ایس ایس اور اس سے منسلک تنظیموں کے کارکنوں کو ملزم بنایا گیا تھا جن میں سوامی اسیمانند سرفہرست تھا۔

(جاری ہے)

ان دھماکوں کی سازش آر ایس ایس کے بڑے رہنماؤں کی مرضی اور ان کی اجازت سے تیار کی گئی تھی۔

سوامی اسیمانند مغربی بنگال کا باشندہ ہے۔ وہ شروع سے ہی آر ایس ایس سے وابستہ رہا ہے۔ وہ کنوارہ ہے اور اس نے پوری زندگی آر ایس ایس کو دے دی ہے۔ آر ایس ایس قیادت نے اس کے لیے ”ون واسی کلیان آشرم“ نامی ایک تنظیم بنائی جو قبائلیوں میں کام کرتی ہے۔
 سوامی کو اس کا قومی صدر بنایا گیا تھا۔ جب سوامی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بم دھماکوں کی سازش کی پلاننگ کے بارے میں بتایا تو اس وقت کے آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری جو کہ اب سر سنگھ چالک ہیں یعنی موہن بھاگوت اور مسلم راشٹریہ منچ کے سربراہ اندریش کمار نے اس کی نہ صرف یہ کہ بخوشی اجازت دی بلکہ یہ بھی کہا کہ یہ کام ہندوتو کے پرچار کے لیے ہوگا اور اس کو مجرمانہ رنگ نہیں دیا جائے گا۔

ایک سینئر صحافی لینا رگھوناتھ نے اس بارے میں کارواں میگزین میں ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے جس میں بم دھماکوں کی سازش کی پرتیں کھولی گئی ہیں۔ بعد میں جب اندریش کمار کا نام سامنے آیا اور ان سے پوچھ گچھ ہوئی تو میناکشی لیکھی نے جو کہ اس وقت مرکز میں وزیر ہیں، عدالت میں ان کی پیروی کی۔
 آر ایس ایس کی جانب سے اندریش کے حق میں دھرنا دیا گیا جس میں بھاگوت بھی شامل ہوئے۔

یہ کہا گیا کہ اندریش پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح دباؤ میں آکر اندریش کا نام اس معاملے سے نکال دیا گیا۔ اس کیس کی جانچ پہلے ہریانہ پولیس کر رہی تھی لیکن بعد میں اسے این آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔
 گزشتہ سال مالیگاؤں کیس میں این آئی اے کی جانب سے پیروی کرنے والی ایڈیشنل سولیسیٹر جنرل روہنی سالیان نے یہ بیان دے کر سنسنی پھیلا دی تھی کہ حکومت کا ان پر دباؤ ہے کہ وہ مالیگاؤں کیس میں ہندو ملزموں کا معاملہ آگے نہ بڑھائیں۔

اسی وقت یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ سمجھوتہ کیس میں کیا ہونے والا ہے۔ این آئی اے نے حکومت کے اشارے پر اس کیس کو انتہائی کمزور بنایا اور ایسا کوئی ٹھوس ثبوت جان بوجھ کر پیش نہیں کیا جس سے ملزموں کو سزا ہو سکے۔ لہٰذا پنچ کلا کی خصوصی این آئی اے عدالت نے ثبوتوں کے فقدان کی وجہ سے تمام چاروں ملزموں کو الزامات سے بری کر دیا۔ باقی دیگر چار ملزمان کبھی عدالت میں حاضر ہی نہیں ہوئے۔

انھیں مفرور قرار دے دیا گیا۔ جبکہ ایک ملزم سنیل جوشی کو جسے ماسٹر مائنڈ بتایا گیا تھا، مدھیہ پردیش کے دیواس میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ دھماکہ پہلے کے دھماکوں کی مانند مسلمانوں کو نشانہ بنا کر کیا گیا تھا۔ جس وقت دھماکہ ہوا تھا جائے واردات پر انسانی اعضا شاخ سے ٹوٹے پتوں کی مانند بکھرے ہوئے تھے۔ پاکستان کے ایک جوڑے نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پانچ بچوں کو جل کر ہلاک ہوتے دیکھا مگر وہ انھیں بچا نہیں سکے۔

اس کیس میں جو پاکستانی گواہ تھے اور ان میں بہت سے عینی شاہد تھے، بلائے ہی نہیں گئے۔ ان سے بیان ہی نہیں لیا گیا۔ ایک پاکستانی متاثرہ کے بیٹی راحیلہ وکیل نے کہا ہے پاکستانی شادہوں کو ویزے ہی نہیں جاری کیے گئے اور نہ ہی انھیں مناسب طریقے سے سمن دیے گئے۔
اب مذکورہ فیصلے کی پوری نقل عام کی گئی ہے جس میں فاضل جج جگدیپ سنگھ نے این آئی اے کی ناکارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔

انھوں نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ انھیں شدید دکھ اور غصہ ہے کہ انتہائی ہلاکت خیز تشدد برپا کرنے والے بغیر سزا کے ہی چھوٹ جا رہے ہیں۔ بقول ان کے اس کیس میں جو بہترین شواہد تھے انھیں استغاثہ یعنی این آئی نے روک لیا تھا، وہ پیش ہی نہیں کیے گئے۔ 
استغاثہ کے ثبوتوں میں بہت جھول ہے اور دہشت گردی کا یہ واقعہ سلجھایا ہی نہیں جا سکا۔

عدالت عوامی خیال اور سیاسی بحث کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتی۔ اسے بالآخر ثبوتوں کی بنیاد پر قانون کے مطابق فیصلہ سنانا ہوتا ہے۔ اس کیس میں مشتبہ افراد کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت ہی نہیں دیا گیا۔ جج نے اس کیس میں بڑی تعداد میں گواہوں کے منحرف ہو جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں گواہوں کے تحفظ کے لیے ایک قابل عمل اسکیم کی ضرورت ہے۔

2008ء میں بھوپال میں ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں اسیمانند نے شرکت کی تھی۔ اس میٹنگ میں اسیمانند نے کہا تھا کہ ہندووں کو بھی ان جہادیوں کی مانند جو کہ ہندو عبادت گاہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں انتقامی کارروائی کرنی چاہیے۔
 اس سازش کے سلسلے میں این آئی کے واحد گواہ ڈاکٹر رام پال سنگھ سے کوئی جرح نہیں کی گئی۔ این آئی اے نے عدالت میں کہا تھا کہ 2007ء میں پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن کے سی سی ٹی وی کیمرے کے فوٹیج موجود ہیں۔

فاضل جج کے مطابق یہ بہترین ثبوت تھا لیکن این آئی اے نے اسے اپنے پاس روک لیا۔ جو بم نہیں پھٹے تھے ان کے سوٹ کیس کا کور اندور کے ایک درزی نے تیار کیا تھا۔ لیکن اس ثبوت کو بھی جانچنے، پرکھنے اور اس کی بنیاد پر ملزموں کی شناخت کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ فیصلے میں جج نے لکھا ہے کہ این آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ مختلف موبائیل فون کی کال ڈٹیل سے یہ انکشاف ہوا تھا کہ ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی پرگیہ ٹھاکر اور اسیمانند ایک دوسرے کے رابطے میں رہے ہیں۔

لیکن اس نے ان کال ڈٹیل کو بھی حقائق کو سامنے لانے کے لیے عدالت میں پیش نہیں کیا اور نہ ہی موبائیل فون کے مالکوں کے بارے میں کوئی ثبوت دیا۔
فاضل جج کے ان انکشافات سے بالکل واضح ہے کہ این آئی اے نے جان بوجھ کر ملزموں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں دیا تاکہ انھیں رہا کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ جب یہ دھماکے ہوئے تھے تو اس وقت کے مرکزی وزرا پی چدمبرم اور سشیل شنڈے نے ہندو دہشت گردی کی بات اٹھائی تھی۔

اس پر آر ایس ایس اور بی جے پی نے وہ واویلا مچایا تھا کہ انھیں اپنا بیان واپس لینا پڑا تھا۔ فیصلہ آنے کے بعد مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے الفاظ چبا چبا کر کہا ہے کہ ہندو دہشت گردی کا الزام ہندووں کو بدنام کرنے کے لیے لگایا گیا تھا۔ مگر اب عدالت نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔ 
لیکن انھوں نے عدالتی فیصلے کی ان تفصیلات پر کوئی رائے زنی نہیں کی جن میں این آئی اے کی ’بدمعاشیوں‘ کو اجاگر کیا گیا ہے۔

در اصل موجودہ حکومت جاتے جاتے سمجھوتہ ایکسپریس کے ملزموں کو بری کرانا چاہتی تھی اور وہ این آئی اے کے توسط سے اس میں کامیاب ہو گئی ہے اور این آئی اے نے اس فیصلے کے خلاف اوپری عدالت میں چیلنج نہ کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ جبکہ اصولی طور پر اسے فیصلے کو چیلنج کرنا چاہیے۔ اس کیس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کس طرح اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے اور ان سے اپنی پسند کے کام کرواتی ہے۔

متعدد سیاسی رہنماؤں نے این آئی اے کی کارکردگی اور اس کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی راج میں یہی ہے قانون کی حکمرانی۔ اس حکومت میں ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی جن کا تعلق آر ایس ایس سے ہو اور جن کو ’ہندو دہشت گرد‘کہا جاتا ہے۔ یہ کیس این آئی اے نے قائم کیا تھا اور اسے ملزموں کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کرنے چاہیے تھے۔ لیکن اس نے اس سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تاکہ ان دہشت گردوں کو بری کر دیا جائے۔ ایسے میں یہ کیسے یقین کیا جائے کہ اس حکومت میں مظلوموں کو انصاف ملے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

samjhauta express case mein N.i.A ka sharamnak rule is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 April 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.